• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارادہ تھا کہ آج کے کالم کا محور امریکی اسپیکر نینسی پلوسی کا دورۂ تائیوان اور اس حوالے سے امریکی و چینی موقف ہو۔گزشتہ دنوں مگر کچھ سفارت کاروں سے ملاقات ہوئی تو ان کی گفتگو کا محور تھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کب ہوگی اور کیا پی ٹی آئی ان کی وطن واپسی روک سکے گی؟ میں مسکرا دیا اور ان سے کہا کہ آپ کو ایک حالیہ واقعہ سناتا ہوں ۔ ایک دوست نے ویڈیو ار سال کی ہے جس میں اسد عمر ایک یادداشت الیکشن کمیشن کو جمع کروا رہے ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس شخص سے ،جس کو الیکشن کمیشن کا نمائندہ سمجھتے ہوئے یاد داشت وصول کروائی گئی تھی، لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس واقعے نے مجھے ایک اور واقعہ یاد دلا دیا ۔جنرل فیض علی چشتی کی کتاب بعنو ان’’بھٹو ، ضیاء اور میں‘‘میں لکھا ہے کہ”جنرل ضیا الحق کے ہمراہ ہم فرانس کے دورے پر گئے، وفد کے ارکان کو ایک اعلیٰ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔

اسی شام جنرل ضیاءالحق کے دروازے پر دستک ہوئی، صدر مملکت نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر سفید وردی میں ملبوس ایک گورا کھڑا ہے جس کے کندھے اور سینے پر کافی تمغے سجے ہوئے تھے ۔صدرِ مملکت نے اسے دیکھ کر فوراً تپاک سے ہاتھ ملایا اور بغل گیر ہوگئے،اور کمرے میں آنے کی دعوت دی۔ علیک سلیک اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفے پر بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات اور فرانس پاکستان فوجی تعاون پر بات چیت شروع کر دی۔ چند ساعتوں کے بعد اس گورے نے کہا، ”جناب مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں لیکن پھر بھی میرے لائق جو خدمت ہے وہ بتائیں، میں حاضر ہوں۔“ جنرل ضیا الحق حیران ہوگئے ، اس شخص سے تعارف کروانے کا کہاجس پر گورا بولا ”جناب میں اس ہوٹل کا بیرا ہوں اور آپ کی سروس کے لئے آیا تھا، کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔“یہ سن کر صدر ضیا الحق کی شرمندگی ناقابلِ بیان تھی۔ اس گورے کو رخصت کیا اور بعد میں مَیں نے صدر مملکت سے پوچھا، ”آپ نے اس بیرے کو کیا سمجھا تھا؟“جنرل صاحب کہنے لگے، ”میں سمجھا تھا فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کے لئے آئے ہیں۔“ اس کے بعد ہم دونوں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔

یہ عجب قصہ ہے کہ یہ لوٹ پوٹ ہونے کا امکان تھا یا رونے کا کہ قومی سلامتی کے امور میں اس طرح غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا، کچھ عرصہ قبل اسی طرح عمران خان حکومت میں خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزیر کی حالت یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کو پیش کی جانے والی یاد داشت وہ کسی کو بھی پکڑا کر چل دیے ۔ یہ لوگ نواز شریف کو بھلا کیا روک پائیں گے ؟ ایک سینئر صحافی نے اس پر بہت خوب تبصرہ کیا ہے کہ یہ لوگ خزانہ ،منصوبہ بندی کی وزارتیں بھی ایسے ہی چلاتے رہے ہوں گے، اسی لئے حالات اس حد تک دگرگوں ہوگئے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔بہرحال چھوٹے چھوٹے واقعات حالات کا ادراک کرنے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر امریکی اسپیکر نینسی پلوسی کا دورہ تائیوان کوئی معمولی واقعہ نہیں، یہ دورہ تو 24 گھنٹے سے بھی کم وقت کا تھا مگر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات برسوں تک محسوس کئے جائیں گے۔

اثرات کا آغاز تو اس طرح سے ہو گیا ہے کہ چین نے تائیوان کے گرد اپنی چار روزہ فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ چین اس حوالے سے بہت حساس ہے اور اس کی حساسیت اس وقت اور بڑھ گئی تھی جب صدر جو بائیڈن نے تائیوان کے دفاع میں عسکری کارروائی تک کرنے کا بیان داغ دیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ امریکہ کی بھی سفارتی پوزیشن یہی ہے کہ وہ ایک چین کے اصول کو مانتا ہے ،یہ اور بات ہے کہ اس کی حکمت عملی کو ’’تزویراتی ابہام ‘‘کی حکمتِ عملی کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ تائیوان کی چین کے لئے اہمیت دو اعتبار سے مسلم ہے۔ اول تو چین درست طور پریہ سمجھتا ہے کہ تائیوان کا جزیرہ اس کاجغرافیائی حصہ ہے اور ون چائنا پالیسی کا اس پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ پالیسی چین کی قومی سلامتی کے لئے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تائیوان کی اپنی غیرمعمولی جغرا فيائی حیثیت بھی ہے اور امریکہ کی خارجہ پالیسی جو مشرقی ایشیا کے حوالے سے ہے، اس میں امریکہ کے لئے بھی تائیوان کی غیر معمولی حیثیت ہے ۔ چین کے جنوب مشرقی ساحل سے 120کلومیٹر دور اس جزیرے کو جزیروں کی پہلی زنجیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے اثرات جنوبی جاپان سے شروع ہوتے ہوئے فلپائن اور بحیرۂ جنوبی چین تک پھیلتے چلے جاتے ہیں ۔ اور یہ سارا علاقہ امریکہ کے اتحادیوں سے بھرا ہوا ہے ادھر چین کا اگر اثرو رسوخ بڑھ جاتا ہے تو اس صورت میں امریکہ کی خطے میں تزویراتی حیثیت میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔ تائیوان پر اثر و رسوخ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی اور مشرقی سمندروں میں طاقت کا توازن اس کے حق میںہوگا جس کا اثرو رسوخ یہاں زیادہ ہوگا۔

امریکہ اور چین دونوں اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل کی اہمیت دونوں ملکوںکیلئے یکساں ہے ۔ تائیوان اگر چین کے زیر اثر آ جائے تو امریکہ اچھی طرح سے یہ آگہی رکھتا ہے کہ اس کے ہوائی اور گوام تک کے فوجی اڈے چین کا باآسانی ہدف بن سکتے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پنہاں نہیں کہ چپ ٹیکنالوجی کا بادشاہ تائیوان ہے ۔ اس کی صرف ایک كمپنی دنیا کے نصف ممالک کو چپ فراہم کرتی ہے۔ موبائل فون سے لے کر ہر طرح کی الیکٹرونکس تک میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ امریکہ جانتا ہے کہ تائیوان پر اگراس کا اثر و رسوخ کم ہوا تو ایسی صورت میں چین چپ ٹیکنالوجی کا بادشاہ بن جائے گا، جو اس وقت اس ٹیکنالوجی میں 20سال پیچھے ہے ،اور امریکہ کبھی یہ نہیں چاہے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین