چراغ حسن حسرت تخلص 1904ء میں پونچھ (آزاد کشمیر) میں پیدا ہوئے۔ فارسی، اُردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پرحاصل کی۔ 1924ء میں لاہور آگئے اور زمیندار، انصاف، احسان وغیرہ اخبارات سے متعلق رہے۔ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت بھی کی۔ 1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو حسرت ’’فوجی اخبار‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔
اس ملازمت کے سلسلے میں آپ برما اور ملایا بھی رہے۔ فوجی ملازمت سے سبکدوش ہو کر روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ’’سند باد جہازی‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھتے رہے۔ ایک شاعر کے علاوہ اچھے مزاح نویس اور طنزنگار تھے۔ 26؍جون 1955ء کو لاہور میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔ ذیل میں چراغ حسن حسرت کے حوالے سے چند لطائف نذرِ قارئین۔
لطائف ِ حسرت:
کسی مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سناتے سناتے چراغ حسن حسرت سے مخاطب ہو کر بولے:
’’حسرت صاحب! مصرع اٹھائیے۔‘‘
’’ضرور اٹھائوں گا، اپنی تو عمر ہی غزلوں کے مصرعے اٹھانے اور مردوں کو کندھا دینے میں کٹ گئی ہے۔‘‘
………٭٭٭٭………
مولانا چراغ حسن حسرت بلندپایہ صحافی انشائپرداز اور شاعر تھے۔ فوج میں کپتانی کے منصب پر فائز تھے لیکن ڈسپلن کے پابند نہیں تھے۔ سنگاپور میں تعیناتی کے زمانے میں جب کرنل مجید ملک نے جو خود بھی شاعر تھے۔ کبھی معاملہ میں مولانا سے تحریری بازپرس کی تو انہوں نے فائل پر یہ شعر لکھ کر بھیج دیا۔
جرمنی بھی ختم اس کے بعد جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
چراغ حسن حسرت کا قد لمبا تھا۔ ایک روز بازار گئے۔ آموں کا موسم تھا……
ایک دکاندار سے بھائو پوچھا دکاندار نے پانچ آنے سیر بتایا حسرت نے کہا۔
’’میاں آم تو بہت چھوٹے ہیں۔‘‘
دکاندار نے کہا۔’’میاں نیچے بیٹھ کر دیکھو آم چھوٹے ہیں یا بڑے۔ قطب مینار سے تو بڑی شے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔‘‘
………٭٭٭٭………
مولانا چراغ حسن حسرت بے حد ذہین وفطین اخبار نویس، شاعر، ادیب و نقاد ہونے کے علاوہ اعلیٰ پایہ کے مبان دان تھے۔ ہر ایک کا مذاق اُڑانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ ہفتہ وار’’شیرازہ شائع کرتے تھے۔ ایک بار جو شامت آئی تو حکیم یوسف حسن پر طنز کیا:
’’حکیم صاحب !اپنے پرچے کو بہتر بنایئے۔ ذرا اس جانب توجہ دیجئے۔ کیوں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔۔۔‘‘ حکیم صاحب یہ پڑھ کر سیخ پا ہوگئے۔ کس کی مجال تھی جو ان پر انگشت نمائی کرے حکیم صاحب نے جواب دیا:
’’حضرت مولانا، پہلے اپنے گھر کی خبر لیجئے’یہاں تو چراغ تلے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ آپ کا ’’شیرازہ‘‘ نیوز ایجنٹوں کے ہاں سے سیدھے ردی کے بیوپاریوں کے ہاں پہنچ رہا ہے۔ اللہ ! ’’شیرازہ‘‘ بکھرنے سے بچا لیجئے۔‘‘
……٭٭……٭٭……
یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا