• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرکیٹیکچرل انجینئرنگ بنیادی طور پر بلڈنگ انجینئرنگ کا دوسرا نام ہے، جس کے تحت ڈیزائن اور اسٹرکچر میں انجینئرنگ کے رہنما اصولوں اور ٹیکنالوجی کا پیشہ ورانہ طور پرمؤثر استعمال کیا جاتا ہے۔ آرکیٹیکچرل انجینئر کا تعلق میکینکل، الیکٹریکل، بلڈنگ ڈیزائن اور تعمیرات کے حوالے سے کسی بھی شعبے سے ہوسکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ پرکشش اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے شوق نے دنیا کو کتنے ہی عجائبات دیے ہیں۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں نے عظیم الشان محلات کی تعمیر کروائی تو کہیں مقبروں کو وہ خوبصورتی عطا کی، جس نے سنگ وخشت کی ان تعمیر ات کو حیات بخش دی۔ کتنی ہی ایسی قومیں گزری ہیں، جن کے وجود کا پتا ان کی بنائی گئی رہائش گاہوں اور دیگر عمارتوں سے چلتاہے ۔

موجودہ زمانے میں شہروں کی پہچان وہاں کی تعمیرات سے وابستہ ہوگئی ہے۔ دبئی کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں جو تصویر سب سے پہلے آتی ہے، وہ برج خلیفہ ہے ، کوالالمپور کانام ہمارے ذہنوں میں پٹرونس ٹاور کے نقش ابھارتاہے، ایفل ٹاور پیرس کی شان ہے۔ ان ساری خوبصورت عمارتوں کا وجود آرکیٹیکچرل انجینئرنگ کے بغیر کبھی ممکن نہیں تھا۔ یہ فن صرف عمارتوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ شہروں کی پلاننگ بھی اس علم کے زمرے میں آتی ہے ۔

آرکیٹیکچرکا طرہ امتیاز اس فن کے منفرد خدوخال ہیں۔ یہ علم نا تو خالص تکنیکی فن ہے اورنا ہی خالصتاً فنون لطیفہ میں سے ہے۔ لہٰذا اس فن کے شائق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں نیچرل سائنسز اور ریاضی کے ساتھ ساتھ آرٹس بالخصوص فائن آرٹس میں بھی دلچسپی ہو۔ اس علم کے زمرے میں لوگوں کی نفسیات کوسمجھنا، ان کے اقتصادی حالات کو زیر نظر رکھنا اور ساتھ ہی ان کی ضروریات خواہ عملی ہوں یا بصری، ان کوپورا کرناہے۔ اب سے کوئی دو ہزار برس پہلے قدیم روم کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ وٹر وویس نے آرکیٹیکچر کا بنیادی ہدف ’عمارت کا درست استعمال، مضبوطی اور خوبصورتی‘ کو قرار دیا تھا۔ آج بھی کسی عمارت کا بنیادی ہدف یہی تین باتیں ہوتی ہیں۔

چوںکہ معمار (آرکیٹیکٹ)کسی عمارت کے تصوّر کا خالق ہوتا ہے، اس لیے اس کی موجودگی عمارت کی تعمیر کے ہر مرحلے پر ضروری ہوتی ہے۔ آرکیٹیکٹ کا پیشہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انجینئرنگ کے دوسرے پیشوں سے مختلف ہے۔ ایک سول انجینئر کا کام دیے ہوئے نقشے کے مطابق عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اسی طرح الیکٹریکل انجینئر حسبِ ضرورت بجلی کے کسی نظام کو مکمل یا اس کی خرابی دور کردے گا یا کسی بجلی گھر میں مشینوں اور آلات کی نگرانی اور بجلی کی ترسیل کے نظام کی دیکھ بھال کرے گا لیکن ایک معمار نہ صرف عمارت کے خاکے کو سوچتا ہے بلکہ اپنے تصور کو کاغذ پر منتقل کرتا اور عملی طور پر ایک ٹھوس عمارت کی شکل دیتا ہے۔ بعض اوقات اس کی تزئین و آرائش بھی اپنے تصور کے مطابق کراتا ہے۔ اس طرح یہ پیشہ ان نوجوانوں کے لیے موزوں ہے جو جمالیاتی ذوق کے ساتھ ریاضی اور انجینئرنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسے پیشے اپنانا چاہتے ہیں، جس میں ان کے لیے چیلنج ہو۔

آرکیٹیکچرل انجینئرنگ کا مستقبل 

اس وقت دنیا میں نئی نئی عمارتیں بنانے کی دوڑ بہت تیزی سے جاری ہے، لیکن آپ نے کبھی ایسی عمارت کا تصور کیا ہے جو ایک ایسے سیارچے سے بندھی ہوئی ہو جو سطح زمین سے31 ہزار میل اوپر ہوگی؟ ایک امریکی آرکیٹیکٹ کمپنی نے اس انوکھی عمارت کا ڈیزائن تیار کیا ہے، جو اس کے بقول ایک دن نیویارک کے علاقے مین ہٹن پر تیرتی نظر آئے گی۔ کلاؤڈز آرکیٹیکچر آفس کے مطابق، یہ عمارت ایک سیارچے سے تاروں کے ذریعے فضا میں معلّق ہوگی اور زمین کو نہیں چھوئے گی۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس عمارت کو دبئی میں تعمیر کیا جائے گا، جہاں سے یہ سیارچے کے ذریعے ہوا میں تیرتی ہوئی نیویارک پہنچے گی اور پھر وہیں ہوا میں جھولتی رہے گی۔ یہ عمارت بالائی خلاء میں کسی سیارچے سے تاروں کے ذریعے جھول رہی ہوگی۔ اس کے نچلے حصے میں دفاتر ہوں گے، جبکہ رہائشی حصہ بالائی منزلوں پر تعمیر ہوگا۔ چونکہ یہ ٹاور زمین سے جڑا ہوانہیں ہوگا، اس لحاظ سے یہ ڈیزائن سیلاب، سونامی اور زلزلے وغیرہ سے بھی تحفظ دے گا۔

تاہم فی الحال یہ عمارت صرف تخیلاتی ہے اور اسےڈیزائن کرنے والی آرکیٹیکٹ کمپنی کا مستقبل قریب میں یہ عمارت بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے بس تصور کیا ہے کہ مستقبل میں کیا کچھ ہوسکتا ہے اور یہ ڈیزائن ہمیں مستقبل کی ترقی کی جھلک دکھاتا ہے۔ کمپنی تسلیم کرتی ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس ٹاور کی تعمیر ممکن نہیں اور ہو سکتا ہے کہ جب یہ تعمیر ہو تو ہم اس وقت زندہ نہ ہوں۔

انٹر پرائز آرکیٹیکچرکی اہمیت

انٹر پرائز آرکیٹیکچر کو ہم غیر تکنیکی زبان میں ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ گھر بنانا۔ ایک آرکیٹیکٹ کو یہ کہنا کہ مجھے ایک گھر بنا کردو کافی نہیں ہے۔ اسے گھر بنانے کے لیے معلومات درکار ہوتی ہیں، جیسے کہ کتنے افراد اس گھر میں رہیں گے، انہیں کیا کیا سہولتیں درکار ہوں گی، کمرے کتنے ہوں گے، گھر بنیادی ہوگا یا پھر آسائشی ہوگا، کتنے عرصے بعد گھر کو دوبارہ بنانا چاہیں گے اور گھر کتنے عرصے میں مکمل کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام سوالات اعلیٰ درجے کے ہیں ۔ ان کے نیچے ہزار تفاصیل ہوں گی، لیکن یہ کام وہ ماہرین کرتے ہیں، جن کا اس گھر کی تعمیر میں کردار ہوگا۔

آپ کو ایک مالک کے طور پر شاید یہ پروا بھی نہ ہو کہ اس کے کچن میں کیل دو انچ کے لگائے جا رہے ہیں یا آدھے انچ کے، جو بات آپ کے لیے اہمیت کا باعث ہے وہ یہ کہ گھر میں لگائی جانے والی اشیا جاذب نظر ہوں، آپ کی ضروریات پوری کرتی ہوں اور گھر کی عمر تک وہ قابل استعمال حالت میں اپنی جگہ پر پیوستہ رہیں۔