• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُقدّس نام دیوار پر لکھنا، بورڈ یا ہورڈنگز آویزاں کرنا

تفہیم المسائل

سوال: ایک نجی ٹی وی کو اپنے دینی پروگرام روزمرہ کی زندگی اور اسلامی تعلیمات میں ایک پروگرام کرنا ہے، جس کا موضوع ’’ آداب وعظمت ِ قرآن ‘‘ ہے کہ کسی اسلامی ریاست میں نبی آخرالزماں ﷺ کے نام مبارک یا کلمہ طیبہ سے کسی سڑک یا چوک کا نام رکھا جاسکتا ہے، کیا قرآنی آیات کو سڑکوں، چوراہوں پر آویزاں کیاجاسکتا ہے؟ (خورشید الزمان عباسی، واشنگٹن، امریکہ)

جواب: اسلامی طرزِ زندگی مکمل طور پر ادب سے عبارت ہے ، مُقدّسات اور شعائر دینیہ کا احترام واجب ہے۔ ان کی تعظیم کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی نشانی قرار دیا :ترجمہ :’’ اور جو اللہ کے نشانوں(شعائر اللہ) کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے،(سورۃ الحج :32)‘‘۔

امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ شعائر اللہ کی تعظیم واحترام کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ شعائر ِالٰہیہ سے ہماری مراد وہ ظاہری ومحسوس امور اور اشیاء ہیں، جو اس لیے مقررکی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے خاص ہیں، حتیٰ کہ اہلِ دین کے نزدیک ان کی تعظیم دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم سمجھی جاتی ہے اور ان کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی ذات الٰہی کے متعلق کوتاہی سمجھتی جاتی ہے ‘‘۔ پھر آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ کے بڑے شعائر چار ہیں:قرآن حکیم، کعبۃ اللہ ، نبی کریم ﷺ اور نماز، ( حُجَّۃُ اللہ الْبَالِغِۃُ،جلد1،ص:133)‘‘۔غرض قرآن کریم ، رسول اللہ ﷺ ،کعبۃ اللہ اور نماز اللہ تعالیٰ کے مِن جملہ شعائر میں سے ہیں ،قرآنی آیات ، حروفِ تَہَجّی کا احترام لازم ہے اور انہیں کسی ایسے مقام پر جہاں نجاست ہو ، نہیں لکھنا چاہیے ،بلکہ نجاست کے مقام پر قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں کا پڑھنا بھی منع ہے ۔

میت کے کفن پر کلماتِ مُقدّسہ ، بسم اللہ لکھنے اور عہد نامہ رکھنے کے جواز وعدمِ جوازکی بابت فقہائے کرام کی دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں: علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’مُحقّق ابن حجر مکی کے فتاویٰ میں ہے: اُن سے کفن پر عہد نامہ کی بابت سوال ہوا، کیاکفن پر یہ کلمات لکھنے جائز ہیں اور اس کی کوئی اصل ہے؟، اُنھوں نے جواب دیا:بعض علماء نے امام(حکیم) ترمذی کی کتاب ’’نوادرالاصول‘‘ سے جو کچھ نقل کیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دعا کی اصل ہے اور فقیہ’’ ابن عُجَیْل‘‘اس کا حکم دیا کرتے تھے، پھر انہوں نے زکوٰۃ کے اونٹوں پر’’لِلّٰہِ‘‘ لکھنے کے جواز پر قیاس کرتے ہوئے، اس کے بھی جواز کا فتویٰ دیا اور بعض علما نے اسے برقرار رکھا،(علامہ شامی کہتے ہیں:) یہ بات محلِّ نظر ہے، ’’علامہ ابن الصّلاح‘‘ نے فتویٰ دیا ہے : کفن پر یٰسٓ اور الکھف وغیرہ لکھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ میت کے بدن سے پیپ نکلے اور بے ادبی ہو، الغرض یہ قیاس ممنوع ہے ، کیونکہ اونٹوں پر لکھنے کا مقصد اُنہیں ممتاز کرنا ہے اور یہاں برکت حاصل کرنا ہے اور کفن پر لکھے ہوئے اسمائے باری تعالیٰ اپنے حال پر باقی رہتے ہیں۔ 

لہٰذا ان کا نجاست پر پیش کرنا جائز نہیں ہے، یہ قول مردود ہے ، اس لیے اس جیسی چیزوں سے استدلال نہیں کیاجاسکتا تاوقتیکہ صحیح حدیث سے نبی اکرمﷺ سے ثابت ہوجائے کہ ایساکرنا (شرعاً) مطلوب ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے۔ ہم ’’بابُ المِیاہ ‘‘سے کچھ پہلے فتح القدیر کے حوالے سے یہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے اسماء کو دراہم، محرابوں، دیواروں اور نیچے بچھائی جانے والی چیزوں پر لکھنا مکروہ ہے، یہ کراہت محض احترام باقی رکھنے اور پاؤں سے روندے جانے یا اس کی مثل دیگر اہانت والے کاموں کے اندیشے کی وجہ سے ہے ، تو جب تک مجتہد سے ثابت نہ ہو یا اس بارے میں حدیث ثابت نہ ہو، منع کرنا بہتر ہے، یہ غور کا مقام ہے، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد 2،ص: 246)‘‘۔ (جاری ہے)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk