ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
مشہور صوفی بزرگ ، اسلام کے عظیم مبلّغ حضرت سید علی ہجویریؒ متقدمین اولیاء میں سے ہیں۔ آپ کی گراں بہا تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کو صوفیائے کرام میں ہمیشہ سے مقبولیت حاصل رہی ہے،یہ کتاب تصوف کے دستور کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی متعدد زبانوں میں اب تک اس کے بے شمار تراجم شائع ہوچکے ہیں۔بلاشبہ، یہ کتاب حکمت و دانائی کا انمول خزینہ ہے۔ ذیل میں اس میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
٭ اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو نیک عمل اور اللہ کی طرف دعوت دے۔٭ قول معروف سے مراد نیک بات کہنا ہے۔٭ اللہ نے بنی آدم کو عظمت و بزرگی عطا فرمائی ہے۔٭ قوت گویائی جتنی بڑی نعمت ہے اتنی ہی خرابی کا سرچشمہ بھی ہے، اسی لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’اپنی امت کے متعلق میں جس چیز سے ڈرتا ہوں،وہ اس کی زبان ہے۔‘‘٭’’گفتار‘‘ کی مثال شراب کی مانند ہے۔یہ عقل کو سست کردیتی ہے اور جسے اس کی لت پڑجائے،وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا،چناںچہ اہل طریقت نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ گفتار باعث آفت ہے، بجزو ضرورت بات کرنے کے،ہمیشہ گریز کیا ہے۔ وہ ہر کلام کے آغاز اور انجام کو جانچتے ہیں۔
اگر اظہار جانب حق ہو تو اظہار کرتے ہیں، ورنہ خاموش رہتے ہیں، کیوں کہ ان کا یہی عقیدہ و ایمان ہے:’’حق تعالیٰ تمام اسرار کو جاننے والا ہے اور وہ بدبخت ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس حوالے سے ارشاد ربانی ہے: ’’کیا وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے اسرار اور ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے۔(حالاںکہ ایسا نہیں ہے) ہم سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے انہیں لکھتے ہیں۔‘‘٭ارشادِ نبویؐ ہے: ’’جس نے خاموشی اختیار کی،اسے یقیناً نجات حاصل ہوگی۔‘‘
٭حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے انعامات اور اپنی نوازشات پر شکر اور حمد و ثناء کرنے کا حکم دیا ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: ’’مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ’’میں پکارنے والے کی فریاد سنتا ہوں، جب وہ پکارتا ہے۔‘‘ اسی طرح دیگر بے شمار آیات ہیں جو ہمیں بولنے کا حکم دیتی ہیں۔
کہتے ہیں ایک روز حضرت شبلیؒ بغداد کے محلے کرخ سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک مدعی طریقت کہہ رہا ہے: ’’خاموشی کلام سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت شبلیؒ نے کہا، ’’تیری خاموشی تیرے کلام سے بہتر ہے، تیرا کلام لغو ہے اور تیری خاموشی مضحکہ خیز ہے،جب کہ میرا کلام خاموشی سے بہتر ہے، کیوں کہ میری خاموشی حلم ہے اور میرا کلام علم ہے ۔مطلب یہ ہے کہ اگر میں نہ بولوں تو یہ میری بردباری ہے، اگر بولوں تو یہ میرے علم کا اظہار ہوگا۔ جب خاموش ہوتا ہوں تو حلیم ہوتا ہوں اور جب بولتا ہوں تو علیم ہوتا ہوں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے نزدیک کلام دو قسم کا ہے اور خاموشی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک کلام کی بنیاد حق پر ہوتی ہے اور دوسرے کی باطل پر۔اسی طرح ایک خاموشی تو مقصود حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اور دوسری غفلت پر مبنی ہوتی ہے۔ کلام یا خاموشی کے وقت ہر شخص کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر کلام کی بنیاد حق پر ہے تو کلام بہتر ہے،ورنہ خاموشی کلام سے بہتر ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے نزدیک خاموشی کے آداب یہ ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے والا جاہل نہ ہو۔جہالت پر مطمئن نہ ہو اور غفلت میں مبتلا نہ ہو، ٭مرید کو چاہیے کہ رہنمائوں کے کلام پر دخل انداز نہ ہو، اس میں تصرف نہ کرے‘ بے سروپا اور سطحی گفتگو سے پرہیز کرے۔جس زبان سے کلمۂ شہادت پڑھا ہے اور اقرار توحید کیا ہے،اسے جھوٹ اور غیبت کے لیے استعمال نہ کرے۔ مسلمانوں کا دل نہ دکھائے۔ درویشوں کو ان کا نام لے کر نہ پکارے، جب تک اس سے کچھ نہ پوچھا جائے، زبان نہ ہلائے۔
درویش کے لیے خاموشی کی شرط یہ ہے کہ باطل پر خاموش نہ رہے اور بولنے کی شرط یہ ہے کہ بجزو حق کوئی بات زبان سے نہ نکالے۔ اس میں بے شمارحکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حضرت داتا صاحبؒ ولایت کے بارے میں فرماتے ہیں۔اطاعتِ خدا اوراتباع رسول ﷺکے بغیر کوئی شخص ولایت کے مرتبے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ طریقت شر یعت سے الگ چیز نہیں ہے۔ ولی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے میں سنت رسول ﷺ۔ آپ نے سیّد الطائفہ حضرت جنید بغدادیؒ کے اس ارشاد کی تائید فرمائی ہے کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے ،جن سے آٹھ پیغمبروں کی پیروی ہو تی ہے ۔
حضرت داتا صاحبؒ فرماتے ہیں ،جب تک بندہ اس دنیا میں نفس اور خواہشات ِ نفس کے چنگل سے نہیں نکلتا معرفت سے سر فراز نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں کہ نفس کی مخالفت تمام عبا دتوں کا سر چشمہ ہے۔نفس کو نہ پہچاننااپنے کو نہ پہچانناہے ،جو شخص اپنے کونہیں پہچانتا، وہ خدا کو نہیں پہچان سکتا۔نفس کا فناہو جانا حق کی بقا کی علامت اور نفس کی پیروی حق عزوجل کی مخالفت ہے۔
نفس پر جبر کرنا یعنی نفسانی خواہشوں کو روکنا جہا دِ اکبر ہے۔حضرت داتا گنج بخشؒ نے تین قسم کے لوگوں سے دور رہنے کی ہدا یت فرمائی ہے ۔غافل علما سے ،جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنا لیا ہو۔ریاکار فقرا سے، جو فقط اغراضِ نفسانی کے لیے لوگوں سے جاہ وعزت کی تمنا رکھتے ہوں اور جاہل صوفی سے، جس نے نہ تو کسی مرشد کی صحبت میں رہ کر تربیت پائی ہو،نہ کسی استاد سے ادب سیکھا ہو۔
داتا گنج بخش ؒکے اقوال:۔٭…صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سنتِ رسولﷺ۔٭…ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر(موقوف) ہے ۔حکمراں جب بےعلم ہوں، علما جب بے عمل ہوں اور فقرا جب بے توکل ہوں ۔٭…جس کام میں نفسانی غرض آجائے،اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔٭…دین دار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب و نادار ہوں ، چشمِ حقارت سے نہ دیکھو کہ اس سے فی الجملہ اللہ تعالیٰ کی تحقیر لازم آتی ہے۔٭…ایثار یہ ہے کہ تواپنے بھائی کا حق نگاہ میں رکھے اور اس کے آرام کی خاطر خود تکلیف اُٹھائے۔٭…بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ جوانوں کا لحاظ رکھیں، اس لیے کہ ان کے گناہ کم ہیں،جب کہ جوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کا ادب کریں، اس لیے کہ وہ جوانوں سے زیادہ عابد وزاہد اور تجربہ کار ہیں۔٭…فقیر درویش وہ ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو اور کوئی چیز اسے خلل انداز نہ کرے۔ نہ وہ دنیاوی اسباب کی موجودگی سے غنی ہو اور نہ اس کے نہ ہونے سے محتاج ہو۔٭…جو علم کو دنیاوی عزت ووجاہت کے لیےحاصل کرتاہے،درحقیقت وہ عالم کہلانےکا ہی مستحق نہیں، کیوں کہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش کرنا بجائے خود از قبیلِ جہالت ہے۔