مغربی دنیا میں حکومتیں مضبوط ہیں لیکن معاشرے نہیں جب کہ پاکستان میں حکومتیں کبھی مضبوط نہیں رہیں جب کہ معاشرہ مختلف مستحکم ستونوں پر کھڑا رہا ۔ مثلاً امریکہ میں دنیا بھر سے مختلف مذاہب اور نسلوں کے حامل لوگ جمع ہوگئے ہیں لیکن انہیں مضبوط حکومتی نظام اور قانون کی بالادستی نے سیدھے راستے پر رکھا ہوا ہے۔
یہی حال برطانیہ کا ہے اور لندن میں تو خود انگریز اقلیت میں بدل گئے ہیں لیکن ان ممالک میں چوں کہ قانون کی بالادستی ہےچناں چہ جرنیل، جج، سیاستدان اور عام شہری پر قانون کا یکساں اطلاق ہوتا ہے اس لئے وہ ریاستیں مضبوط ہیں جب کہ ہمارے پاکستان میں تو قبائلی علاقہ جات، بلوچستان، گلگت بلتستان اور اسی طرح کے کئی دیگر علاقوں میں حکومتی اداروں کی موجودگی برائے نام رہی ۔
یہاں کبھی آئین (جو مختلف اقوام اور اداروں کے مابین باہمی میثاق ہے) معطل ہوجاتا ہے اور جمہوریت میں بھی قانون کا اطلاق سیلیکٹیو ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان سلامت رہا تو وہ یہاں کے مضبوط معاشرے اور اقدار کی وجہ سے ہے۔تاہم عمران خان پہلے دن سے ہماری ان اقدار کو تباہ کرنے پر تلےرہے۔ انہوں نے اپنے گھرسے خاندان کے نظام کو تباہ کرنا شروع کیا۔ میاں بیوی کے رشتے کے تقدس کو مذاق بنایا ۔ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم کی۔ نوجوانوں کو گالم گلوچ پر لگایا ۔
کئی سال قبل جب ایک ٹی وی ٹاک شو میں علی محمد خان نے قمرالزمان کائرہ جیسے عزت دار سیاستدان سے مروتاً کہا کہ آپ تو ہمارے بڑے ہیں اور ہم آپ سے سیکھتے ہیں تو اگلے دن عمران خان نے انہیں ڈانٹ پلا دی۔
ریحام خان جب عمران خان کی اہلیہ تھیں تو ایک روز فیاض الحسن چوہان نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں عمررسیدہ اور گھر میں مقیم بیگم نسیم ولی خان کے لیے نہایت نامناسب الفاظ استعمال کئے، جس کے جواب میں بیگم نسیم کے ترجمان نے جواباً ریحام خان پر ذاتی حملے کئے۔
اگلے روز ریحام خان صاحبہ میرے دفتر تشریف لائیں تو میں نے انہیں کہا کہ کل ٹی وی ٹاک شو میں آپ کو جو گالی پڑی ہے ، اس کے ذمہ دار فیاض الحسن چوہان ہیں۔ الحمدللہ وہ زندہ ہیں اور ان سے تصدیق یا تردید کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ آج خان صاحب سے یہ شکایت کریں گی لیکن چند روز بعد فیاض الحسن چوہان کو عہدے سے نوازدیاگیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر نہیں بلکہ دنیا بھر سے عمران خان نے شہباز گل جیسے بدزبانوں کو اپنے گرد جمع کیا۔
وہ خود بھی نجی محفلوں میں بہت گالیاں دیتے ہیں ۔ وہ بالآخر ہمارے معاشرے کے ان بندھنوں کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس لئے اب وہ اس ملک کو طاقت سے ایک رکھنے والے ادارے یعنی فوج کے پیچھے پڑگئے ہیں ۔
میں دس پندرہ سال متنبہ کرتا رہا کہ سب سے خطرناک کام عمران خان یہی ہماری سوسائٹی کی اقدار کو پامال کرنے کا کررہے ہیں لیکن افسوس کہ کسی نے دھیان نہیں دیا۔محمود خان اچکزئی کی چادر کا مذاق اڑایا تو مولانا کی پگڑی اور داڑھی کا مذاق اڑاتے رہے ۔
علیٰ ہذہ القیاس۔ وہ سب کو القابات سے پکارتے رہے۔ میرے لئے بھی انہوں نے دو تین القابات تراش لئے تھے۔
مجھے اور میری ماں کو پندرہ سال سے سوشل میڈیا پر گالیاں دلوارہے ہیں لیکن خود کبھی میڈیا پر میرا نام لینے کی ہمت نہ کرسکے ۔
میں اس دوران لوگوں کو سمجھاتا رہا کہ عمران خان میری اور میری ماں کی کردار کشی کررہا ہے، تو لوگ مانتے نہیں تھے حالانکہ میرے پاس شواہد موجود تھے ۔
عمران خان خود کئی بار ٹی وی پر آکر ایکٹنگ کرتے ہوئے انجان بن جاتے تھے کہ ہمارے تو لاکھوں کارکن ہیں ۔ یہ گالم گلوچ وہ اپنے تئیں کررہےہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے فریحہ ادریس ،جو عمران خان کی بڑی مداح ہیں ،کے شو میں مجھے اپنی زبان سے سلیم لفافی قرار دے دیا۔ باوجود اسکے کہ عمران خان یہ جانتے ہیں کہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں ۔
انہوں نے جن جن سے لفافے لئے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات میرے پاس ہیں کیوں کہ پچھلےبرسوں میں جو مرد یا خاتون پی ٹی آئی سے ناراض ہوتی، وہ پہلی فرصت میں میرے پاس آتی اور سب دونمبریوں کی تفصیلات بیان کرتی ۔ ان کی شادیوں اور طلاقوں کی تمام تفصیل اور شواہد کے انبار ہیں لیکن میں نے کبھی ان کی ذاتی زندگی پر بات نہیں کی ، گالی نہیں دی ۔
انہوں نے کبھی اپنا پرس نہیں رکھا اور ساری زندگی دوسروں کے لفافوں پر گزاری ہے یوں لفافی کا لفظ انہیں جچتا ہے لیکن میں نے کبھی انہیں عمران لفافی نہیں کہا ۔
ان کی اہلیہ پنکی اور پیرنی وغیرہ کے ناموں سے پکاری جاتی ہیں لیکن میں انہیں خاتون اول اور بشریٰ بی بی کے ناموں سے پکارتا رہا حالانکہ مجھے ان کے اور ان کے سارے خاندان کے ”کارناموں“ کا پتہ ہے۔
ماضی کو چھوڑیں مجھے آج بھی پتہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد انہیں بلٹ پروف گاڑی کا لفافہ کس نے دیا اور ان کے سیمیناروں کا خرچہ کون سا نیا اے ٹی ایم ادا کرتا ہے ؟ اس نئے اے ٹی ایم کی بنیادیں بھی برطانیہ میں ہیں لیکن بہر حال میں عمران خان کا مشکور ہوں کہ فریحہ ادریس کے شو میں سلیم لفافی کہہ کر انہوں نے ثابت کردیا کہ گزشتہ پندرہ سال وہ جھوٹ بولتے رہے اور میں سچ بولتا رہا کہ یہ سب کچھ نیازی صاحب خود کروارہے ہیں۔
نیازی صاحب جب ایجنسیوں کی سلیکشن سے وزیراعظم بنے اور تمام طاقتور ادارے ان کے پاس تھے تو میں نے پہلے ہفتے ٹی وی پر بیٹھ کر یہ پیشکش کی تھی کہ وہ صحافیوں کی کرپشن کے بارے میں ایک کمیشن بنادیں اور آغاز مجھ سے کریں۔
اب جب عمران خان نے خود اس الزام کا اعادہ اپنی زبان سے کیا ہے تو میں انہیں پیشکش کرتا ہوں وہ تین چار افراد پر مشتمل کمیٹی اسی خاتون اینکر کی قیادت میں بنادیں، جو میرے اور عمران خان کے مالی معاملات کی تحقیق کرے ۔
میرے رزق میں اگر ایک پیسہ حرام کا ثابت ہوا یا کسی سے لفافہ یا مالی مراعات لینے کا الزام ثابت ہوا تو میں صحافت چھوڑ دوں گا اور اگر عمران خان لفافے لینے والے ثابت ہوئے تو وہ سیاست چھوڑدیں گے ۔
دوسری پیشکش انہیں میری یہ ہے کہ وہ مراد سعید ، شبلی فراز اور فواد چوہدری پر مشتمل کمیٹی پی ایف یو جے کے صدر کی قیادت میں بنائیں جو ہم دونوں کے معاملات کی تحقیقات کرے ۔ میں اگرلفافی ثابت ہوا تو جو چور کی سزا وہ میری سزا اور عمران خان اگر لفافی ثابت ہوئے تو انہیں سیاست چھوڑ کر معافی مانگنی پڑے گی۔
انہوں نے ان دونوں میں سے کوئی بھی کام نہ کیا تو پھر یہ یاصد رکھیں کہ اب انہوں نے مجھے اخلاقی قید سے آزاد کردیا ہے اور میں اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کرہی دم لوں گا۔ ان شا اللّٰہ۔