• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذہن ہمارے جسم کا وہ حصہ ہے، جہاں خیالات بنتے اور جنم لیتے رہتے ہیں، یہ ایک لامتناہی اور کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ہمارے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی خیال اور سوچ چلتی رہتی ہے۔ کبھی اچھے کبھی برے، کبھی مثبت اور کبھی منفی خیالات۔ مثبت سوچ کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے۔ کامیاب زندگی، مثبت سوچوں اور روّیوں جب کہ ناکام زندگی منفی سوچوں اور روّیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سوچ انسانی ذہن پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے۔ زندگی کا ہر منظر سوچ سے جنم لیتا ہے اور سوچ پر ہی ختم ہوتا ہے۔ 

ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل شخص تعمیری فعل انجام دیتا ہے۔ ہماری زندگی پر ہماری سوچ اور خیالات مستقل طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کو فلسفی دیکارت نے یوں کہہ کر اپنے وجود کی دلیل دی،’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں!‘‘ اس سوچ کے ہم نوا شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں‘‘۔ 

یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں تو آپ کر سکیں گے اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے تو کچھ بھی کر لیں آپ وہ کام نہیں کر سکیں گے۔ مثبت اور منفی خیالات انسان کے ذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور انسان کی زندگی کے بیشتر زاویے اس کی ذہنی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے اور ان جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔

مثبت سوچ، خوشحال زندگی 

سوچ سے خیال، خیال سے نظریہ، نظریہ سے مقصد، مقصد سے تحریک، تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی جنم لیتی ہے اور کامیابی کا احساس آپ کو زندگی میں خوشحال اور صحت مند بناتا ہے۔ ہمارے ذہن کے سوچنے کا انداز دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ 

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ صحت مند زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ ہم جیسا سوچتے ہیں، ہماری شخصیت بھی ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو پراعتماد، کامیاب، ذہین اور پرکشش تصور کریں گے تو ہماری شخصیت میں یہی خصوصیات شامل ہونا شروع ہوجائیں گی اور اگر ہم اپنے آپ کو کمتر اور حقیر محسوس کریں گے تو ہم ویسے ہی بن جائیں گے۔ اچھی اور بہتر زندگی کے لیے زندگی کا بامقصد اور بامعنی ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مقاصد اور اہداف ہمیں زندگی کی قدر و قیمت سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

اچھی سوچ، ذہنی دباؤ سے نجات 

ذہنی دباؤ یا ٹینشن کو ہر بیماری کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ذہنی اور جسمانی عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔ دورِ حاضر کی تیز رفتار زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں نے ہر شخص کو ٹینشن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ ذہنی دباؤ انسان کو چڑچڑے پن کا شکار کردیتا ہے اور صحت کے لیے خطرے کی علامت ہے ۔ ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے مثبت انداز فکر اپنانا بے حد ضروری ہے۔ حالات کتنے ہی منفی کیوں نہ ہو جائیں اپنے اعصاب کو قابو میں رکھ کر اور حالات کو خود پر حاوی نہ ہو نے دے کر خودکو ٹینشن اور اذیت سے بچایا جا سکتا ہے۔ 

آپ جتنا چیزوں کو اپنے سر پر سوار کریں گے اتناہی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا اور آپ کا دماغ مزید اُلجھتا چلا جائے گا ۔ ایسی صورتحال میں خود کو ریلیکس رکھنا اور سوچ کو مثبت چیزوں پر مرکوز کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر آپ کسی بھی مشکل کا شکار ہوں تو بجائے دماغ کی کھچڑی بنانے کے کچھ دیر کسی بھی پرسکون جگہ پر لیٹ جائیں۔ ذہن کو مکمل طور پر خالی چھوڑ دیں اور پھر چیزوں کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا شروع کریں۔

متوازن رویہ

انسان ہمیشہ جیتنا چاہتا ہے اسے تمام تر خواہشات دسترس میں چاہئیں اور اگر کبھی حاصل کی جدوجہد لاحاصل میں بدل جائے تو غصّے کی شدید لہر پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور غم و غصے کی اس لہر پر اگر صبر کاپانی نہ ڈالا جائے تو منفی سوچ کے لیے رستہ بنا لینا مشکل نہیں رہتا۔ اس کے لیے متوازن اور حقیقت پسند روّیہ اپناتے ہوئے ناکامی کو قبول کرلیا جائے۔ جیت اور کامیابی کا جشن تو بہت بار منایا جاتا ہے لیکن ہار کا خیر مقدم کرنا مشکل مرحلہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہم نے ہارنا سیکھا ہی نہیں۔ 

جیت سے ملنے والی خوشی کا حقیقی اندازہ تب تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک لاحاصل کی کڑواہٹ کو مٹھاس میں نہ بدل دیا جائے کیونکہ ناکامی کو تسلیم کر لینے کے بعد نئے سرے سے جب جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس بار سعی ٔ پیہم اور مثبت سوچ کی وجہ سے جیت کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ انسان کے لیے قابلِ قدر اقدام یہ ہے کہ جب وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرنے لگے تو کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کو بھی یاد رکھے اور اپنی گزشتہ لغزشوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدل دے۔

خیالات کا زاویہ، سوچ اور عمل کی شکل کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ برستی بارش کے قطرے سیپ اور سانپ، دونوں کے منہ پر گرتے ہیں لیکن سیپ اس قطرے کو موتی اور سانپ زہر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔ خیالات توانائی کی نرم ترین قسم ہیں۔ بالکل گرم لوہے کی طرح جس کو اپنی مرضی کے رُخ پر موڑا جا سکتا ہے، اسی طرح خیالات کو بھی جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں، ڈھل جاتے ہیں۔ اب یہ انسان کی اپنی مرضی و منشا پر منحصر ہے کہ وہ منفی روش کے دھارے میں بہہ جائے یا پھر مثبت روی اور ثابت قدمی کا دامن تھا م لے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کرے۔

صحت سے مزید