• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: اکثر مذہبی لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بات کرتے کرتے بھول جائیں، تو درود شریف پڑھنے لگتے ہیں، کیا اس موقع پر درود شریف پڑھنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟ (محمد ابدال ، کراچی )

جواب: جی ہاں! یہ عمل مستحب ہے اور حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جب تم کچھ بھول جاؤ تو مجھ پر درود پڑھو ، ان شاء اللہ یاد آجائے گا ،(جِلَائُ الاَفْہَام :297)‘‘۔علامہ سخاوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ ابوموسیٰ مدینی نے سندِ ضعیف کے ساتھ عثمان بن ابی حرب باہلی سے نبی اکرمﷺ سے روایت کیاہے : آپ ﷺ نے فرمایا: جو حدیث بیان کرنا چاہے اوربھول جائے تومجھ پر درود بھیجے ،کیونکہ اپنی حدیث کے بعد مجھ پر درود بھیجنے میں امکان ہے کہ اُسے حدیث یادآجائے ،دیلمی نے اسی طرح اس کی تخریج کی ہے اوراس کی سند ضعیف ہے اور ابن بشکوال کی روایت میں اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں: ’’جوکسی امر کا ارادہ کرے اوراس میں مشاورت کرے تواللہ تعالیٰ اسے درپیش معاملے میں خیر کی توفیق مرحمت فرمائے گا اورجو حدیث بیان کرنا چاہے تواسے یادکرنے کے لیے ایساہی کرے اور حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے : جسے اپنے بارے میں نسیان کا اندیشہ ہو تووہ کثرت سے نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے ، ابن بشکوال نے سندِ ضعیف کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے ،(القول البدیع ، ص:227)‘‘۔جمہور مُحدّثین وفقہاء کے نزدیک ایسی تمام ضعیف احادیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے اور ان پر عمل کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف ہو، موضوع نہ ہو اور اس کی اصل شریعت میں موجود ہو۔

بالاتفاق فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہے ۔علامہ کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں :’’پس فضائل اعمال میں ضعیف حدیث اگر موضوع نہ ہو تو ،اُس پر عمل کیاجائے گا ،(فتح القدیر ، جلد 1،ص:349)‘‘۔الشیخ محمودبن احمد بن محمود طحان لکھتے ہیں:’’ اہلِ حدیث کے نزدیک ضعیف احادیث اور جن کی سندوں میں تساہل ہے، ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے ، بخلاف موضوع احادیث کے کہ ان کو روایت کرنا ان کے موضوع ہونے کی وضاحت کے بغیر جائز نہیں،(تیسیر مصطلح الحدیث،ص:80)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk