• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: سولہ سال قبل زید کا انتقال ہوا، ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ترکے میں ایک مکان اور ایک دکان ہے۔ زید کا سوٹ کیس وغیرہ کی فروخت کا کاروبار تھا، اُس کے بعد تینوں بیٹے والد کے کاروبار کوچلاتے رہے، تمام آمدنی ایک بیٹے کے پاس جمع ہوتی تھی، وہ بیٹا اپنی مرضی سے ان پیسوں کو مختلف کاروبار میں لگاتا رہا، کبھی کسی وارث سے اجازت نہیں لی، کبھی اس کے نفع نقصان سے آگاہ نہیں کیا، اب جب تقسیم کا وقت آیا تو وہ بیٹا کہتا ہے کہ نقصان میں اکیلا نہیں بھروں گا، بلکہ سب پر ہوگا، اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟ (محمد نور ، کراچی)

جواب: زید کا تمام ترکہ بشمول دکان اور اُس میں ہونے والا کاروبارتمام ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا کیونکہ باپ کی زندگی میں جو کاروبار تھا ،جو بیٹے ساتھ مل کر کام کرتے تھے، وہ مال میں شریک نہیں ہیں، تمام مال باپ کی ملکیت ہوتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد تمام وارثوں کا ہے، اُس میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ ورثاء کا ہوگا۔ اگرچہ کاروبار چلانے والے چند افراد ہوں اور باقی ورثاء عملی طورپر کام نہ کر رہے ہوں۔

تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے :ترجمہ:’’ اکثر کاشتکار اور دیگر (پیشوں سے وابستہ ) لوگوں میں یہ ہوتاہے کہ اگر ان میں سے کوئی فوت ہوجائے ،تو اُن کی اولاد ترکے کو تقسیم کیے بغیر اِسی طرح قائم رکھتی ہے اور وہ اُس زمین میں کھیتی باڑی، خریدوفروخت ،قرض کالین دین اور دوسرے اُمور جاری رکھتے ہیں اور کبھی فوت ہونے والے کا بڑابیٹا تمام کاموں کی نگرانی کرتاہے اور چھوٹے اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ،یہ سب ایک طرح سے غیر رسمی تفویضِ اختیار ہوتا ہے(یعنی وہاں کے لوگوں کا عرف یاعادت ہے) ‘‘۔

آگے چل کر لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس جب ان کی سعی ایک ہو اور ہرایک کی محنت کی کمائی جدا جدا نہ ہو،تو سب جمع شدہ مال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں،اگر چہ ذہنی وفکری عمل کی مقدار ایک جیسی نہ ہو ، ’’فتاویٰ خیریہ‘‘ میں اِسی طرح کا فتویٰ دیا ہے اور ان میں سے اگرکسی نے اپنی ذات کے لیے کچھ خریدا تو وہ اُس کا مالک ہوجائے گا اور اگر اُس نے مشترکہ مال سے قیمت دے کر خریدا تھا ،تو اس میں شرکاء کا جو حصہ صرف ہوا،اس کا وہ ضامن ہوگا، (جلد6،ص:372)‘‘۔

والد کے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تمام ورثاء کا حق ہے ، کسی ایک وارث کو بغیر اجازت اُس میں تصرُّف کا اختیار نہیں اور بلااجازت تصرُّف کرنے کے سبب وہ تاوان دے گا یعنی جتنی رقم اُس نے ڈبو دی ،وہ اپنے حصے سے پوری کرے گا۔ ترکہ جب تک تقسیم نہ ہو، ہر وارث دوسرے وارث کے حصے کے بارے میں اجنبی شمار کیا جاتا ہے۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’ ترکۂ مُورِث میں ورثاء کی شرکت، شرکتِ مِلک ہوتی ہے اور شرکت ِملک میں ہر شریک دوسرے کے حصے سے اجنبی ہوتا ہے، بے وجہِ شرعی مثلِ وصایت وولایت وغیرہما ایک کو دوسرے کے حصے پر قبضہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، تنویر الابصار میں ہے: ترجمہ:’’ شرکتِ مِلک یہ ہے کہ متعدد حضرات کسی عین چیز یا دَین میں وراثت، بیع وغیرہ کے ذریعے مالک بنیں اور یہ تمام حضرات ایک دوسرے کے مال میں اجنبی متصور ہوں گے‘‘، (فتاویٰ رضویہ ، جلد19،ص:671)‘‘۔

ایک بیٹے نے ترکے کی آمدنی سے جتنا مال بڑھایا ، وہ سب ترکہ میں شامل ہوگا اور جو اُس نے ورثاء کی اجازت کے بغیر خرچ کر ڈالا یا ضائع کردیا ، اُس کا تاوان دے ، کیونکہ یہ سب مال اُس کے پاس امانت تھا، جسے ورثاء کی اجازت کے بغیر خرچ کردینے سے خیانت اور غصب کا مرتکب ہوا۔ علامہ ابوبکر بن علی بن محمد الحداد یمنی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور جب غصب کی ہوئی شے غاصب کے پاس ہلاک ہوجائے، خواہ اُس کے کسی فعل کے سبب ہوئی یا از خود ہلاک ہوگئی ، غاصب کے ذمے اس شے کا تاوان ہوگا ،(الجوہرۃ النیّرۃ، جلد1،ص:340)‘‘۔

زید کا کل ترکہ72 حصوں میں تقسیم ہوگا: بیوہ کو 9حصے، تینوں بیٹوں کو 42حصے (فی کس14حصے) اور تینوں بیٹیوں کو21حصے(فی کس7حصے) ملیں گے ۔