میگزین رپورٹ۔ اسلام آباد
سید علی گیلانی کی زندگی عملی جدوجہد سے عبارت ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی ایک توانا آواز تھے پیرانہ سالی میں بھی بالخصوص مقبوضہ کشمیر کی پاکستانی سے وابستگی کے نعروں میں ان کی آواز کے جوش و خروش اور عزم و استقلال کے اظہار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کے اس جذبے کے عقیدت و احترام کے اعتراف میں پاکستان کے 73ویں یوم آزادی کے موقعہ پر انہیں نشان پاکستان بھی دیا گیا۔ یہ اعزاز انہیں صدر پاکستان عارف علوی نے ایوان صدر میں ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں دیا جسے اسلام آباد میں حریت کے رہنمائوں نے وصول کیا۔
دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری بالخصوص پاکستان میں ان کی جدوجہد آزادی کا اعتراف جہاں ان کی زندگی میں ہوتا رہا یہ سلسلہ ان کے مقاصد کے حصول کے بعد بھی جاری رہے گا اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوگا کہ ان کی سوچ ان کے نظریے کو زندہ رکھا جائے۔ سید علی گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر ان کے داماد افتخار گیلانی جو صحافت کے حوالے سے بھی ایک معتبر نام ہیں اور ان کی جدوجہد کے ایک مستند عینی شاہد ہیں ان کی طویل تحریر کے ایک اقتباس پیش کر رہے ہیں۔ افتخار گیلانی گو کہ سید علی گیلانی کے داماد تھے لیکن ان سے فکر و قلب کی شدید وابستگی کے باعث انہیں ’’ ابا جی ‘‘ کہکر پکارتے تھے اور درجہ بھی اسی رشتے کا دیا کرتے تھے۔
سید علی گیلانی کی شخصیت کے بارے میں ان کی معلومات ٗ تفصیلات اور واقعات انہوں نے حریت کے قائد کی زندگی میں ہی تحریر کئے اس سے بھی ان کے مصدقہ ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دراز قد، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکر اس کے قریب جانے اور مصافحہ کرنے کی سبقت لینے کےفراق میں ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ شخص گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں اور خانقاہ میں نماز شکرانہ ادا کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر گالوں کو تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید(جو انہی دنوں امریکہ منتقل ہو گئے تھے)کے استاد تھے۔ بعد میں اباجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹر میڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو ان کو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کے لیے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔ اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی، جو ابن حسام کے نام سے شاعر اورعربی فارسی کے عالم بھی تھے، کو بچوں کو پڑھانے کی ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔
اس الیکشن میں انہوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔ گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے مگر ہندوستان میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پردیش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔
جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپورقصبہ میں 1972کی سردیاں گرمی کا احساس کروا رہی تھیں۔ ایک تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اباجی یعنی سید علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا، تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے ) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سید علی ہمدانی کی درگاہ یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پر جوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔
سوپور قصبہ اور اس کے اطراف میں 60اور 70 کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے شعلہ بیان سید علی گیلانی، انقلابی شخصیات شی گویرا، ہوچی من یاآیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا 1979میں افغانستان پرسویت فوجوں کی چڑھائی یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کا یروشلم شہر کا ضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
جیسے گویرا نے کہا ہے ”کہ انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود ہی جھولی میں آکر گرے، اس کو گرانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے،“ 1989میں کشمیر میں جو ہندوستان مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اس کے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔ 1975کے بعد کشمیر کی اکثر آزادی پسند تحریکیں انڈر گراؤنڈ ہوچکی تھیں۔ ویسے 1947کے بعد مسلم کانفرنس کی اعلیٰ لیڈرشپ چودھری غلا م عباس اور میر واعظ یوسف شاہ کی ہجرت کے بعدشیخ محمد عبداللہ کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔
1975 کے اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے ایکارڈ کے بعد ہندوستان مخالف سیاست کو گیلانی صاحب کی صورت میں بلا لحاظ نظریہ ایک آواز، چہرہ اور سرپرست ملا۔ ان کا بچپن نہایت ہی عسرت اور مفلسی کی داستان ہے۔ کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گاؤں کے اسکول سے امتیازی نمبرات حاصل کرکے ان کو نو کیلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گاؤں سے اسکول جانے کے لیےیہ بچہ روز پیدل 18کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔
شاید اسی بیک گراؤنڈ نے ان کو سختیاں جھیلنے اورنظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔ 1963میں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد کا انتقال کر گئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاکر کھڑکی پر بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب بھی کبھی دور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔
آخرکار یہی گھاؤ لیے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب میں بھی سرایت کر گیا۔ تمام تر مشکلات و طعنے سہنے کے باوجود انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ ویسےتو ان کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق 1996میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئی۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔
شاید ہی کوئی ان کی تقریریا جلسہ جو سوپور یا اس کے اطراف میں منعقد ہوا ہو، جس میں، میں نے شرکت نہ کی ہو۔ اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کو روایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے اور گمراہ ہوجاتا ہوں۔ کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے۔ مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دیکر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔
گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاؤں ڈورو میں ہوئی تھی اور وہاں ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی تھی۔ چونکہ ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہذا انہوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔ میری ساس کو بھی ایسے داماد کی تلاش تھی، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔
ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اولین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہو کر نو سال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ وہ پچھلے پانچ سالوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیلوں کی زیارت کر چکے ہیں۔ ان کے بڑے داماد، غلام رسول، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے کے چچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ سرکاری بندوق برداروں اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
خیر جب میں 90کے اوائل میں دہلی وارد ہواتو دیگرکشمیری طالبعلموں کے ساتھ مل کر ہم نے ایسا ماحول بنایا تھا کہ نظریاتی اور لیڈرشپ کے اختلافات سے بالاتر سبھی لیڈروں کی میزبانی کرکےان کو فورم مہیا کروائیں جائیں۔ اسی لیے چاہے شبیر شاہ ہوں یا یٰسین ملک، عبدالغنی لون یا سید علی گیلانی، سبھی کے لیے ملاقاتوں کا نظم کروانا اور ان کی خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھاتے تھے، جب تک غالباً1995میں دہلی میں حریت کا دفتر نہیں کھلا، جو 2003 تک کشمیر ایورنس بیورو کے نام سے کام کرتا رہا۔
ایک بار میں نے گیلانی صاحب سے کہا تھا کہ آپ کو گورمنٹ جوائن کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ سوپور میں ایک بار انکی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اس کے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور سی آئی ڈی کا جال بچھا ہوا تھا۔
خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ 1975میں جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو شیخ محمد عبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اس کے لیڈروں اور اراکین کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لیےچھاپے پڑتے رہے۔ سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھہرتے تھے، کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔
چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے پھر باہر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔ گو کہ گیلانی صاحب عسکری تحریک کے حامیوں اور اس کے سرپرستوں میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر اس کی خامیوں پر براہ راست مخاطب بھی ہوتے تھے، جس کی وجہ سے کئی نوجوان اور لائن آف کنٹرو ل کے دوسری طرف کے لوگ بھی ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فروری 1990میں سوپور میں اور پھر یاری پوری اننت ناگ میں انہوں نے بھرے جلسہ میں کہا کہ ”سفر بڑا طویل اور راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔“انہوں نے عوام سے کہا کہ غلط اندازے نہیں لگانے چاہیے، کیونکہ پنچہ استبداد ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، ”اگر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو اور سرینگر جانا پڑے، تو دوڑ لگا کر زیادہ زیادہ ایک یا دوکیلومیٹر تک چل کر پھر نڈھال ہو کر گر جاؤگے۔ اس کے برعکس اگر آپ آہستہ آہستہ پڑاؤ بہ پڑاؤ چلنا شروع کریں گے۔ رات کسی بستی میں گزاریں گے اور کچھ روزینہ ساتھ لےکر سلامتی کے ساتھ منزل پالیں گے۔“جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی باتیں بہت کھٹکی۔
چند لوگ کہہ رہے تھے کہ بڈھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔ اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھہرے تھے نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ”آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلے آزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔ سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں۔“سال 1999کی جنگ کرگل کے بعد حریت کانفرنس کے رہنماؤں میں تحریک کے حوالے سے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی تھی۔ میر واعظ عمر فاروق، عبدالغنی لون اور دیگر زعماء کا خیال تھا کہ نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنا چاہیے۔
مگر گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ جب تک ہندوستان اٹوٹ انگ کی رٹ بند نہیں کرتا ہے اور مذاکرات کے لیے ماحول نہیں بناتا ہے، تب تک اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے بعد میں حریت تقسیم ہوگئی۔ مگر ان کا استدلال تھا کہ سیاسی تحریک کی عدم موجودگی کے وجہ سے عسکری تحریک زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی ہے، اس لیے گراؤنڈ پر جاکر سیاسی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔سال 2003 میں جیل سے رہائی اور گردوں کے آپریشن کے بعد انہوں نے قریہ قریہ گھوم کر حتیٰ کہ گریز، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ جیسے دور دراز علاقوں کا دورہ کرکے سیاسی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی۔ اس دوران حکومت نے بھی موقف اپنایا تھا کہ حریت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ اس دوران پٹن اور سنگرامہ حلقہ میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ امیداوار کی تقریر ختم ہوتے ہی، گیلانی صاحب پہنچتے تھے، اور اسی اسٹیج سے عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے تھے۔حکومت ان کو تقریریا دورہ کرنے سے روکتی نہیں تھی، مگر ان کی میزبانی کرنے والوں پر قہر ڈھاتی تھی۔ بارہمولہ شہر کے چوراہے پر جب انہوں نے تقریر ختم کی تو پاس ہی رہائشی ایک رکن جماعت نے ان کو چائے کی دعوت دے دی۔ چائے پینے کے بعد گیلانی صاحب سرینگر روانہ ہوگئے، تو اس معمر رکن جماعت کی شامت آگئی اور اس کو پبلک سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ بتائی گئی اس نے سید علی گیلانی کی میزبانی کی ہے۔ یہ حضرت کئی سال جیل میں رہے۔
اس لیے ان دورں کے دوران وہ کسی کے گھر کے بجائے مسجد میں رات بھر رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ 2008 میں کشمیر کی سڑکوں پر امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن اور پھر 2010 اور 2016 میں برھان وانی کی ہلاکت کے بعد جو تحریکیں برپا ہوگئیں، وہ ان کی 2004سے 2008تک اس زمینی جدوجہد کا شاخسانہ تھیں۔ وہ جوانوں کی پرامن رہنے کی تاکید کرتے تھے اور بتاتے تھے، جب پولیس روکے گی تو بجائے محاذآرائی کے سڑک پر دھرنا دیا کریں۔ پلوامہ ضلع میں ایسا ہی ہوا۔ ایک بھاری جلوس نیوہ سے قصبہ کی طرف جا رہا تھا کہ نیم فوجی دستوں نے ان کو آگے جانے سے روکا تو لوگ سڑک پر بیٹھ گئے۔
مگر پر امن ہجوم پر گولیاں برسائی گئیں ایک جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ 117دن کی ہڑتال اور 100دن سے سخت کرفیو کے بعد انہوں نے کاروبار بتدریج کھولنے کی اپیل کی، جس پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی افراد نے لکھا کہ گیلانی، مہاتما گاندھی کا راستہ اپنا رہے ہیں۔جس پر انہوں نے جواب دیا کہ گاندھی کا فلسفہ تو خود ان کی زندگی میں ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ ”امن کا نعرہ ہم دیتے ہیں۔ امن سے ہی حل طلب مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
مگر ہندوستانی قیادت اس سنگین مسئلے کو طول دےکر خود بدامنی پھیلا رہی ہے اور الزام ہمارے سر تھوپ رہی ہے۔کب تک اس سلسلے کو جاری رکھا جاسکتا تھا۔“ پاکستان میں وقتاً فوقتاً جمہوریت کا خون ہوتے دیکھ کر وہ تاسف کا اظہار کرتے تھے۔ نومبر 1996میں جب بے نظیر بھٹوکو برطرف کیا گیا، تو وہ ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ اس دوران ان کے سکریٹری نے ان کو بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین صاحب لائن پر ہیں۔ انہوں نے فون اٹھاتے ہی حکومت کی بر طرفی کے حوالے سے قاضی صاحب کو خوب سنایا۔“ فون کے بعد ان کے سکریٹری نے ان کو بتایا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں۔
تو انہوں نے کہاکہ ان کے اندرونی معاملات سے ہمارے معاملات بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی اپریل 2005 کی ہے۔پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دورہ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، ہندوستانی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن دورہ کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوششیں کررہے تھے۔ انہی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر مرحوم منور سعید بھٹی نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری‘رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے ابھی تک دہلی میں ڈیوٹی دے چکے، پاکستان کے مقبول ترین سفارت کاررہے ہیں۔فون پر انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری میں ہی ایک ریستوراں میں چائے نوش کریں گے۔
چونکہ مشرف کی آمد آمد تھی، میری رگ صحافت بھی پھڑک رہی تھی، کہ چلو مشرف کی آمد کےحوالے سے کوئی چٹ پٹی خبر بھی مل جائے گی۔ مگر ریستوراں میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا کہ آخر اس کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے کہ کیا میں گیلانی صاحب کو آمادہ کرواسکوں گاکہ مشرف کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟ صدر پاکستان اپنے دورہ کے دوران کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے تھے۔
میں نے معذرت کی کہ گیلانی صاحب کی سیاست میں‘میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں۔گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف بیانات داغے تھے اور نواب اکبر بگتی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیری رہنماؤں اورخصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہےکہ کشمیر میں تحریک کو درپیش مسائل سے صدر پاکستان کو، جو ملٹری لیڈر بھی تھے، باور کراکر انہیں فی الفور حل بھی کروایا جائے؛ چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا۔
مگر ان کی اس بات سے کہ کشمیر کے اپنے مسائل کچھ کم نہیں ہیں، جو کوئی کشمیری رہنما، صدر پاکستان کے ساتھ بلوچستان کا درد بھی سمیٹنے بیٹھے، تھوڑا بہت مجھے بھی اتفاق کرنا پڑا۔اگلے روز صبح سویرے میرے گھر وارد ہوکر پہلے انہوں نے مسکرا کر کہا،“ کہ اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو کو فتوں سے خبردار کرانا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے؟ وہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔
بہر حال دوپہر 4 بجے جب وہ لیاقت علی خان کی دہلی کی رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہاؤس میں پہنچے تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں مشرف سے کہا،”کہ یہ داڑھی والا نوجوان (نور احمد)، جو میرے ساتھ ہے، پوسٹ گریجویٹ ہے۔ آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہونگے۔ “اس“ والہانہ“ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے د ن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔
آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں۔“ بقول ان افراد کے جو اس میٹنگ میں شریک تھے، مشرف نے ایک تو خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اور بزرگ کشمیری رہنما کی توہین کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان افراد کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس کے رکھ رکھاؤ، اس کی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ان کو فکر ہے۔
اس کے بعد مشرف نے اپنے فارمولہ کی مخالفت کرنے پر ان کو آڑے ہاتھوں لیا۔گیلانی صاحب نے ان کو ان کی افغانستان پالیسی اور امریکہ کی مدد سے اپنے شہریوں کو قتل کروانے پر بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ تحریکوں میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ 20منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی“خیر سگالی“ پر ختم ہوئی۔ایک سال بعد اکبر بگتی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ سخت نالاں تھے۔اس کا ذکر بعد میں2011 میں دہلی میں انہوں نے اس وقت کی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی کیا۔
واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کر دیے گئے۔ سرینگر راج باغ میں بھی ان کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔ چونکہ میرا بھی خیال تھا کہ مشرف فارمولہ سے کم سے کم لائن آف کنٹرول کو کھول کر عوام کو کسی حد تک راحت اور ان کا احساس اسیری دور کیا جاسکتا ہے، میں نے ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کا جواب تھا کہ”اگر یہ حل قابل عمل ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے سید علی گیلانی کا آن بورڈ ہونا کیوں ضروری ہے؟ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے، تو میں خود ہی سیاسی طور پر بے وزن و بے وقعت ہو جاؤں گا۔
اور اگر ہندوستان آمادہ ہےتو مشرف کے بجائے اس کے لیڈران اس کا اعلان خود کیوں نہیں کرتے ہیں۔“ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اے جی نورانی نے ان کو ایک بار کہا ”کہ وہ اس لیے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ کوئی داغ لیے بغیر دنیا سے جانا چاہتے ہیں اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں۔“ گیلانی صاحب نے کہا کہ وہ کوئی سودا کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کریں گے۔
سید علی گیلانی ایک نظر.......
آزادی کے نقیب، برصغیر کے منجھے ہوئے سیاست دان، شعلہ بیان مقرر ،سید علی گیلانی29ستمبر 1929ء کو زُوری منز تحصیل بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول بوٹنگوسوپور میں حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد، 1949میں عملی زندگی میں قدم رکھا اور 12سال تک وادی کے مختلف اسکولوں میں خدمات انجام دیں،1953میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔’’میں بھارتی سامراج کا باغی ہوں‘‘پہلی بار 28اگست 1962ء کو گرفتار ہوئے۔
مجموعی طور پر آپ نے زندگی کے 14سال سے زائد بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ریاست اور ریاست کے باہر مختلف جیلوں میں گزارے ، آپ 15سال تک اسمبلی کے ممبر رہے ۔ ریاستی اسمبلی کے لیے تین بار، 1972ء، 77ء اور 1987ء میں اسمبلی حقہ سوپور سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہو ئے ۔ 30اگست 1989ء کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ 7اگست 2004ء کو تحریک حریت قائم کی، تب سے اس کے چیئرمین اور ساتھ ہی حریت کانفرنس کے چیئرمین رہے۔
یکم ستمبر 2021ء.......
کشمیر کی آزادی کے علمبردار حریت رہنما
سید علی گیلانی کی وفات، وادی میں ریڈ الرٹ
ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی بھارتی حکام نے وادی کشمیر میں الرٹ جاری کر دیا۔ اس وقت کشمیر میں ہر طرف زبردست فوج اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ ہے۔ فون، انٹرنیٹ اور آمدورفت پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔سید علی گیلانی کی دیرینہ خواہش تھی کہ انہیں سرینگر میں واقع قبرستان شہداء میں دفن کیا جائے تاہم اطلاعات کے مطابق حکام نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوسکتی ہے، جس سے سکیورٹی کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا، فجر کی نماز کے وقت ہی انہیں گھر کے قریب واقع حیدر پورہ کے قبرستان میں خاموشی سے دفن کردیا گیا۔
حالات سے باخبر ایک شخص کے مطابق ان کے جنازے میں ان کے بیٹوں سمیت تقریبا ًپچاس افراد ہی شریک ہو پائے۔سید علی گیلانی گزشتہ تقریبا دس برسوں سے نظر بند تھے اور حکومت نے ان کی تمام سرگرمیوں کو بند کر رکھا تھا۔ ان کے انتقال کا یہ سانحہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب ان کی تنظیم کے بیشتر رہنما بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ سید علی گیلانی زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں سرگرم تھے اور ابتدا میں انہوں نے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی۔
وہ ریاستی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کشمیر کے اہم رہنماوں سے ایک تھے۔ کشمیری کی تحریک آزادی سے پوری زندگی وابستہ رہے۔ گزشتہ تقریبا ًپچاس برس سے وہ اس جد و جہد میں شامل تھے اور کشمیر میں وہ بھارت مخالف مزاحت کا چہرہ بن کر ابھرے۔ تاہم ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بھارتی جیلوں کی قید و بند میں گزرا۔ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے وہ سب سے بڑے حامی تھے اور آخری دم تک اپنے اس موقف پر قائم رہے۔ تاہم وہ اس کے لیے جمہوری طریقہ کار کے بھی قائل تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس کا فیصلہ کشمیری عوام کو استصواب رائے سے کرنا ہے۔