ڈالر کی اونچی اڑان سےنمٹنے کیلئے پاکستان کا ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت قرار دیا جارہا ہے جس کی بدولت مقامی کرنسی میں لین دین سے زر مبادلہ کی بچت ہوسکے گی، زمینی فاصلے کم ہونے سے تجارتی اشیا کی نقل و حمل کم خرچ اور آسان ہو گی۔ نیز عالمی کساد بازاری کے تناظر میں خطے کے ممالک بہت سی مشکلات سے بچ سکیں گے۔ حال ہی میں افغانستان سے کوئلے کی درآمد کا فیصلہ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے جس کی خریداری کیلئے پاکستانی کرنسی استعمال ہو سکے گی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان دیرینہ تجارتی، ثقافتی اور برادرانہ تعلقات چلے آرہے ہیں تاہم تجارت کا شعبہ کچھ عرصے سے گراوٹ کا شکار ہے جسے دور کرنے کیلئے وفود کے تبادلوں کی شکل میں دوطرفہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ گذشتہ ماہ باہمی تجارت بارٹر سسٹم کے تحت کرنے پر اتفاق ہوا ہے جو بہت اچھی پیشرفت ہے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی بدھ کے روز ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں مشترکہ مفادات کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان موجودہ تجارتی حجم اپنی استعداد سے کم ہےجسے بڑھانے کیلئے اسمیں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ پاکستان کو ایک طرف توانائی کے شعبے میں معدنی تیل، گیس اور بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے تو دوسری طرف ایران اس کی زرعی اور صنعتی پیداوار کا ایک بڑا خریدار ہے۔ اس کے باوجود دونوں کا باہمی تجارتی حجم گذشتہ سال محض 1700ملین ڈالر کے لگ بھگ رہا حالانکہ اسے 2023تک پانچ ہزار ملین پر لے جانے کا ہدف مقرر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ریل اور سڑک کے زمینی راستے موجود ہیں جنھیں بہتر بناکر باہمی تجارت کے ساتھ ساتھ سفری سہولیات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998