بھارت میں ناانصافی کی شکار مسلم خاتون بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کے کیس کے 11 مجرمان کی رہائی بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی گئی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والے کارکنان کی جانب سے آج (منگل کو) سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس میں ملوث 11 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواست خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان سبھاشنی علی، ریوتی لاؤل اور روپ ریکھا ورما کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں ویمن رائٹس ایکٹیوسٹس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان مجرمان کو رہا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کا کیس ہے۔
اس کیس میں 2 سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل اور اپرنا بھٹ کی جانب سے بھی بھی چیف جسٹس آف بھارت این وی رمنا کی سربراہی میں بنے بینچ کے سامنے مجرمان کی رہائی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
ایڈووکیٹ کاسبل کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ یہ بہت سنجیدہ کیس ہے، اس کیس میں 14 لوگ مارے گئے اور ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری کی گئی۔
کیس کی سماعت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست پر غور کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2002ء میں گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دورِ حکومت میں مسلم کش فسادات کے دوران ایک حاملہ خاتون بلقیس بانو کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جب بلقیس بانو کو اس ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا اُن کی عمر اس وقت 20 سال تھی اور وہ کئی ماہ کی حاملہ بھی تھیں، اس سیاہ دن بلقیس بانو کی 3 سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 7 افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
بلقیس بانو کے ساتھ زیادتی اور بچی کے قتل میں ملوث ان مجرمان کو 2008ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ 15 اگست 2022ء کو ان مجرمان کو گجرات کی حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت رہا کر دیا تھا۔