• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیر احمد راشد

یہ 14؍اگست کی صبح کا قصّہ ہے۔ وہ مزار قائد کی سیڑھیوں پربیٹھا تھا جہاں جوتوں کی نگرانی کرنے والا ٹھیکیدار اور اس کے کارکن بڑی مستعدی سے لوگوں کے جوتے اُتروا رہے تھے۔ لوگ جوتے ان کے حوالے کرتے اور واپسی کا ٹوکن حاصل کر کے ہنستے باتیں کرتے مزار کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ جاتے۔ ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ ہر شخص کے چہرے پر جوش، پریشانی، خوشی اورخوف کے ملے جلے تاثرات تھے۔

لوگ قہقہے لگاتے لگاتے یک دم چونک کریوں اِدھر، اُدھر دیکھنے لگے جیسے ابھی کچھ ہونےوالا ہے۔ حالات ہی ایسے تھے۔آئے دن کے ہنگاموں، فائرنگ اورقتل و غارت گری نے ہر کسی کے دل میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ لوگ کار یا موٹرسائیکل پر آتے اور فائرنگ کرتے چلے جاتے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ دہشت گرد مسافروں سے لدی پھندی کسی بس کو سنسان جگہ روکتےاورچاروں طرف سے اس پر گولیوں کی بارش کر دیتے۔ ذرا سی دیر میں دن بھرکے تھکے ماندے غریب مزدوروں کا لہو بس کو رنگین کرتا سڑک پر پھیل جاتا۔

بارونق سڑکوں اور بازاروں میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے۔ حالات کے باعث ہر طرح کے کاروبار بہت متاثر تھے۔ اس کا دھندا بھی چوپٹ تھا۔ لیکن آج وہ پُرامید ہو کر گھرسے چلا تھا اور اب ہجوم کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔وہ ایک بہترین جیب کترا تھا۔ اسے اپنی لمبی فنکارانہ اُنگلیوں سے بہت پیار تھا جو اپنا کام بڑی مہارت سے کرتی تھیں۔ اس کی ماہر نگاہیں کسی موٹی آسامی کو تلاش کر رہی تھیں، اچانک اس کی نظر ایک شخص پر پڑی۔ 

وہ اگست کے مہینے میں پینٹ کوٹ پہنے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ اس نے سوچا، یہ بھی کوئی کالا انگریز ہے۔ دراصل آدمی کی اُبھری ہوئی جیبیں ہی اس کی توجہ کا مرکز بنی تھیں۔ وہ شخص سیڑھیوں کے پاس آیا اور اپنے جوتے و موزے اُتاے۔ موزوں کو جوتوں کے اندر رکھا۔ پھر جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور وہ بھی جوتوں کے اندر رکھ دیا۔ جیسے سگریٹ مزار کے اندر لے جانا بے اَدبی ہو، پھر ٹہلتا ہوا مزار کے اندر چلا گیا۔

سگریٹ کا پیکٹ دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ غیر ملکی سگریٹیں ہیں۔ ’’آج تو عیاشی ہوگئی‘‘ اس نے سوچا اوربے اختیار اپنی اُنگلیوں کو چوما۔ یہ اس کی عادت تھی۔ وہ جیب کاٹنے سے پہلے اوربعد میں اپنی اُنگلیوں کو ضرور چومتا تھا جیسے انہیں شاباش دے رہا ہو۔ پھر ہجوم میں کسی کو بھی خبر نہ ہوئی کہ کب سگریٹ کا پیکٹ اس کے ہاتھ میں آ گیا۔

وہ پیکٹ لے کر نیچے گھاس کے میدان میں آیا اور کم آباد جگہ پر بیٹھ کر بڑے مزے سے اسے کھولنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ سیٹی بھی بجا رہا تھا، لیکن جیسے ہی پیکٹ کھلا، سیٹی کے ساتھ ساتھ اس کی سانس بھی رُک گئی اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے بدن میں پھیل گئی۔ پیکٹ میں ایک بم تھا ’’ریموٹ کنٹرول بم۔‘‘

اس نے سوچا، انگریزی فلموں میں ایسے ہی بم ہوتے ہیں۔ کوئی شخص کہیں دُور بیٹھ کر ایک بٹن دباتا اور بم زوردار دھماکے سے پھٹ جاتا۔ فلموں میں دیکھے ہوئے بیسیوں مناظر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔ دھماکے، دھماکے، دھماکے… وہ یکدم چونک کر بم کی طرف دیکھنے لگا جیسے وہ ابھی پھٹ جائے گا… اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے؟’’کیا میں چیخ چیخ کر سب کوبتا دوں کہ یہاں بم ہے؟‘‘ اس نے سوچا۔ ’’نہیں، ایسے تو لوگ بدحواس ہو کر بھاگیں گے، یوں ہجوم میں بہت لوگ کچلے جائیں گے۔‘‘ پھریہ بات بھی تو تھی کہ لوگوں کے بھاگ جانے سے اس کا دھندا خراب ہو جاتا۔

آج پھرایک دھماکا ہوگا۔ بیسیوں انسان مرجائیں گے۔ پھر ہنگامے، کرفیو، کاروبار بند… نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے اندر سے ایک آوا زاُبھری، پھر اچانک ہی ایک اور خیال اس کے ذہن میں آیا، ’’کہیں یہ غیرملکی تخریب کار تو نہیں؟‘‘ اخباروں میں ہر روز ان کا تذکرہ ہوتا تھا، مگر اس نے آج تک کسی تخریب کار کو نہیں دیکھا تھا۔

’’ہاں ممکن ہے، یہ کالا انگریز میرے دیس کا دُشمن ہو اور ہمارے لوگوں کو قتل کرنا چاہتا ہو… نہیں… میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔ اس کے اندر یکدم حب الوطنی کا شدید جذبہ پیدا ہوگیا۔ وہ تیزی سے اُٹھا اور مزار کی طرف لپکا، جلد ہی اسے وہ کوٹ والا نظر آ گیا، اب اس کا ہاتھ کوٹ کی اندرونی جیب میں تھا۔

’’کیا وہ بٹن دبانے والا ہے؟‘‘ یہ سوچ کر ہی اس کا حلق خشک ہوگیا۔ لیکن جب کوٹ والے نے اپنا ہاتھ جیب سے نکالا، تو اس میں کیلکولیٹر جیسا آلہ دبا ہوا تھا۔ ’’فلموں میں ایسے ہی آلے کا کوئی سرخ بٹن دبا کر بم چلایا جاتا ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور تیزی سے اس کوٹ والے کی جانب بڑھا۔ اس کے اعصاب بُری طرح تنے ہوئےتھے۔ وہ ہر لمحے دھماکے کا منتظر تھا۔ لیکن شاید کوٹ والے نے بھی اسے اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا۔ شاید اسے خفیہ پولیس والا سمجھا کیونکہ اس نے فوراً وہ کیلکولیٹر نما آلہ دوبارہ جیب میں رکھ لیا۔

یہ دیکھ کر ایک گہری سانس اس کے حلق سے خارج ہوئی اور جان میں جان آگئی۔ کوٹ والے نے نظر بھر کر اسے دیکھا پھر یوں مزار کے عین اُوپر لگے طلائی فانوس کو دیکھنے لگا جیسے اس نے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا ہی نہیں پھر وہ دھیرے دھیرے سرکتے باہر کی جانب چلنے لگا۔ وہ بھی اس کے ساتھ لگ کر چل رہا تھا۔ وہ اسے کیلکولیٹر دوبارہ نکالنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتا تھا۔ 

اس نے لاشعوری طور پر اپنی اُنگلیوں کو چوما۔ اسی وقت کوٹ والے نے دوبارہ جیب میں ہاتھ ڈالا… اس کے اعصاب دوبارہ تن گئے اور رونگٹے کھڑے ہونے لگے… ہر لمحہ یوں لگ رہا تھا کہ اب دھماکا ہوا۔ چند لمحے صدیوں کے برابر ہوگئے۔ لیکن کوٹ والے نے جیب سے ہاتھ نکالا تو اس میں سگریٹ کا پیکٹ دبا ہوا تھا۔ ایک بار پھر اس نے گہری سانس خارج کی۔ کوٹ والے نے رُک کر ایک سگریٹ سُلگایا اور اس کے ہلکے ہلکے کش لگاتا لاپروائی سے آگے بڑھنے لگا۔ 

اب کوٹ والے سے اس کا فاصلہ ایک قدم کا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے لاتعلق نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ چلتےہوئے پچھلے دروازے کی جانب آ گئے جہاں سے سڑک اسلامیہ کالج کو جاتی ہے۔ کوٹ والا اپنے جوتے لیے بغیر ہی ننگے پائوں سڑک پر آ گیا تھا۔ وہ اب بھی اسکےساتھ ساتھ تھا۔ پھر ایک کار کوٹ والے کے قریب آ کر رُکی اوروہ تیزی سے دروازہ کھول کر اس میں سوار ہوگیا۔ کار میں بیٹھتے ہی اس نے کیلکولیٹر نما آلہ نکال کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ 

جاتے جاتے اس سے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلا کر یوں ٹاٹا کہا جیسے اس کی ناکامی پر طنز کر رہا ہو… کار تیزی سے دُور ہوتی جا رہی تھی۔وہ اسے جاتے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لاشعوری طور پر بڑے پیار سے اپنی اُنگلیوں کو چوم لیا… بلاشبہ یہ پیار کے قابل تھیں کیونکہ انہوں نے بھی صفائی سے بم کوٹ والے کی جیب میں منتقل کر دیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد خاصی دُور ایک ویران سڑک پر دھماکا ہوا اور دہشت گردوں کی کار کے پرخچے اُڑے گئے۔