چائنہ پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کے تعاون سے بلوچستان کے شہر گوادر میں قائم پرائمری اسکول کو سیکنڈری اسکول بنا دیا گیا ہے ،یہ ایک توسیعی منصوبہ ہے ۔یہ اسکول دراصل چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت معاش کے ذرائع کے لئے ایک سنگِ میل ہے ،مقصد یہ ہے کہ خطے کے لوگوں کو تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب کیا جاسکے۔
چائنہ ریڈکراس سوسائٹی نے گوادر بندرگاہ پر پاک چین دوستی ہنگامی مرکز بھی قائم کیا ہے، اس مرکز سے عملی طور پر کام کا آغاز ہو چکا ہےاور ادارے سے منسلک طبی ٹیمیں گوادر کے شہریوں کےلئے بھرپور خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ گوادر فری زون میں پینے کے صاف پانی کا پلانٹ بھی اس وقت ایک ہزار ٹن پینے کے لئےصاف پانی مہیا کر رہا ہے۔
گوادر میں توانائی کی کمی ہمیشہ کے لئے اکتوبر 2023ء میں ختم ہو جائے گی۔ کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ 2023ء میں کام شروع کر دے گا، اس پلانٹ سے ڈیڑھ لاکھ مقامی لوگوں کی ضروریات بھی پوری ہوں گی ،یہ پلانٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی کے منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد بلوچستان کے مقامی لوگوں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارا ملک اس وقت ڈیزل جنریٹرز سے بجلی پیدا کرنے کیلئے سالانہ لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے، اس لئے کوشش یہ ہے کہ گوادر میں یہ پلانٹ جلد از جلد کام شروع کر دے تاکہ اس شاندار بندرگاہ پر توانائی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گوادر کے حوالے سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبوں میں گوادر الیکٹرک پاور پلانٹ، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ، پاک چین دوستی ہسپتال، پاک چائنہ گوادر، ٹیکنیکل پروفیشنل اسکول، گوادر ایسٹ ایکسپریس وے کامنصوبہ شامل ہے ۔ان منصوبوں کی تکمیل سے گوادر خطے کی ایک اہم بندرگاہ بن جائے گا اور یہ منصوبے بلوچستان کی اقتصادی ترقی میں بھی سنگِ میل ثابت ہوں گے۔ بلوچستان کی ترقی دراصل پاکستان کی ترقی ہے اور حقیقت میں یہ پورے خطے کی ترقی ہے، ترقی کا یہ سفر جاری رہنا چاہئے ۔
ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے دکھوں کا مداوا بھی کرنا چاہئے۔ پاکستان پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل چوہدری ریاض مسعود کا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں بزرگ پنشنرز کے دکھوں کی کہانی ہے ۔صنعتی رجسٹرڈ ورکرز کی موجودہ ای او بی آئی (EOBI) پنشن اس وقت ماہوار آٹھ ہزار پانچ سو روپے ہے، اس قلیل سی رقم میں کیسے گزارہ ممکن ہے؟ اسی لئے اس سال جون میں ان بزرگ پنشنرز نے پارلیمان ہائوس اور پھر نیشنل پریس کلب کےسامنے مظاہرہ کیا، ان کا مطالبہ ہے کہ پنشن میں کم از کم پچاس فیصد اضافے ہی سے موجودہ حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ مہنگائی کی بڑی لہر موجودہ حکمرانوں کے عہد میں آئی ہے۔ پنشنرز کی سب سے بڑی تنظیم (PAWA) سے 37وفاقی اور 39صوبائی پنشنرز کی تنظیمیں منسلک ہیں جو ای بی او آئی پنشنرز کے حق میں مظاہرے کر رہی ہے ۔ای بی او آئی پنشنرز کی مجموعی تعداد تقریباً چھ لاکھ ہے ان میں ڈیڑھ لاکھ بیوگان اور پچاس ہزار معذور بھی ہیں مگر حیرت ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں انہیں ماہانہ صرف 8500روپے ملتے ہیں، حکمرانوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ بڑی تنخواہیں اور ان تنخواہوں کے برابر پنشن لینے والے ججوں کو بھی ان مظلوموں سے متعلق سو موٹو ایکشن لینا چاہئے یا کسی اور ڈھنگ سے ان کا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔
اسی طرح کا ایک مسئلہ افسرِ شاہی کے ساتھ بھی درپیش ہے ۔19جولائی 2022 کو حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے جس میں مخصوص لوگوں کو نواز دیا جاتا ہے، ایگزیکٹو الائونسز کی اس ہیرا پھیری کے خلاف پلاننگ، ڈویلپمنٹ اور خصوصی اقدامات کی وزارت کے چار سو افسروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا رُخ کر رکھا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو ان کی بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی ایک خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ جو کام 1947سے آج تک نہیں ہوا تھا ،وہ ’’کارنامہ‘‘ موجودہ حکومت نے انجام دے دیا ہے لہٰذا اس ’’سنہری کارنامے‘‘ کو ختم کر دیا جائےچوں کہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ افسروں کے الائونس پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔بلاول بھٹو نے خاص طور پر وزارتِ خارجہ کے ان افسران کا تذکرہ کیا جو بیرون ملکِ خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے ساتھ ہی وزارتِ تجارت اور اطلاعات کے افسران کا بھی ذکر کر دیا،ان کے اس تذکرے میں آئی بی، آئی ایس آئی اور افواج کے ان افسروں کا ذکر بھی شامل ہے جو بیرونِ ملک پاکستان کی خدمات پر مامور ہیں ۔ اس سلسلے میں نوید قمر نے بھی لکھا ہے، کچھ محکموں کے سیکرٹریوں نے بھی وزارت خزانہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے مگر معاملہ جوں کا توں ہے۔ وزیر اعظم کو چا ہئے کہ وہ اپنی کابینہ کا فیصلہ پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ دس جون کو ان کی کابینہ نے کیا فیصلہ کیاتھا ؟ پھر یہ کیسے ہوا کہ وزارت خزانہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرنے لگی؟ خدارا اس امتیازی رویے کو ختم کیجئے محض مخصوص گروہوں کو نوازنا بند کیجئے اور حق داروں کو حق سے محروم نہ کیجئے کہ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی
جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں
اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ