9نومبر 1969ء کو میکلوڈ روڈ کا نام تبدیل کرکے اسماعیل ابراہیم چندریگر روڈ (آئی آئی چندریگر روڈ) رکھ دیا گیا۔ چندریگرصاحب 1956ء میں پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے تھےاس اہم ترین شاہراہ کو آج پاکستان کی وال اسٹریٹ بھی کہا جاتا ہے۔ میکلوڈ روڈ ان کئی سڑکوں اورگلیوں میں شامل تھی جن کے نام کی تبدیلی کی تجویز کے ایم سی میں پیش کی گئی تھی۔
کچرے سے کھاد بنانے کا منصوبہ
1970ء میں بلدیہ کراچی کی کونسل نے طویل غوروخوص کے بعد شہر میں جمع ہونے والے کوڑے سے کھاد بنانے کے منصوبے کی منظوری دی۔ کہاگیا کہ دنیا کے متعدد ممالک میں ایسی ٹیکنالوجی آچکی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کچرے سے کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔ بلدیہ کراچی کو اس منصوبے سے کروڑوں روپے کی بچت ہوگی۔ کھاد کو پارکوں اور گرین بیلٹ میں ہریالی اور پودوں کے استعمال میں لانے سے اس مد میں خرچ ہونے والے وسائل اور کوڑے کو شہر سے باہر لے جانے پر اٹھنے والے اخرجات کی بھی بچت ہوگی، مگر افسوس کہ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا
کشمیر روڈ اسپورٹس کمپلیکس
بلدیہ کراچی نے شہر کے درمیان ایک عظیم الشان اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کا کام کشمیر روڈ پر شروع کیا جس کو مرحلہ وار تعمیر کیا گیا۔ سکمپلیکس کا تفصیلی نقشہ اور ڈیزائن میسرز پیار علی مہر علی آرکیٹکٹ اور کنسلٹنگ انجینئر سے تیار کروایا گیا جو اس وقت ملک کی ماہر ڈیزائنر فرمز میں شمار ہوتی تھی۔1971ء میں بلدیہ کراچی نے اسپورٹس کمپلیکس اور متعلقہ عمارتوں کی تعمیر کیلئے میسرز مقبول ایس حسین کو 1887400روپے کی کثیر رقم کا ٹھیکہ دیا جس نے اس کی تعمیر پر کام شروع کیا اوراسپورٹس کمپلیکس مکمل ہوا۔
گجر نالہ پل کی تعمیر
بلدیہ کراچی نے 1970ء میں گجر نالے ناظم آباد سی روڈ پر پل کی توسیعی کا کام شروع کیا اور ایک سال کے اندر اندر مکمل کرلیا ۔ گجرنالہ پل جو بلدیہ کراچی نے 17سال قبل تعمیر کیا تھا، اُس وقت اس کی چوڑائی ضرورت کے مطابق 33 فٹ رکھی گئی تھی جو ٹریفک میں اضافے کی وجہ سے کم پڑ رہی تھی۔ 17برسوں میں لیاری ندی کے دونوں کناروں کے علاقوں میں جو ناظم آباد، لیاقت آباد، شمالی ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا اور شمالی کراچی کے ڈی اے اسکیم نمبر34اور اسکیم نمبر1۔اے وغیرہ پر مشتمل ہے۔
کافی ترقیاتی کام ہوئے جب آبادی میں اضافہ ہوا تو پل پرٹریفک جام رہنے لگا۔ قومی شاہراہ کے کھل جانے کے بعد ٹریفک میں اور بھی غیرمعمولی اضافہ ہونے کا امکان تھا، لہٰذا پل کی توسیع بہت ضروری ہوگئی تھی۔ بلدیہ کراچی نے پل میں مزید 33فٹ کی چوڑائی اور 6 فٹ کی دونوں جانب سروس روڈ پیدل چلنے والوں کے لئے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جس سے یہ پل دو رویہ ہوگیا۔ 25 مئی 1970ء کو بلدیہ کراچی نے اس پل کی تعمیر کے لئے 428000 روپے کی منظوری دی۔
روشنی کا نیا نظام
بلدیہ کراچی نے 1877ء میں شہر میں روشنی کے لئے مزید اسٹریٹ لائٹس نصب کیں اور شہر کے چوراہوں اور سڑکوں پر گیس لیمپ لگا ئے ان لیمپوں کی روشنی 2 فرلانگ تک کے علاقے کو روشن کرتی تھی، بلدیہ کراچی کے ماہرین نے تیل کی ٹنکی زمین کے اندر نصب کی گئی۔ مغرب کے بعد روزانہ بلدیہ کراچی کے اہلکار ان لیمپوں کو روشن کرنے کیلئے آتے پہلے وہ رومال سے چمنی صاف کرتے، ٹنکی میں تیل ڈالتے پھر ہوا بھرتے جس سے تیل پائپ کے ذریعہ برتن میں پہنچ جاتا اور پھر وہ گیس کا لیمپ روشن کردیتے۔
جب یہ لیمپ نصب کئے گئے تو دُور دُور سے لوگ ان کو دیکھنے آنے لگے تھے۔ لیمپس کی روشنی میں رات کو بھی دن کا سماں بندھ گیا اور کراچی جو کبھی شام ہوتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتا تھا، اب روشن ہونے لگا۔ چراغاں کا یہ منظر لوگوں کی ضرورت بھی تھا اور تفریح بھی، مگر اس نظام میں آہستہ آہستہ کرپشن نے سرایت کرلی۔ وہ اہل کار جو اس نظام کو چلانے پر مامور تھے تیل کی چوری کرنے لگے بعدازیں بلدیہ کراچی کو کرپشن ختم کرنے کیلئے اس نظام کو ہی تبدیل کرنا پڑا۔
میونسپل ایریا خوب صورت ٹاؤن بن گیا
سرچارلس نیپیئر کا میو نسپل ایریا خوب صورت ٹائون بن گیا ۔بندرگاہ کی توسیع کا منصوبہ بھی مکمل ہوا اور کوٹری تا کراچی ریلوے لائن بھی مکمل ہو چکی، بندرگاہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کے باعث لوگ زیادہ تعداد میں باہر سے آکر کراچی میں آباد ہونے لگے۔ 1877ء تک شہر کی آبادی 57ہزار ہو چکی تھی۔ یہ لوگ میونسپل ایریا میں آباد ہوئے اور وہاں خوب صورت گھر تعمیر کئے۔ اس علاقے کے ایک طرف سمندر، دوسری طرف ریلوے لائن، تیسری طرف کنٹونمنٹ کا علاقہ اور چوتھی طرف لیاری ندی واقع تھی۔
بلدیہ کراچی نے میونسپل حدود میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناکر اس علاقے کو دنیا کے ایک خوب صورت اور صاف ستھرے ٹاؤن میں تبدیل کردیا۔ جس کی سڑکیں روزانہ صبح دھوئی جاتی تھیں اور جس کی گلیوں میں سرشام روشنی چمکتی تھی۔ اس ٹائون کا دن بھی پر لطف اور رات بھی سہانی تھی۔
سرمایہ کاروں کی رہائش کیلئے یہ بہت پرکشش جگہ تھی۔ یہاں غریب کو بھی پیٹ بھرنے کیلئے روٹی اور سر چھپانے کے لئے چھت میسر آنے لگی۔ کراچی کی یہ خوبی آج بھی موجود ہے کہ یہاں امیر بھی خوشحال اور غریب بھی خوش رہتا ہے۔ کراچی کی فٹ پاتھ پر سونے والا فقیر بھی بھوکا نہیں سوتا۔