• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد مطاہر خان سنگھانوی

چند ماہ قبل ہبل ٹیلی اسکوپ سے چھ گنا زیادہ طاقتور جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے کھینچی گئی پہلی تصویرمنظر عام پر آئی تھی۔ اس میں دکھائی دینے والی تمام کہکشائیں 13 ارب نوری سال دور ہیں، یہ اب تک کی کائنات کی سب سے دور اور واضح تصویر ہے۔ ایک ریت کا ذرّہ اپنی انگلی پر رکھیے اور آسمان کی جانب کریں، جتنی جگہ آسمان پر یہ ریت کا ذرہ گھیرے گا، اتنے سے علاقے کو جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ نے لگاتار 12 گھنٹے فوکس کیے رکھا اور یہ کہکشائیں کھوجی ہیں۔ 

یعنی آسمان پر ریت کے ذرہ برابر حصہ پر فوکس سے ہزاروں کہکشائیں دکھائی دے رہی ہیں۔ زمین کے اطراف میں ہر ذرّے برابر حصہ پر فوکس کرنے سے بھی تقریباً اس سے ملتا جلتا منظر دیکھنے کو ملے گا۔کائنات کی تعریف سادہ الفاظ میں تو یوں کی جاسکتی ہے کہ وہ سب کچھ جو موجود ہے وہی کائنات ہے۔ اور بنیادی طور پر دو ہی چیزیں ہیں جو موجود کے دائرے میں آتی ہیں ایک مادّہ اور دوسرا توانائی، لہٰذا کائنات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام مادّے اور توانائی کو ملا کر مشترکہ طور پر کائنات کہا جاتا ہے۔ عموماً کائنات سے مراد اجرام فلکی اور ان کے مابین موجود فضائیں اور ان کے مربوط نظام لی جاتی ہے جو قدرت کی طرف سے بنائے گئے ہیں، مگر درحقیقت کائنات میں وہ سب کچھ ہی شامل ہے جو موجود ہے۔ 

یہ ذرّات اور توانائی کی تمام موجودہ اقسام اور زمان و مکاں کا وہ مجموعہ ہے، جس میں تمام عوامل و واقعات رونما ہوتے ہیں

بعض اوقات اس لفظ کا استعمال انسانی حیات اور اس سے متعلقہ چیزوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور یہاں بھی اس سے مراد ہر موجود شے کی ہوتی ہے، یہاں تک کہ انسانی تجربات اور خود انسان بھی اس دائرے میں آجاتے ہیں۔ کائنات کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ : کائنات، ذرّات اور توانائی کی تمام موجودہ اقسام اور زمان و مکاں (space time) کا وہ مجموعہ ہے، جس میں تمام عوامل و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 

کائنات کے قابل مشاہدہ حصوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے شواہد کی مدد سے طبیعیات داں اس کل زمان و مکاں اور اس میں موجود مادّے اور توانائی اور اس میں رونما واقعات کے کل مجموعے کو ایک واحد نظام کے تحت تصور کرتے ہوئے اس کی تشریح کے لیے ریاضیاتی مثیل (mathematical model) کو استعمال کرتے ہیں۔

کائنات خود کیا ہے؟اس سلسلے میں جدید فلکیات کا کاسمولوجی میں دو متضاد سائنسی نظریے پیش کیے گئے ہیں۔ ایک عظیم دھماکے بگ بینگ کا نظریہ اور دوسرا یکسانی حالت کا نظریہ، یکسانی حالت کے نظریے کے تحت کائنات ہمیشہ سے یکساں حالت میں ہے، جس میں مادّہ کی اوسط گنجانی فاصلے یا وقت کے فرق سے گھٹتی بڑھتی نہیں بلکہ یکساں رہتی ہے۔ 

مادہ خلا میں مسلسل پیدا ہو رہا ہے۔ گو کہ اجرام فلکی دور سے دور جا رہے ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔ اس نظریہ پر جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعہ اعتراضات ہو چکے ہیں کہ اس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہی ہے۔عظیم دھماکا ’’بگ بینگ ‘‘کے نظریہ کے مطابق پہلے کائنات کا تمام مادّہ ایک انتہائی گنجان نقطہ ( ایٹم ) میں مرکوز تھا، جو آج سے دس، بارہ سے لے کر بیس ارب سال پہلے کسی وقت ایک عظیم دھماکے سے پھٹ گیا تھا، جس سے مادّہ ہر سمت بکھرنا شروع ہو گیا۔ 

تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ جس وقت دھماکا ہوا اسے کونیاتی وقت کا لمحہ صفر شمار کیا جاتا ہے اور تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ آہستہ آہستہ موجود گرم مادّہ کم گنجان اور ٹھنڈا ہوتا گیا۔ اس نظریہ کے کائناتی مفکرین نے کونیاتی ادوار بھی بتائے ہیں، جن میں کائنات کے رویئے کی تاریخ رقم و مرتب کرنے کی کوشش کی ہے اور اجرام فلکی کی پیڑھیاں بنائی ہیں۔ ایک دور میں اجرام فلکی کی ایک نسل پروان چڑھی، عمر طبعی گزاری اور ختم ہو گئی، پھر دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اور یہ عمل مسلسل عظیم دھماکے ’’بگ بینگ‘‘ کے فوراً بعد کائنات میں فقط توانائی کی لہریں تھیں۔ 

جوں جوں یہ لہریں پھیلتی گئیں ان کی مرتکز تابکار توانائی مادّے میں تبدیل ہو گئی۔ یہ مادّے پہلے شاید باریک بخارات کی شکل میں خلائے بسیط میں لامتناہی پھیلا ہوا تھا،پھر یہ سکڑتا گیا اور مرغولوں میں تقسیم ہو گیا۔ سکڑاؤ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی۔ یہ نرم مرغولے بعد میں ٹھوس شکل اختیار کرکے اجزام فلکی بن گئے۔ گو کائنات لامحدود ہے۔ لیکن آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات کا مخصوص حجم ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی کنارہ ہے، جس کے باہر کائنات نہیں ہے۔ بلکہ کچھ اور ہے۔

حقیقتاً ایسا تصور کرنا ممکن نہیں، کیوں کہ جدولیات کا بنیادی اصول ہے کہ لامحدود محدود میں تبدیل ہو جاتا ہے اور محدود لامحدود میں۔ لہٰذا صداقت تک پہنچنے کے لیےآپ کائنات کو لامحدود سمجھتے ہوئے بھی اسے مخصوص اور متعین تسلیم کریں گے۔ آئن اسٹائن کے مطابق خلا بذات خود خمدار ہے۔ خلا ایک سہ العبادی دائرہ ہے، جس میں کوئی سا بھی ممکنہ خط مستقیم چلتے ہوئے آخر کار اپنے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہ کائنات ہر لمحہ یا پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے۔

اس نظریہ کی تشریح کرنے والے بعض سائنس دانوں نے عظیم تباہی کے انجام کی پیشن گوئی بھی کی ہے اور یہ بھی پیشن گوئی بھی کی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ اور معکوس عمل شروع ہو جائے گا۔ مکان کے حوالے سے کائنات لامحدود ہے۔ یعنی کائنات کی کوئی آخری حد، کوئی سرحد اور کوئی کنارہ نہیں ہے، جہاں ہم کہیں کہ کائنات ختم ہو گئی ہو۔ یہ لامحدود ہے، لیکن یہ لامحدودیت اپنے طور پر آزادانہ محدود چیزوں سے ماوراء قائم بالذات، اپنا وجود نہیں رکھ سکتی ہے۔ لامحدودیت اور محدودیت دونوں مل کر وحدت اضداد کی تکمیل کرتے ہیں۔ 

محدود لامحدودیت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور لامحدودیت محدودیت میں۔کائنات لامحدود ہے، لامتناہی ہے۔ کائنات میں مادّہ لامتناہی طور پر مصروف ارتقاہ ہے۔ بحثیت مجموعی کائنات کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔کائنات ابدی اور مادّی دنیا کا نام ہے۔ مکان کے حوالے سے اس کا پہلو کبریٰ یہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر اربوں اور کھربوں دوسری کہکشائیں ہیں اور اسی لحاظ سے کائنات بے حدود و ثفور ہے۔ 

اس کی کوئی سرحد، کوئی ٔکنارہ، کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ پہلو صغیر یہ ہے کہ ذرات کے اندر ایٹم ہیں ایٹم کے اندر عنصری جز کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور بے انتہا ہے۔ اس پہلو کا کوئی آخری سرا، کوئی کنارہ، کوئی آخری حد نہیں ہے۔ 

ماہرین فلکیات یہ باور کرتے ہیں کہ کائنات کا فوری طور پر بھی کوئی نقطہ آغاز ہے اور اس کا من حثیت المجموع بھی ایک سلسلہ ارتقاء ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نظریہ عظیم دھماکا ( بگ بینگ ) کا ہم یعنی کائنات ایک ’’ماقبل کائنات ایٹم‘‘ کے ایک عظیم دھماکے سے پھٹ جانے سے وجود میں آئی، دھماکے سے قدیم مادّہ ہر سمت بکھر گیا، وہی کائنات ہے۔ چونکہ دھماکےسے مادّہ بکھر گیا تو وہ یقیناً مسلسل پھیل رہا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید