یاسمین حفیظ
جشن آزادی کی تقریبات عروج پر تھیں۔ سارا ملک روشن قمقموں، رنگین جھنڈیوں اور روشنیوں سے منوّر تھا۔ رات کے بارہ بجنے ہی والے تھے۔ چند لمحوں کا فرق رہ گیا تھا۔ بلال کا گھر بھی روشنی سے پاکستان کے پاک پرچم اور رنگین جھنڈیوں سے سجا ہوا تھا۔ بچّے، بوڑھے، جوان سب کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے۔ وہ کیوں نہ خوش ہوتے۔ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا احساس وہی قوم کر سکتی ہے جس نے طویل جدوجہد کے بعد دُنیا کے نقشے میں اپنا گھر بنایا ہو یا پھر جدوجہد آزادی میں اپنے لہو سے دھرتی سیراب کی ہو۔
بلال اور اُس کے گھر والے بھی ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزاد پاکستان کا حسین تحفہ ملا تھا۔ 14؍ اگست کے لیے بلال کے گھر والے خوشیوں بھرے منصوبے ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک گھنٹی کی آواز گونجی، سب چونک اُٹھے۔
’’رات کے اس پہر بھلا کون ہوگا؟‘‘ ابّو نے حیرت سے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ان کے پیچھے بلال اور دیگر بہن بھائی بھی تھے۔ ابّو نے دروازہ کھولا۔
’’کیا یہ شفیع صاحب کا گھر ہے؟‘‘ آنے والے دو افراد میں سے ایک نے کہا۔ ان کے ساتھ تیرہ چودہ سال کا ایک بھولا بھالا لڑکا بھی تھا۔
’’جی ہاں فرمایئے۔‘‘ ابّو نے کہا۔
’’شفیع صاحب! یہ آپ کے بیٹے کا قلمی دوست ہے اور کشمیر سے آیا ہے۔‘‘
’’اوہ خوش آمدید!‘‘ ابّو نے خوش دِلی سے کہا اور بچّے کا ہاتھ تھام کر اندر کی طرف مڑے۔ بلال نےکشمیری لڑکے کو بڑے غور سے دیکھاجو اس کا ہم عمر تھا۔ سُرخ و سفید چہرے پر عزم و ہمت کے چراغ روشن تھے۔ اس کی بھوری آنکھوں میں اُمید کے دیے جل رہے تھے، وہ بھی بلال کو ہی دیکھ رہا تھا۔ بلال بے قراری سے آگے بڑھا۔
’’علی گل! کشمیری یہ کہہ کر بلال کے کھلے بازوئوں میں سما گیا۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم اچانک یوں آ جائو گے۔‘‘
بلال نے خوشیوں بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آئو اندر آئو‘‘ رات کےا س پہر تم کیسے آ گئے؟‘‘ بلال کی آواز کپکپانے لگی تھی۔
علی گل نے کہا۔ ’’یہ بڑی لمبی داستان ہے۔‘‘
’’ارے بلال بیٹے! علی کو اندر تو آنے دو۔ تم نے آتے ہی بچّے پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔‘‘ دادی امّاں نے علی گل کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کمرے میں لا کر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اُسےکھانا پیش کیا گیا۔ علی گل نے کھانے سے پورا پورا انصاف کیا۔ شاید وہ کئی وقت کا بھوکا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ اطمینان سے بیٹھا تو ایک بار پھر سوال بلال کے ذہن میں مچل اُٹھا۔’’علی، میرے پیارے دوست! تم اچانک کیسے آ گئے؟ گھر میں سب ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘
علی گل کے چہرے پر تاریک سائے لہرا گئے اور وہ سسک اُٹھا۔
’’کیا ہوا علی بیٹا؟‘‘ ابّو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے شفقت سے کہا۔ ’’بیٹا! بتائو نا، دُکھ کہہ لینے سے دِل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا تو علی آہستہ آہستہ اپنی داستان سُنانے لگا۔
’’میں جنت نظیر وادی کشمیر کا رہنے والا ہوں۔ بلال سے میری دوستی بچّوں کے قلمی دوستی کے صفحات سے شروع ہوئی۔ میں بارہ مولا میں اپنے دو بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ بہت خوش تھا۔ آزادی کی جدوجہد میں میرا بابا اور میرےدونوں بھائی شریک تھے۔ میں اور میری بہن آزادی کے سنہرے سپنے دیکھتے اور مجاہدین کی کامیابی کے لیے دُعا کرتے تھے۔
وہ بھی ایک تاریک رات تھی۔ آسمان ستاروں اور چاند کی نرم روشنی سے محروم تھا۔ بارہ مولا کی بستی پُرسکون تھی کہ اچانک بھاری بوٹوں اور قہقہوں کی آواز سےگونج اُٹھی۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ آزادی کے خواب دیکھنے والی میری معصوم آنکھوں نے پھر بستی سے آگ کے شعلے اُٹھتے دیکھے۔ اس جلتی ہوئی وادی میں نہتے انسانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بابا اور بھائیوں کو مقابلہ کرتے اور شہید ہوتے دیکھا، پھر مجھے ہوش نہ رہا۔’’ہوش آیا تو میری بستی جل کر راکھ ہو چکی تھی۔ میں تنہا رہ گیا تھا۔ اپنے جلے مکان سے چنداشیا سمیٹ کر پاکستان پہنچا اور وہاں سے سماجی کارکنوں کے ذریعے تم تک پہنچ گیا۔
علی نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور ہاں بلال میرے اچھے دوست! کل پاکستان کی سالگرہ ہے نا، میں تمہارے لیے ایک تحفہ لایا ہوں۔ یہ تحفہ میں کافی عرصے سے تمہارے لیے بنا رہا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر علی نے ایک پیکٹ بلال کی طرف بڑھایا۔ بلال نے شکریہ کہہ کر پیکٹ کھولا، اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پھیل گئیں… پاکستان کا پرچم اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس پرچم کے چاند ستارے کو بڑی محنت سے چمکتے دمکتے ستاروں سے سجایا گیا تھا۔
’’اور ہاں! اللہ تعالیٰ نے ایک تحفہ آزادی کے دن مجھےبھی تودیا ہے۔‘‘ ابّو نے اچانک کہا تو سب چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’ارے بھئی ایک کشمیری بیٹے کا تحفہ! اب علی گل ہمارے ساتھ رہے گا۔ یہ تعلیم حاصل کرے گا اور پھر جدوجہد آزادی کشمیر میں نئے باب کا آغاز کرے گا۔‘‘
’’شکریہ ابّو!‘‘ علی گل نے کہا۔ بلال نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے جشنِ آزادی کے دن اسے ایک بھائی کا تحفہ دے دیا۔