نون لیگ میں جو سب سے اہم دماغ ہے اس کا نام پرویز رشید ہے۔ماضی میں ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ سے لے کر عوامی مقبولیت کے اہم فیصلوں کے پس منظر میں انہی کی فکر انگیز سیاسی دانش کار فرما رہی۔
ہمیشہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہا ہے ۔نواز شریف اور مریم نواز دونوں انہی کے مشوروں پر چلتے رہے۔
لندن میں ہونے والے میثاق ِ جمہوریت کے پس پردہ بھی یہی دماغ تھا مگر اب جب سے نون لیگ کی حکومت آئی ہے وہ کہیں نظر نہیں آرہے ۔
شاید اس لئے کہ ان کے مشوروں پر عمل نہیں کیا جارہا جس کے باعث مسلم لیگ نواز کی عوامی مقبولیت بھی بتدریج کم ہوتی چلی جارہی ہے۔
اس وقت پورے ملک میں صرف عمران خان کا طوطی بول رہا ہے۔ یقیناً اس کی وجہ نون لیگ کے غلط فیصلے ہیں۔
ایسے فیصلے جن سے پرویز رشید اتفاق نہیں کر سکتے تھے ۔لاہور میں عمران خان کا اس وقت تک کا آخری جلسہ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے۔
نواز شریف کسی زمانے میں اسٹیبلشمنٹ کی وساطت سے اقتدار میں آئے تھے مگر اس کے بعد انہیں عوامی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کے سبب ملی۔
اسٹیبلشمنٹ نے پہلی بار جب ان کی حکومت ختم کی تھی تو ان کا جوابی ردِعمل بہت خوفناک تھا ،وہ عدالت کی وساطت سے واپس آگئے اور پھر حکومت چھوڑی بھی تو عزت اور وقار کے ساتھ۔
1997میں پھر وزیر اعظم بن گئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ ان کی حکومت ختم کی اور وہ کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سعودی عرب جانے میں کامیاب ہو گئے ۔
پھر واپس آئے اور دوبارہ وزیر اعظم پاکستان بننے میں کامیاب ہو گئے مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہو سکے سو ایک بار پھر انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
پھر جیل گئے اور وہاں سے لندن جانے میں کامیاب ہوگئے ۔اس سارے عرصہ میں ان پر کرپشن کے بے پناہ الزامات کے باوجود ان کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع نہ ہوسکی۔
اس کی وجہ صرف اس قدر تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا استعارہ بنے رہے ۔
اب کے پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ وہ تمام تر سیاسی پارٹیوں سمیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور عمران خان دوسری طرف۔سو عوام عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس بات کا احساس نواز شریف کو بھی ہے۔
اس وقت اس بات پر بہت غور کیا جارہا ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کو کیسے کم کیا جائے۔ دانشورانِ قوم کی نظریں پھر اس مسئلہ کے حل کے لیے نواز شریف پر مرتکز ہیں ۔
وہ چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف پاکستان آئیں اور عمران خان کا مقابلہ کریں۔ اس کیلئےپروگرام یہ ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتریں اورحکومت پورے ملک سے ان کے استقبال کے لیے لوگوں کو جمع کرے تاکہ کہا جا سکے کہ عوام اب تک نون لیگ کے ساتھ ہے۔
آصف علی زرداری نے انہیں کراچی اترنے کا مشورہ دیا ہے یعنی پیپلز پارٹی کے کارکن ان کا وہاں استقبال کریں گے ۔میرے خیال میں یہ ان کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں ہوگا ۔
بہر حال ستمبر میں انہیں پاکستان لانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ آئیں گےکیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا دیکھ کر عوام ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
نواز شریف نے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا تھا کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا جائے مگر چونکہ باقی پارٹی شہباز شریف کے ساتھ تھی اس لئے انہوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔
ان کا خیال تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا جائے اور شہباز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مگر بنانے والے اس پر تیار نہ ہوئے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ پنجاب میں نون لیگ زیادہ دیر تک حکومت اپنے پاس نہیں رکھ سکتی اور شاہد خاقان عباسی صرف وہ کریں گے جو نواز شریف یا مریم نواز انہیں کہیں گے۔
نواز شریف یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ہےجو بحیثیت وزیر اعلیٰ ماضی میں بہت شاندار کارکردگی دکھا چکے ہیں، ان کے پاس پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط تر کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔
یعنی پی ٹی آئی پنجاب میں اپنی سیاسی کامیابیوں کیلئے ایک ایسی شخصیت کا ساتھ حاصل کر چکی ہے جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی روابط ہیں اور جو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔
ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف جب واپس آئیں گے تو کیا کہیں گےکہ کیا ان کو اقتدار سے کیوں محروم کیا گیا؟ میرے خیال میں تو یہ کہنا نواز شریف کے لیے ممکن نہیں۔ہاں یہ ممکن ہے کہ شہباز شریف اپنی حکومت توڑ دیں۔ نئے انتخابات کا اعلان کریں۔
نواز شریف وطن واپس آئیں اور ان انتخابات میں اپنے پرانے نعرے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے ساتھ عوام میں جائیں تو ممکن ہے کسی حد تک عمران خان کا مقابلہ کرسکیں وگرنہ یہ صاف لگ رہاہے کہ عمران خان اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے۔
ایک مسئلہ، بہت بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ جو شہباز شریف کے دورِ حکومت میں یک دم آسمان تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا جواب بھی نون لیگ کےپاس نہیں ہے۔
یہ لوگ کیا کہیں گے کہ ہم نے ڈالر اتنا مہنگا کیوں ہونے دیا؟ ہم نے پٹرول کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بڑھا دی ؟ہم نے بجلی کیوں مہنگی کر دی۔ کیا ملک کے لیے قربانی صرف غریب عوام کو دینا ہوتی ہے؟ کیاسرمایہ داروں پر ٹیکس دگنا کرکے ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں کی جا سکتی تھی۔
بہت سے عوامی سوال ہیں جن کا جواب کسی کےپاس نہیں اور اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر قانون کیا کرے گا؟