آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: شوال کے روزوں کی کیا حقیقت ہے؟ بعض لوگوں کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت نہیں اس حوالے سے راہ نمائی فرمائیں۔
جواب: شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲ صلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستند کتابوں میں موجودہے: ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمار ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ من شوال اتباعًا لرمضان، 1/369، ط: قدیمی کتب خانہ،کراچی ۔ و اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی)
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدے کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینے کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
masail@janggroup.com.pk