نوشی گیلانی
مرا سارا شہر ہی بہہ گیا
مِرے سارے لوگ اُتر گئے
کہیں بے سبب سی منافقانہ فضاؤں میں کے کسی زہر میں
کسی بد گماں سی رات کے کسی پہر میں
مِرا سارا شہر ہی بہہ گیا
مِرے سارے لوگ اُتر گئے
کوئی تہمتوں، کوئی پانیوں
کوئی دلفریب کہانیوں
کوئی خواہشوں کی گرانیوں
کوئی آنسوؤں کی روانیوں
کوئی سبز کائیوں کی جھیل میں
کوئی سُرخ و خستہ فصیل میں
کوئی آب میں،کوئی خواب میں
کوئی اپنے کردہ عذاب میں
مِرا سارا شہر ہی بہہ گیا
مِرے سارے لوگ اُتر گئے
مِرے سارے خواب بِکھر گئے
اِسی شہر میں