• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کے نام پر بننے والے ملک ’پاکستان‘ کے لیے بہت پہلے سے ہی راستے ہموار ہونے شروع ہوگئے تھے۔ اسی لیے قدرت نے نئی مملکت کے قیام کیلئے بہترین صلاحیتوں اور عزم و استقلال سے مزین کئی شخصیات برصغیر کو عطا کیں۔ ویسے تو آزاد مملکت کی داغ بیل 1857ء کی جنگ آزادی نے ڈال دی تھی لیکن مسلمانوں کی جدوجہد کو حقیقت کا رنگ دینے میں 1930ء کا خطبہ الٰہ آباد اور 1940ء میں پیش کی گئی قرار دادِ پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے، جس کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا عزم اس یقین میں بدل گیا کہ آزاد وطن کا حصول اب زیادہ دور نہیں۔

خطبہ الٰہ آباد

30دسمبر 1930ء کو الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شاعر مشرق، مفکر اسلام اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒنے ایک جدا گانہ مملکت کے قیام کو مسلمانوں کا مستقبل ٹھہرایا۔ خطبہ الٰہ آباد ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب برصغیر میں ہندو اور مسلمان برطانوی سامراج کے غلام تھے اور دور تک آزادی کے آثار نہ تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے تاریخی خطاب میں اسلام کی آفاقیت، دوقومی نظریہ، آزاد مسلم ریاست اور ہندوستان کے دفاعی حصار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ 

علامہ اقبال نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا،’’برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کےلئے الگ مملکت قائم کردی جائے کیونکہ دونوں اقوام کا یکجارہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یہ یکجا ہوکر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ الٰہ آباد میں گنگاوجمنا کا پانی جس طرح الگ الگ نظر آتا ہے، اسی طرح یہ دونوں اقوام اکٹھی رہنے کے باوجود شناخت میں الگ الگ ہیں۔

ہندوستان کے مسئلے کے حل کے لیے علیحدہ قومیت کا وجود ناگزیر ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں۔ یہ خطہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی مختلف نسلوں پر مشتمل انسانی گروہوں کا ہے۔ الگ الگ قومیتی گروہوں کو تسلیم کئے بغیر پورے جمہوری اصول کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے‘‘۔

اس کے بعد شاعر مشرق نے ہندوستان کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ آزاد اسلامی ریاست کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا، ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے صوبوں کو ملا کر ایک الگ ریاست بنا دی جائے۔برطانوی سلطنت کے اندر یا باہر خودمختار حکومت مجھے شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کا مقدر دکھائی دیتی ہے‘‘۔ انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بہترین مفاد میں متحدہ اسلامی مملکت کا مطالبہ بھی کیا۔ الٰہ آباد میں خطاب کے دوران بیان کی گئی علامہ اقبال کی خواہش مسلمانوں کے لیے روشنی کا ایسا مینار ثابت ہوئی، جس نے آئندہ برسوں میں ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کے قیام کے لیے تمام مسلمانوں کو اس کی جدوجہد کے لیےمتحد کردیا۔

قرار دادِ پاکستان

مسلمانوں کی اپنے حقوق کے حصول کی جنگ اور آزادی کی سوچ بالآخر23مارچ 1940ء کو ایک ٹھوس خاکہ اور تصور کی صورت میں سامنے آئی۔ لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس نے برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کاتعین کیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری نبھائی۔ انھوں نے اس جوش و ولولے اور یقین کے ساتھ فی البدیہہ خطاب کیا کہ ہندوستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے مسلمانوں میں آزاد وطن کے حصول کے لیے جذبہ اپنے عروج کو جاپہنچا۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ بر صغیر ایک مملکت نہیں جبکہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس مسئلے کا حل ہندوستان میں ایک سے زیادہ ریاستوں کے قیام کو قرار دیا۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مسلمان اور ہندو، دو الگ الگ قومیتیں ہیں، مسلمانوں کے زندگی گزارنے کا انداز، رہن سہن اور معاشرتی طور طریقے ہندؤوں سے جداگانہ ہیں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کے دوسرے روز یعنی 23مارچ کو قائد اعظم کے ’مسلم انڈیا‘ کے ٹھوس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار دادِ لاہور (آگے چل کر یہ قراردادِپاکستان کہلائی) پیش کی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھاکہ، ’’کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے‘‘۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں۔ 

قرارداد میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا، ’’ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح مشورے سے دستور میں مناسب و مؤثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے‘‘۔ قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ کسی اور منصوبے کو قبول نہیں کرے گی۔

اجلاس میں موجود تمام شرکاء نے ہاتھ اُٹھاکر قرارداد کی حمایت کی۔ دیگر اکابرین کے ساتھ ساتھ پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگزیب، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے قرارداد کی بھر پور حمایت کی۔ اجلاس کے آخری روز 24مارچ کوقائد اعظم کے دستخط کے ساتھ’’جدوجہد پاکستان‘‘ شروع ہوئی،جو 14اگست 1947ء کو آزاد مسلم ریاست پاکستان کےقیام پر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔