ڈاکٹر نعمان نعیم
’’شوال المکرم ‘‘رمضان المبارک کے بعد وہ اسلامی مہینہ ہے جس کا آغاز اہل ایمان کی ماہِ رمضان میں کی گئی عبادات بالخصوص ماہِ صیام کے روزوں کی جزا کے طور پر عیدالفطر سے ہوتا ہے ،یہ دن روزوں کی جزا کے طور پر انعام و اکرام کے طور پر عطا کیا گیا۔
رمضان المبارک کے روزوں اور عید الفطر کے بعد اہل ایمان کے لیے شوال کے چھ روزے رکھنے کی احادیث میں بہت فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ساری زندگی کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔ (صحیح مسلم : 2815)
اللہ عزوجل اپنے بندوں پر ہر آن مہر بان ہے، اپنی رحمتیں، نعمتیں بر ساتا رہتا ہے۔ وہ بڑا کریم ہے کہ اس نے رمضان المبارک جیسا بابرکت مہینہ ہمیں عطا کیا۔روزہ، تلاوت قرآن، نوافل، صدقات وخیرات کی توفیق عطا فرمائی اور ہمارے رزق میں وسعت وبرکت عطا فر مائی۔ جس کے سبب مسلمانوں کے اندر انسانی ہمدر دی اور غم خواری کے جذبات بیدار ہوئے ۔اس پر ہم اپنے پروردگار کے بے حد شکر گزار ہیں۔ اس کا اظہار نماز عید الفطر میں سجدۂ شکر ادا کر کے کرتے ہیں۔
آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ نماز شکرانہ وہی ادا کرتاہے جس نے نعمت کی قدر کی ہو۔ خاص طورسے رمضان المبارک کی بر کتوں کو سمیٹا ہو۔عید کا دن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار کا اچھا موقع ہے،لیکن کسی مسلمان کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔ عمدہ لباس پہننا ،عمدہ غذائیں کھانا ،خوشیاں بانٹنا عید کے دن کی زینت میں سے ہے۔ اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی اپنے ان مسلمان بھائیوں اور پڑوسیوں کا خیال بھی کرنا چاہیے، صدقہ فطر اور عیدی کے ذریعے، تاکہ وہ بھی آپ کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔
آقا کریم ﷺ نے اللہ کی نعمتوں کے اظہار کے متعلق فر مایا: ترجمہ: اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔(جامع الترمذی،حدیث نمبر2819)
شوال کے چھ روزوں کی بہت فضیلت آئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے شوال کے چھ روزے رکھیں، جس میں فضل عظیم اور بہت بڑا اجرو ثواب ہے، کیونکہ جو شخص بھی رمضا ن المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال المکرم میں بھی چھ روزے رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزے کا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ شوال کے چھ روزے رمضا ن ا لمبارک کے روزوں کے ساتھ مشروط ہیں، یعنی رمضان کے ساتھ شوال کے بھی چھ روزے رکھے جائیں، تب پورے زمانے کا ثواب ملے گا۔ ایسا نہیں کہ رمضان کے روزے نہیں رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھ لیے تو پورے زمانے کا ثواب ملے گا؟ بلکہ رمضان کے بھی روزے رکھے پھر شوال کے رکھے۔ تب یہ سعادت حاصل ہوگی۔
ایک دوسری حدیث پاک میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے،:
تر جمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جس نے رمضان المبارک کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو’’ پورے زمانے کے روزے‘‘ اور دوسری حدیث میں ’’پورے سال کے روزے‘‘ رکھنے کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنا دیا جاتا ہے۔ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے ،توایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہو جا تے ہیں،گو یا رمضان اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ حدیث سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے پورے سال کے روزوں کا ثواب پالیا۔ نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ ر مضان المبارک کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تویہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو، لہٰذا ہمیں ایسی فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کر نی چاہیے۔
شوال کے چھے روزے جائز اور مستحب ہیں۔ فرض و واجب نہیں۔ ان نفلی روزوں کو رکھیں تو اجرو ثواب حاصل ہو گا، لیکن اگر کوئی نہ رکھے تو برا بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک مسلمان کا ہر عمل نبی کریم ﷺکی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ہو نا چاہیے۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بندوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔ بندہ نفلی عبادات بجا لاتا ہے۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کو پسند آتی ہیں اور وہ بندے کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ نیکیاں کرتے رہیں۔
اللہ عزوجل نے انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور اللہ کے نبی ﷺ نے عبادت کے طریقے بتا ئے۔ فرائض و واجبات تو ہر حال میں ادا کر نا ہے ۔نہ کر نے پر سخت عذاب کی وعیدیں ہیں۔ اس کے علا وہ نفلی عبادات اورذکر الٰہی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے۔
ذکر واذکار سے غم دور ہوتے ہیں۔ پریشانیاں ختم ہوتی ہیں۔ ان انعامات کے بعد اللہ کی محبت اور اس کی ہیبت دل میں جا گزیں ہوتی ہے۔ دل کو تاز گی اور سکون ملتا ہے۔ دل کا زنگ اتر جا تا ہے۔ اللہ کی عبادت سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تر جمہ: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔ (سورۂ رعد)
اللہ کے ذکر سے دلوں کوطبعی سکون و قرارحاصل ہوتا ہے۔ کثرت سے اللہ کی عبادت کر نے والوں ،والیوں کے لیے رب کائنات نے بخشش کے ساتھ اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ ار شاد باری تعالیٰ ہے۔تر جمہ: تو جب نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو۔ اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔ روزہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے اس سے انسان کو اللہ عزوجل کی بے شمار رحمتیں ،نعمتیں نصیب ہو تی ہیں۔
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت بہت زیادہ ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گنا ہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(المعجم الاوسط )
بہرحال جس طرح ممکن ہو،یہ روزے رکھنے چاہئیں،اس لئے کہ ان روزوں کی فضیلت میں نبی کریم ﷺکے متعددارشادات واردہوئے ہیں۔چنانچہ شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، نبی اکر مﷺ نے فرمایا! جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعدشوال کے چھ روزے رکھ لئے تووہ گناہوں سے ایساپاک ہوگیا، جیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدائش کے دن(گناہوں سے)پاک تھا‘‘۔(اوجزالمسالک بحوالہ طبرانی)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ یہ فضیلتوں والے روزے رکھا کریں۔خاص طور سے شوال کے چھ روزوں کو رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ اللہ کا ہم پر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمارے لیے یہ فضیلت رکھی کہ رمضان کے بعد چھ روزے شوّال میں بھی رکھ لیں تو ہمیں پورے سال کا ثواب مل جائے گا۔ لہٰذا ہمیں اللہ کے اس فضل و کرم سے استفادہ کرنا چاہیے اور یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔