• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ

یاسر عالم

مبلّغ اسلام ، قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ 17رمضان المبارک 1344ہجر ی بمطابق 31مارچ1926ء کو میر ٹھ میں پیدا ہوئے۔ آ پ کا سلسلہ نسب والد و والدہ کی جانب سے خلیفۂ اول سیدنا صدیق اکبر ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ علامہ نورا نی کا خاندان میرٹھ میں ایک ممتاز اور روحانی و علمی گھر انے کے طور پر متعارف تھا۔ آپ کے خاندان کے متعد د افراد نے ملی تاریخ میں دینی خدمت کی یادگار اور قابل فخر داستانیں چھوڑی ہیں۔

علامہ نورانی ؒ کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکر ی خانوادے میں ہوئی، حفظ قرآن کریم کے بعد میرٹھ میں ہی آ پ نے اپنی ثانوی تعلیم نیشنل عربک کالج سے مکمل کی، جہاں ذر یعہ تعلیم عربی زبان تھا، بعد ازاں الہٰ آباد کا لج سے گریجویٹ کیا، اسی دورا ن میرٹھ کے مشہور مد ر سہ اسلامی غلام جیلانی میرٹھ ؒ سے درس نظامی کی مر و جہ و غیر مرو جہ کتب پڑھیں۔ علامہ نورانی ؒ کو اپنے وا لد ماجد سے بیعت و خلا فت کا شرف حا صل ہوا۔ 

آپ نے سب سے پہلے حرمین شریفین کی زیارت گیارہ برس کی عمر میں کی، آپ کو آپ کے والد مدینہ منورہ لے گئے تھے اور آپ نے و ہاں ایک سا ل تک تجوید وقرأت کی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد آپ وقتاً فوقتاً زیارت حرمین شر یفین کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کو کم از کم 16مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حا صل ہو ئی او ر آپ نے لاتعداد عمرے کئے۔ آپ کو مدینہ منورہ سے ایک خاص اُنس و تعلق تھا، آپ کا سسرال بھی مدینہ منور ہ میں تھا۔

آپ نے خلو ت و جلوت اتباع رسو ل ﷺ میں گزار ی۔ آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ آپ کا کوئی عمل سنت رسو ل ﷺ کے مخالف نہ ہو۔ آپ سنت رسول ﷺ کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے، عالم باعمل تھے۔ آپ اپنے افعال واعمال، رہن سہن میں بےجا آرائش کے سخت خلاف تھے۔ آپ کی نجی زندگی انتہائی سادہ اور پروقار تھی۔ روپے پیسے مال ودولت جمع کرنا آپ کے مذہب عشق ہی کے خلاف تھا۔ 

سننا زیاد ہ اور بولنا کم، ایک پیر کا مل کی نشانی ہے، جب کہ سیاست دانوں کاکام بو لنا زیادہ او ر سننا کم ہوتا ہے ۔ آپ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خانقاہی اور سیاسی نظام کو اس قدر خوبصورتی سے جمع کیا ہوا تھا کہ جب آپ مسند ارشاد پر تشریف فرما ہوتے تو کوئی انجان آدمی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص ملک کا عظیم سیاستدان اور ایک سیاسی پا رٹی کا سر براہ ہے۔ جب آپ سیاست کی طرف رخ فرماتے توآپ کے سامنے کو ئی ٹھہر نہیں سکتا تھا۔

آپ کے سیاسی تجربے وتبصرے اس قدر جا مع او ر حقیقت پرمبنی ہو تے کہ سامنے والا اسے سن کر آپ کی سیاسی بصیر ت سے مر عو ب ہوجاتا۔ آپ نے تمام عمر سادگی اور درویشی میں گزاری۔ اپنی زندگی کے تقر یباً 50سال کرایے کے سادہ فلیٹ نما مکان میں گزارے جو کہ دور ِ جدید کے لحاظ سے تمام سہولتوں سے عاری تھا، حالانکہ اگر آپ چاہتے تو آپ محلا ت میں رہ سکتے تھے، مگر اس کے لئے آپ کو اپنے اصولوں سے انحراف کرنا پڑتا جو کہ آپ کے لئے قطعا ًنا قابل قبو ل تھا۔

علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ نے سب سے پہلا غیر ملکی تبلیغی و مشاہداتی دورہ اپنے وا لد کی و فا ت کے بعد 1955ء میں علمائے ازہر کی دعوت پر مصر کا کیا جس میں آپ نے مصر میں تا ر یخ اسلا م کی عظیم یونیور سٹی جامعہ ازہر او ر دیگر جامعا ت کا تفصیلی مشاہدہ کیا اور مختلف مقامات پر علماء کے اجتماعات سے خطاب کیا۔1958ء میں پاکستان میں روسی سفیر کی تحریک او ر مفتی اعظم روس مفتی ضیاء الدین بابا خانوف کی خصوصی دعو ت پر علامہ حامد بدایو نی او ر دیگر علماء کے ساتھ روس کا دورہ کیا ۔1959ء میں آپ نے مشر ق و سطیٰ کے ممالک کا ایک طویل خیر سگا لی دور ہ کیا ۔1960ء میں آپ ایک با ر پھر طویل دو ر ے پر روا نہ ہو ئے جس میں آپ نے مشرقی افر یقہ ، مڈغا سکر او ر ماریشس کا دو ر ہ ایک سال میں مکمل کیا ۔1962ء میں صو ما لیہ ، کینیا اور یوگنڈا کا دورہ کیا، اسی دوران شمالی نا ئجیریا کے وزیر اعظم احمد ڈبلیو شہید کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے چار ماہ تک تفصیلی دورہ کیا۔ 

اس دوران فراغت کے بعدآپ حج و زیارت کے لئے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ 1963ء میں آ پ کی شادی آپ کے والد کے قریبی دو ست قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مد نی نے اپنی پوتی سے کروائی۔ شادی کے فو ر اً بعد آپ اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت تر کی ، مغربی جرمنی ، برطانیہ ، نائجیریا ، ماریشس اور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے، اسی سال کے آ خر میں آپ نے چین کا اور1964ء میں آپ نے کینیڈا کا تبلیغی دورہ کیا ۔ 1968ء میں آپ نے یورپ کا تفصیلی دورہ کیا، اس دورے میں آپ نے قادیانی رسالے اسلامک ریویو لندن کے ایڈیٹر سے چھ گھنٹے کا طویل مناظرہ کیا اور اپنے حریف کو کتابیں چھوڑکر بھاگنے پر مجبور کیا۔

7ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیاگیا،جس کا سہرا دیگر علماکے ساتھ ساتھ مو لا نا شاہ احمد نورانی کے سر ہے۔ ستمبر 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے قادیا نیو ں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرا ر دلوانے کے بعد آپ نے مولانا عبد الستار خان نیازی ، پرو فیسر شاہ فرید الحق او ر علامہ ارشد القادری کے ساتھ مختلف ممالک کے طو یل دور ے کئے۔ مئی 1978ء میں علامہ نورانی ؒکیپ ٹا ؤن (افر یقہ ) کے تبلیغی دورے پر روانہ ہو ئے۔ آپ نے وہاں کے میئر کی جانب سے شہریوں کے استقبالیہ میں ـ "اسلام بیسویں صدی کے چیلنج کو قبول کرتا ہے "کے عنوان سے انگریزی میں خطاب کیا۔ 

کیپ ٹاؤن کے مئیر نے جوابی خطاب میں علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کو "سفیر اسلام "کے خطاب سے مخا طب کیا ۔1979ء میں علامہ نو رانی ؒ نے برمنگھم (برطانیہ ) میں منعقدہ عظیم الشان نظام مصطفیٰ کانفرنس میں شرکت کی۔ فروری 1980ء میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں کولمبیا یونیو ر سٹی کے انٹر نیشنل ہال میں "اسلام کی ہمہ گیر یت "کے موضوع پر خطا ب کیا۔ یونیو ر سٹی کی ایک خاتو ن پروفیسر نے علامہ شاہ احمد نورانی ؒ  کی تقریر سے متاثر ہو کر اسلا م قبو ل کیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی ؒ نے ملکی سیاست کی ابتدا جمعیت علما ئے پاکستان کے پلیٹ فارم سے کی اور تا دمِ مرگ اسی پلیٹ فارم سے وابستہ رہے۔ آپ نے دوسروں کی طرح جمعیت میں کوئی دھڑا بنایا اور نہ کبھی کسی گروپ بندی کی حوصلہ افزائی کی۔ مخلص اور بے لوث کارکن و رہنما آپ کے لیے باعث فخر ہوتے تھے۔ آپ نے جمعیت علمائے پاکستا ن کو حکمرانوں کے دربار سے نکال کر عوام تک پہنچایا۔

آپ کے دور ِ صدارت سےجمعیت کو اب مجاہدین کی جماعت ، کردا ر و گفتا ر کے خاز یوں کی تنظیم ملک و ملت پر مرمٹنے والے افراد اور نظام مصطفی ﷺ کے شیدائیوں کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ آپ نے ’’امام برحق ‘‘کا کردار ادا کیا اور خادمین کو اپنے اقوال میں افعال سے ہمیشہ متحرک رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔

الله تعالیٰ نے آپ کو دیگر خصوصیات کے علاوہ دوسروں کو قائل کرنے کی بھی بے پناہ صلاحیت عطا کی تھی۔آپ ایک سلجھے ہوے سیاستدان تھے۔ آپ کی سرشت میں بے وجہ ضد اور ہٹ دھرمی نہیں تھی، تاہم ٹھوس موقف اور واضح اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔

آپ نے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سےآئینی قوانین پر اظہار خیال کرتے ہوئے 31 جنوری 1973 کو قوم سے اہم خطاب کیا۔ وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ علامہ نورانی ؒ وہ سیاست دان نہ تھے کہ جن کی نظر صرف پاکستا ن پر ہوتی تھی، بلکہ آپ ایک بین الاقوامی سیاست دان تھے۔

دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی وجہ سے آپ کی شخصیت بین الاقومی طور پر مسلم تھی ۔ بہت سے عالمی رہنماؤں سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے۔ آپ 1953 ءسے 1964 ءتک مسلسل گیارہ سال ورلڈ مسلم آرگناہزیشن کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پرفائز رہنے کے علاوہ بغداد یونیورسٹی اور صدام یونیورسٹی کلیہ الدعوۃ کے بھی رکن رہے۔

مولانا نورانی نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں عقیدۂ ختم نبوت پر اظہار خیال کیا۔ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ کے بعد قائد اہل سنت کی ذات گرامی جسے دنیا بھر کے افراد چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں، ایک سنی امام و رہنما سے جانتے ہیں۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے مدارس اہل سنت کی نمائندہ تنظیم، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کو رجسٹرڈ کروایا جس کی وجہ سے اس کی اسناد کو حکومتی سطح پہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی اس مساعی کے سبب علماء کوسرکاری ملازمتیں بھی ملنا شروع ہوئیں۔ 

علامہ شاہ نورانی پاکستان میں نظام مصطفی ﷺکے لئےاپنی آخری سانس تک مصروف عمل رہے۔ آپ نے کارکنان کو ہمیشہ تشدد کے راستے سے دور ر کھا۔ مذ ہبی منافرت کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔ انہی خصوصیات اور سحر انگیر شخصیت کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کے اکابرین ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بھرپور جدوجہد کی۔

انتقال سے چند برس قبل آپ نے متحدہ مجلس عمل کی صورت میں مذہبی قوتوں کوایک مرتبہ پھر متحد کیا جس کی قیادت کی ذمہ داری بھی متفقہ طور پر آپ کو سو نپی گئی، آپ کی قیادت میں اس اتحاد کو عو ام میں بھر پور پزیرائی حاصل ہوئی اور 2002کے عام انتخابات میں یہ اتحاد ایوانوں میں واضح قوت بن کر سامنے آیا۔ شوال کے مہینے میں11دسمبر 2003 کا سورج عالم اسلام کو غمگین کر گیا۔ اس دن علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ رحلت فرما گئے۔ آپؒ کا جنازہ پاکستان کی تار یخ کا عظیم بڑاجنازہ تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔