دھت … دھت … اَبے چُپ۔ یہ کتے بھی ہمیشہ بے وقت کا راگ الاپتے رہتے ہیں!
کسی کی بہکی بہکی آواز سرد فضائوں میں گونجی اور سامنے کی گلی کے کُتّے ایک سُر میں بھونک نے لگے۔
میں اپنے گھر کی دوسری منزل پر بنے اپنے کمرہ میں لیٹا محوِ مطالعہ تھا اور دیوار پر آویزاں گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔ کتّوں کی آوازیں سُن کر میں اپنی آنکھوں کو کچھ راحت دینے کے لیے اور کچھ یہ دیکھنے کے لییٔ بالکی میں آکر کھڑا ہوگیا کہ آخر گلی کے کُتّے اتنی سردی میں بھی اپنے گلے کو لگا تار اتنی زحمت کیوں دے رہے ہیں!
بہرحال، میری نگاہیں اُس گلی کا جائزہ لینے لگیں جہاں ایک شناسا کے گھر کے روشن دانوں سے روشنی چھن چھن کر گلی کی تاریکی کو چیر رہی تھی اور کُتّوں کی بھوں بھوں سے زندگی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔
دھت… دھت… اَبے چُپ!کیا تم لوگ مجھے جانتے نہیں؟ میں تم سب کا دوست، مسٹر وجے کمار ہوں۔
سبھی کُتّے ایک لمحہ کے لیے ایسے خاموش ہوگئے جیسے وہ سب مسٹر وجے کمار کے طابعدار ہوں۔
اسی اثناء میں دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک نسوانی سدا سنائی دی،آپ آگئے۔ آج بھی بہت دیر کردی۔
ہاں، میں آگیا۔ دروازہ بند کرو اور جلدی سے مجھے کھانا گرم کرکے دو۔بہت بھوک لگی ہے ۔ مسٹر وجے کمار نے حکم دیا۔
مجھے کیا ، گلی کے سب ہی لوگوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ جب وجے رات گئے نشے کی حالت میں لوٹتا ہے تو پورا گھر کچھ دیر کے لیے جہنم بن جاتا ہے۔ بیوی، جسے وہ بہت چاہتا ہے، وہ اپنے شوہر کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھتی اور اس کا جسم مارے خوف کے تھرتھراتا ہے کیونکہ وجے کو نشے کی حالت میں ذرا ذرا سی بات پر بے قابو ہوجاتا اور اپنی بیوی کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ کر اول فول بکتا ۔ فحش گالیاں دیتا ۔ اُس کی چوٹی پکڑ کر فرش پر گھسیٹتا اور پھر پیٹنے لگتا۔
اس خوف زدہ ماحول میں، اس کی دو چھوٹی چھوٹی معصوم بیٹیا ں چیخ کر جاگ اٹھتیں۔ فریاد کرتیں، ہاتھ جوڑتیں، گِڑگِڑاتیں، مگر وہ؟ وہ کسی کی نہیں سنتا۔
البتہ جب وہ چلاّتے ، مارتے اور گالیاں بکتے بکتے تھک جاتا تو اپنے کمرہ کے ایک کونے میں نڈھال ہوکر کہیں پڑ جاتا اور اس کی بچیاں رات بھر خوف کے مارے نہ روتیں اور نہ سوتیں۔ اس کی بیوی بھی پوری رات اپنی قسمت کو کوستی رہتی مگر وجے ساری رات دنیا سے بے خبر خراٹے بھررہا ہوتا۔ اس رات بھی سب کچھ ایسا ہی ہوا۔
وجے کمارایک سرکاری دفتر کے اکائونٹ سیکشن میں کلرک تھا۔پھر وہ ترقی پاکر اکائونٹینٹ بن گیا ۔ ملازمت کی ابتدا کے دوران سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ وہ ٹھیک آفس ٹائم کے بعد سیدھے گھر آتا تھا۔
لیکن جلد ہی لوگوں نے اپنا کام کروانے کے لیے اسے تحفے دینے شروع کر دیے۔بہت جلد ان تحفوں نے رشوت کی شکل اختیار کرلی ۔ اب وہ آفس ٹائم کے بعد بھی دفتر میں بیٹھنے لگا اور جِن نامی شراب کی چسکی لینے لگا۔ دھیرے دھیرے اسے اسکی ایسی لت لگی کہ اب وہ روزانہ مختلف برانڈ کی شراب کا مزہ لینے لگا ۔ آہستہ آہستہ وہ آفس کے ساتھیوں کے ساتھ تاش کھیلنے لگا ۔پھر اس کھیل نے قمار بازی کا روپ اختیار کرلیا۔ اب اسے جوا بہت اچھا لگنے لگا۔ اس شغل میں اسکا کافی وقت دفتر اور نئے دوستوں کے ساتھ گذر نے لگا۔ اب وہ اکثر و بیشتر کافی رات کو گھرآتا اور پھر وہ گھر اس کی بیوی اور بیٹیوں کے لیے جہنم بن جاتا۔
لہٰذا میں نے طے کیا کہ میں اسے سمجھاؤنگا ،کہ وہ نشے اور قمار بازی سے توبہ کرے اور اپنی بیوی اور معصوم بیٹیوں کی زندگی جہنم نہ بنائے۔
اِس ارادہ کے ساتھ جب میں دوسرے د ن صبح اُس کے گھر پہنچا اور دروازہ کی گھنٹی بجائی تو اندر سے آواز آئی۔
کون صاحب ہیں ؟
میں ہوں، رئیس، رئیس صدیقی۔
آئیے، آئیے، تشریف لائیے۔
بڑی خوشگوار آواز میں جواب ملا۔
جب میں گھر کے اندر داخل ہوا تو میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ وہی وجے ہے جس کے قدم رات کو بہک جاتے ہیں۔ یہ وہی دونوں کم عمر بیٹیاں ہیں جو رات کو اپنے باپ کے سامنے رو روکر گِڑگِڑارہی تھیں۔
مگر اس وقت وہ دونوں اپنے باپ کے ساتھ کھیلنے میں مست تھیں، خوش تھیں، چہرے پر مسرّت چھائی ہوئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد اس کی بیوی چائے لے کر آگئی۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں مگروہ اپنی دونوں بیٹوں کو خوش دیکھ کر بہت خوش تھی۔
یہ خوشگوار ماحول دیکھ کر میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ میں نے چائے پی اور یہ کہتے ہوئے اجازت لی کہ ایک ضروری کام یاد آگیا ہے، پھر کبھی آئوں گا۔
آج ایک ماہ کے سرکاری دورہ کے بعد جب میں ایک افسانہ لکھنے کے لیے گھر کی دوسری منزل پر بنے اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھا تو میرے قلم ندارت تھے۔ دراصل میری بیٹی ثمن کی بہت بڑی کمزوری ہے میرے قلم۔ لہٰذا میں اپنی بیوی سے پین لینے کے لیے زینے سے نیچے اتر ہی رہا تھا کہ غیر شعوری طور پر میری نظر سامنے والی گلی میں آتے ہوئے ایک آدمی پر پڑی۔
اس کے چہرہ پر داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ سر کے بال ایک دوسرے سے الجھے ہوئے تھے۔ جسم پر میلے اور بوسیدہ کپڑے تھے۔ اس کی چال سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شخص رنج و غم کا مارا ہوا ہے۔ وہ بالکل ٹوٹ چکا ہے۔ وہ زندگی سے مایوس ہوچکا ہے۔ وہ اب صرف زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔
جب میں نے اسے غور سے دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ کوئی اور نہیں، وجے تھا۔
میں نے بڑی بے تابی سے اپنی بیوی سے پوچھا، یہ وجے کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا وہ بیمار ہے ؟ اس کی بیوی اور بیٹیاں کیسی ہیں ؟
میری بیوی نے افسوس جتاتے ہوئے بتایا۔
وجے کی بیوی اور دونوں بیٹیاں اسے چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔ کافی تلاش کیا گیا مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔
لیکن وہ لوگ وجے کو چھوڑ کر کہاں اور کیوں چلے گئے ؟
بیوی نے اپنی عادت کے مطابق مختصر سا جواب دیا۔
کہاں چلے گئے ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن کیوں چلے گئے ؟اس کا جواب تم خود بھی جانتے ہو۔یہ کہتے ہوئے وہ غم زدہ لہجہ میں بولی:
ہر رات وجے کے بہکے قدموں نے رشتوں کو ایسی اذیت دی کہ ان کے باہمی رشتے سسکنے لگے ۔ جب اسکی بیوی روز روز کی چِک چِک سے تنگ آ گئی تو ایک دن اسکے ضبط اور صبر کے باندھ ٹوٹ گئے اور وہ اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ کہیں گم ہو گئی ،ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ!
( افسانہ نگار آکاشوانی و دوردرشن کے سابق آئی بی ایس افسر،
پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم، شاعر، ادیبِ اطفال ہیں)