کراچی آرٹس کونسل میں ’ساڑھے چودہ اگست‘ تھیٹر پلے پیش کیا جارہا ہے، انور مقصود کے ڈرامے میں اس مرتبہ آئٹم نمبر بھی دکھایا گیا ہے جس کی وجہ سے نامور مصنف کو تنقید کا سامنا ہے۔
جیو ڈیجیٹل کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انور مقصود نے اس حوالے سے گفتگو کی اور کہا کہ ہندوستان کی فلموں میں گانے ہوا کرتے تھے یہ ان کی تہذیب تھی، دیو آنند، مدھو بالا اور دلیپ کمار کوئی گانا گاتے دکھائی دیتے تو اس میں ایک تہذیب جھلکتی تھی، اب وہ تہذیب چلی گئی ہے، دہلی اُجڑ گیا ہے، ویسے تو یہ شہر کئی مرتبہ اُجڑا، جس شہر میں کھانے کو نہیں ہے وہاں لوگ کروڑوں روپے لگا رہے ہیں ایک آئٹم نمبر کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آئٹم نمبر تو نہیں ہے، البتہ ایٹم بم ضرور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو گانا تھیٹر پلے میں ناظرین نے دیکھا اور سنا اس کے بول بالکل ڈرامے کی کہانی پر ہیں، مجھے دکھانا پڑا کہ اب ہندوستان کا کلچر کیا ہے؟ اس طرح کے گانے آپ بھارتی فلموں میں دیکھتے ہیں جن کی کوئی تُک تو نہیں لیکن ان کے بغیر فلمیں ہٹ نہیں ہوتیں۔
انور مقصود نے کہا کہ ہم نے کبھی ایسے گانے نہیں دیکھے تھے اور میں کھبی ایسی چیز نہیں دکھاتا لیکن پڑوسی ملک کے حالات ایسے ہیں کہ مجھے یہ سین دکھانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں ان لوگوں سے جن کو بُرا لگا لیکن اعتراض کرنے والے بھی گانا دیکھ رہے تھے۔
نامور مزاح کار سے کراچی کی سڑکوں پر سوال کیا گیا کہ وہ اتنی خراب حالت میں تھیٹر کی اوپننگ کے لیے آرٹس کانسل کیسے پہنچے جس کا انہوں نے سوالیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کراچی میں سڑک بھی ہے؟ کیونکہ اپنے گھر سے آرٹس کونسل پہنچنے میں انہیں سخت اذیت سے گزرنا پڑا۔
انور مقصود نے کہا کہ ہمارا وطن بہت خوبصورت ہے، البتہ حکمرانوں کو اور ہمیں اس ملک کی قدر نہیں ہے، جو بارش رحمت ہوا کرتی تھی اسے ہمارے عمل نے زحمت بنادیا ہے۔ یہ پانی جس میں لوگ ڈوب رہے ہیں اسے محفوظ کرنا چاہیے تھا۔
ڈرامے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نامور مصنف نے کہا کہ صرف جھنڈے جھنڈیاں لگانا آزادی نہیں، جس دن وہ آزادی دیکھیں گے اس دن ’چودہ اگست‘ کا اسکرپٹ لکھیں گے۔