ملک میں کے مختلف حصّوں میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ایسے میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ملک بھر میں بارش اور سیلاب سے جانی و مالی نقصانات کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق گیارہ ستمبر تک بارشوں اور سیلاب کے باعث 932 افراد جاں بہ حق اور ایک ہزار57زخمی ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں 8ہزار 217مکانات کو نقصان پہنچا،6ہزار 508 مویشی ہلاک ہوئے، 671کلو میٹرز سڑکوں اور 239 پلوں کو نقصان پہنچاتھا۔
وزیرِ اعظم سمیت بہت سے وزرا اور سرکاری حکام کئی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں اورکئی علاقوں میں دورے متوقع ہیں۔ اسی سلسلے میں نارووال میں سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر بریفنگ کے دوران انتیس اگست کو گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے پانی کے نئے ذخائرکی تعمیرکو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا اور شمالی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پیشگی اطلاع کے نظام کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہواہے ۔ 2022ء میں صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بہت نقصان ہوا تھا۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آنے والے برسوں میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
اب یہ ہم پرمنحصر ہے کہ ہم کس طرح اس چیلنج سے نمٹتے ہیں۔ وفاق، چاروں اکائیاں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان مل کر اس کا مقابلہ کریں گے تو آنے والی صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں۔ اگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہوگی توہم جتنی بھی کوششیں کرلیں یہ نامکمل ہوں گی۔ ہمیں وسائل خود جمع کرنے ہوں گے، اگر سرجوڑکر بیٹھیں گے تو اس کا حل ڈھونڈ لیا جائے گا۔
پُرانی بحث، نئے حقائق
وزیرِ اعظم کی اس گفتگو کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر ڈیمز کی تعمیرکی حمایت اور مخالفت میں باتیں ہونے لگی ہیں۔ مشرقی دریاؤں (ستلج، راوی اور چناب) میں آنے والے سیلاب کے بعد پنجاب میں نئے ڈیم بنانے کی باتیں زیادہ زور و شورسے کی جارہی ہیں۔
بعض افراد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو پنجاب میں سیلاب نہ آتا۔ ایسے میں بعض ماہرین کا یہ موقف سامنے آیا ہےکہ تینوں مشرقی دریاؤں پر ڈیم بنانےکے ضمن میں انجینئرنگ کے شعبے کے ماہرین یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ان دریاؤں پر ڈیم بنانے کے لیے موزوں مقامات موجود نہیں ہیں۔
چولستان منصوبے میں چناب پر تین چھوٹے ڈیم بنانے کی تجویز تھی، مگر دس لاکھ کیوسک کے بہاؤ میں ان کا حال کیا ہوتا؟چناب میں ماضی میں بھی بڑی بڑی لہریں آتی رہی ہیں۔ 2014ء میں نو لاکھ کیوسک کے بہانے تباہی مچائی تھی۔ اس بار بھی قادرآباد بیراج کو بچانے کے لیے پشتہ توڑنا پڑا۔ چھوٹے ڈیم بڑے اور اچانک آنے والے بہاؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈیم میں پانی آہستہ بھرا جاتا ہے تاکہ ڈیم کے ڈھانچے پر دباؤ کم رہے۔ تربیلا ڈیم میں یومیہ ایک فٹ سے زیادہ پانی نہیں بھرا جاتا۔ ڈیمز سے ہونے والی تباہی کی حالیہ برسوں کی مثال لیبیا کے شہر درنہ کی ہے، جہاں10ستمبر 2023ء کو سیلاب کے باعث دو ڈیمز ٹوٹ گئےتھے، جس سے11ہزار افرادہلاک ہوگئے تھے۔ شدید بارشوں اور سیلاب میں ڈیم پانی روکنے کے بجائے تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔
مذکورہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ راوی اور چناب میں اتنا بڑا سیلاب38برس بعد آیا ہے۔ ان دریاؤں کے خشک پیٹ میں انسانی آبادیاں، کھیت اور دیہات بن چکے ہیں، اس لیے نقصان زیادہ ہوا۔ سیالکوٹ میں ایک دن میں ساڑھے تین سو ملی میٹر بارش سے سیلاب آیا۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ قدرتی راستوں میں رکاوٹوں اور تجاوزات سے تباہی ہوئی۔
پاکستان میں دریاؤں اور ندی نالوں میں رکاوٹیں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک آنے والے تمام ریلے دریاؤں اور بیراجوں کی گنجائش کے اندرتھے، مگر نقصان پھر بھی بڑا ہوا۔ انسانی غلطیاں ان سیلابوں کو مزید خطرناک بنا رہی ہیں۔جب تک غیر قانونی تعمیرات اور رکاوٹیں ختم نہیں ہوں گی، معمول کی بارشیں بھی تباہی مچاتی رہیں گی۔
ہزاروں چھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز بنانا ممکن ہے
آبی امور کے بعض ماہرین کے مطابق موجودہ دور چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر کاہے۔ دنیا بھرمیں بڑے ڈیمز کا دور تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ ماضی میں جو ماہرین بڑے ڈیمزکے خواب فروخت کرتے تھے، اب وہ بڑے ڈیمز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جدید دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے اور اِس کے استعمال کا ماڈل بڑے ڈیمز سے چھوٹے ڈیمز میں تبدیل ہو گیا ہے جو مقامی اور عالمی سطح پر ماحول دوست، پائے دار معاش اور ماحولیات کے لیے سب سے زیادہ ترجیحی انتخاب ہے اور اب بحث چھوٹے ڈیمز کی افادیت پر مرکوز ہے۔ پاکستان میں چھوٹے ڈیم اب کوئی ڈریم پراجیکٹ نہیں رہےبلکہ چھوٹے پیمانے پر کام یابی کی کہانی ہے جس میں بڑے فوائد پوشیدہ ہیں اور یہ مقامی اور قومی معیشتوں میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
آبی امور کے ماہرین کے مطابق ملک کے میدانی علاقے بالعموم اور بالائی علاقے بالخصوص، جن میں خطہ پوٹھوہار، خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان شامل ہیں، قدرتی لحاظ سے ہزاروں چھوٹے اور درمیانے ڈیمز بنانے کےلیے نہایت موزوں ہیں جن پر ماہرین اب تک سیر حاصل تحقیقی مقالے بھی پیش کرچکے ہیں۔ ان کی تحقیق کی روشنی میں اب مزید تاخیرکیے بغیر متعلقہ حکومتوں کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ آب پاشی کے ساتھ آب نوشی کے لیے بھی درپیش ممکنہ چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق پوٹھوہار سمیت اگر ملک کے دیگر علاقوں میں چھوٹے یا درمیانے درجےکے ڈیمز تعمیر کردیے جائیں تو زرعی زمینوں کی آبادکاری سے دیہی علاقوں سے آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی ازخود رک سکتی ہے، کیوں کہ دیہی علاقوں میں ہی روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جن علاقوں میں چھوٹے یا درمیانے درجے کے ڈیمز اور تالاب تعمیر کیے گئے وہاں موسمیاتی تبدیلیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ان اقدامات کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو نا شروع ہو گئی،روزگار کے مواقعے بڑھے اور ماہی پروری اور گلہ بانی کے شعبے کو تقویت مل رہی ہے۔ یہ اقدامات دیہی ترقی کے لیے بہت مثبت تبدیلی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماہرین کے بہ قول چھوٹے ڈیمز نہ صرف پانی کے بیش قیمت ذخائر ہیں بلکہ وہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور زیر زمین پانی کو پانچ گنا زیادہ کرتے ہیں۔ اِن سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ مقامی افراد کو پائے دار معاش فراہم کرتے ہیں۔
سماجی فلاح و بہبود اور بھرپور فصلوں کے علاوہ چھوٹے ڈیم جنگلی حیات کی زندگی اور بقاء میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ جانور جن کی انواع معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار تھیں، چھوٹے آبی ذخائر کی وجہ سے محفوظ ہوگئے ہیں۔
یہ ڈیمز مقامی لوگوں کی نقل مکانی کو نمایاں سطح پر کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے اور غربت ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ زراعت کی ترقی کی صورت میں مقامی افراد کو روزگارکا پائے دار اور منافع بخش ذریعہ ہاتھ آجاتا ہے۔
چھوٹے کیوں، بڑے ڈیمز کیوں نہیں؟
بہت سے ماہرینِ آب کے نزدیک بڑےڈیمزکسی بھی ملک میں مسئلے کابہتر حل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑےڈیمز کی حمایت کرنے والے ان کے نتیجے میں ہونے والی ہائیڈرولوجیکل تبدیلیوں اور نقصانات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کے مطابق بڑے ڈیمز کی ضرورت پر ہر سیلاب کے بعد بحث ہوتی ہے۔ بڑے ڈیم تعمیر کیے جانے سے پہلے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بہت احتیاط کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، کیوںکہ ڈیم ڈاؤن اسٹریم میں پانی کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
ان کی تعمیر میں بہت زیادہ سرمایہ لگتا ہے اور مقامی افراد اور جنگلی حیات کو دربدری جھیلنی پڑتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک بڑے ڈیم شدت پسندوں کا آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں، جیسے کچھ عرصہ قبل عراق میں موصل ڈیم بنا تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیڈ بزنس اسکول کی ایک تحقیق کے مطابق بڑے ڈیمز کی نہ صرف اقتصادی، بلکہ انسانی اورماحولیاتی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ 2000ء میں ڈیمز پر عالمی کمیشن کی تحقیق کے بعد بڑے ڈیمز کے قابل عمل اور فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے آزاد تحقیق کم ہی ہوئی ہیں۔ 2000ء تک دنیا بھر میں بڑےڈیمز کی تعداد سینتالیس ہزار سے زیادہ ہوگئی تھی۔ آٹھ لاکھ چھوٹے ڈیمز اس کے علاوہ ہیں۔
آکسفورڈ کی اس تحقیق میں 65 ممالک کے 245 بڑے ڈیمز کا مطالعہ کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق بڑے ڈیمز نے ممالک کو بھاری قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ تحقیق کے مطابق چھوٹے اور جلد تعمیر ہوجانے والے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس کو زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق برازیل، چین، ایتھوپیا، اور پاکستان جیسی بڑھتی ہوئی معیشتیں تیزی سے ڈیمز کی تعمیر کی طرف جارہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے وابستہ رہنے والے ایک پاکستانی عہدےدار کے مطابق سیلابی پانی کا رخ موڑنے یا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز واحد بہترین حل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق جس طرح کے سیلابوں کا ہمیں چند برسوں سے سامنا ہے انہیں سنبھالنے کے لیے مختلف سائز کے ڈیمز مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کئی موجود راستوں میں سے صرف ایک راستہ ہے۔
مختلف ماہرینِ شہری منصوبہ بندی و ماحولیات کے مطابق بڑے ڈیمز پاکستان کے لیے کوئی پائے دار حل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اگر دریائے سندھ کے بہاؤ کو مزید کم کیا گیا تو اس سے سندھ کے ڈیلٹا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، کیوںکہ سمندر کا کھارا پانی آگے بڑھے گا، زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ماہی گیری کا نظام شدید متاثر ہوگا۔ ان کے مطابق اصل ضرورت بڑے ڈیمز کی تعمیر نہیں بلکہ موجودہ پانی کے زیاں کو روکنا، نہری نظام کی مرمت، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیےچھوٹے چھوٹے ذخائر بنانا اور پانی کی منصفانہ تقسیم ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں جو ڈیمز پہلے سے موجود ہیں، جیسے تربیلا اور منگلا،ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد مسلسل مٹی بھرنے کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ موقف بھی ہے کہ پانی سے بجلی بنانے اور نہروں کے ذریعے آب پاشی کا نظام اب دنیا بھر میں ختم ہو رہا ہے۔ بجلی بنانے کے اب کئی متبادل ذرایع ہیں۔ دوسری جانب نہری نظام آلودگی کا باعث بنتا ہے، اس کے مقابلے میں پائپ لائنز کے ذریعے پانی کی فراہمی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
ڈیمز سے ہٹ کر بھی سوچیے
بعض ماہرین کے مطابق ڈیمز بنانا بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کے ڈیزائن، دیکھ بھال اور پانی کی منصفانہ تقسیم جیسے پہلو زیادہ پے چیدہ اور چیلنجنگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیمز کی تعمیر بہ ذاتِ خود مسئلے کا حل نہیں، اصل چیلنج ان کیاستعداد ، ڈویژن (پانی کی تقسیم) اور باقاعدہ دیکھ بھال ہے۔ ان کے مطابق دنیا میں اب پانی کے انتظام کا رجحان بدل رہا ہے۔
جدید تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ بڑے ڈیمز تقریباً ساٹھ تا ستّر فی صد سیلابی صورت حال کو کنٹرول کرتے ہیں، لیکن چھوٹے ڈیمز کی مؤثریت بہ مشکل بیس فی صد تک رہتی ہے، وہ بھی اس صورت میں جب ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہو اور ان کے اخراجِ آب (channelization) کے نظام درست طور پر کام کر رہے ہوں۔ بہ صورتِ دیگر یہ خود تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کیوں کہ اگر ڈیم اپنی صلاحیت سے زیادہ پانی ذخیرہ کرلے اور نکاسی کا مؤثر نظام نہ ہو تو بند ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتاہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔
بعض ماہرین کا موقف ہے کہ جدید دنیا میں پانی کے انتظام کے متبادل حل بھی تلاش کیے جا رہے ہیں، مثلا زیرِ زمین پانی کی سطح کو بڑھانا یا ری چارج کرنا، تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہو اور قدرتی ذخائر میں اضافہ ہو۔ اس طریقے کو زیادہ مؤثر اور پائے دار سمجھا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے اور نشیبی علاقے زیرِ آب آجا نے کا حل محض نئے ڈیمز کی تعمیر نہیں بلکہ بہتر ارلی وارننگ سسٹم، لینڈ یوز پلاننگ اور غیر قانونی تجاوزات کے خاتمے میں ہے ۔ وہ تمثیلا بتاتے ہیں کہ پنجاب میں حالیہ دنوں میں دس لاکھ کیوسک تک پانی کا ریلا بیراج سے گزرا، اگر اس خطے میں چھوٹے ڈیم موجود بھی ہوتے تو اتنے بڑے بہائو کو روکنا ممکن نہیں تھا۔
بڑے ڈیمز کی تعمیر کے مخالف ماہرین 2023میں لیبیا کے شہر درنہ میں دو بڑے ڈیمز ٹوٹنے سے11ہزار افراد کی اموات کوبہ طورِ خاص پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے میدانی علاقے بڑے ڈیمز کے لیے جغرافیائی طور پر موزوں نہیں۔بھارت کے رنجیت ساگر ڈیم جیسے بڑے آبی ڈھانچوں سے پانی چھوڑنے کے بعد نیچےبننے والےچھوٹے ڈیم یا بیراج خطرناک دباؤ برداشت نہیں کر پاتے۔
قادرآباد بیراج کو بھی حالیہ سیلاب کے دبائو سے بچانے کے لیے شگاف ڈالنا پڑا۔ 20 اگست کے بعد جموں، کشمیر، ہماچل پردیش اور بھارتی پنجاب میں معمول سے سات سو فی صد زیادہ بارش ہوئی جس کا پانی دریائوں کے راستے پاکستان آیا، اس صورتحال کو ڈیمزنہیں روک سکتے تھے۔
یہ ماہرین تجویزکرتے ہیں کہ صرف ارلی وارننگ سسٹم کے تحت بھارت سے ڈیٹا شیئرنگ کے بجائے ہمیں سیٹلائٹ ڈیٹا کے ذریعے بارشوں اور بہائو کی مانیٹرنگ کو بھی بڑھانا ہوگا۔ اسی طرح لینڈ یوز پلاننگ کے تحت دریاؤں کے قدرتی راستوں پر بنائی گئی ہاؤسنگ اسکیمز اور بستیاں ختم کرنا ہوں گی تاکہ پانی کا راستہ نہ رکے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر قانونی تعمیرات اور ہاؤسنگ سوسائٹیز جو فلڈ چینلز پر بنائی گئی ہیں، جانی و مالی نقصان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
پانی کا زور توڑیں
اقوامِ متحدہ کے اداروں سے وابستہ رہنےوالے بعض ملکی ماہرین کے مطابق ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا اور روکنا پرانے زمانے کا طریقہ ہے اور جدید تحقیق ڈیم کو سیلاب روکنے کا ذریعہ نہیں سمجھتی۔ ان کے مطابق ڈیم بہتے پانی پر نہیں بنانے چاہییں اور سیلاب روکنے کے لیے تو بالکل بھی نہیں بنانے چاہییں، کیوں کہ ان کے بھر کر ٹوٹ جانے کے باعث سیلاب کئی گنا زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور اس سے تباہی کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔
ان کا موقف ہے کہ سیلاب سے نمٹنے کے جدید طریقے کے تحت بہتے پانی کو مختلف نہروں میں تقسیم کر کے اس کا زور توڑ دیا جاتا ہے اور پھر اسے ایک خاص مقام پر لے جا کر زیرِ زمین ذخیرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے اور بہ بوقت ضرورت اسے ٹیوب ویل کے ذریعے نکال کر آب پاشی یا پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے،یا پھر دریا کے بہاؤ سے ہٹ کر کسی مقام پر ایک ڈیم بنا کر اس میں پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
ان ماہرین کے بہ قول پاکستان میں ڈیمز بنانے کی ایک بڑی وجہ پانی ذخیرہ کر کے بجلی پیدا کرنا ہے، لیکن اب شمسی اور ہوا کے دباؤ کے تحت پیدا ہونے والی بجلی کہیں زیادہ مفید ہے اس لیے بجلی بنانے کے لیے بھی ڈیمز قابلِ عمل نہیں رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اور صرف دریاؤں کا رستہ چھوڑنا اور انہیں اصل حالت میں بحال کرنا ہے۔ سیلابوں سے ہونے والے نقصانات سےبچنے کے لیے دریاوں کے راستے خالی کر دینے چاہییں اور تعمیرات اور آبادیوں کو دریاؤں کی گزرگاہ سے کم از کم دو کلومیٹر دور لے جانا چاہیے۔
آبی امور کے ماہرین کے بہ قول پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں بیس بڑے سیلاب آئے ،اس کے باوجود ہماری انتظامیہ نے سیلاب سے نمٹنا نہیں سیکھا۔سیلاب کی چھ قسمیں ہوتی ہیں جن میں سےتین اہم اقسام، فلیش فلڈ، دریا کے بہاؤ کا سیلاب اور اربن فلڈنگ (شہروں میں آنے والے سیلاب)ہیں۔
ان سب سے نمٹنے کے مختلف طریقے ہیں۔ پانی کی نکاسی کے راستے جتنے اچھے اور صاف ہوں گے، سیلاب سے اتنی ہی زیادہ بچت ہوگی۔ دراصل آج ہماری حکومت کو فلڈ میپنگ اور فلڈ ماڈلنگ کی ضرورت ہے تاکہ پوری تیاری سے سیلابوں سے نمٹا جائے اور ان کا پانی استعمال کیا جائے۔
گڈ والیاں ڈیم ہری پور
ڈیم بنائیں یا توڑیں؟
پاکستان میں جہاں ایک طبقہ بڑے ڈیمز بنانے کو مسائل کا واحد حل قرار دیتا ہے وہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پہلے سے موجود بڑے ڈیمز بھی توڑدینے کا مشورہ دیتا نظر آتا ہے اور اس ضمن میں دنیا بھر کے ممالک کی مثالیں پیش کرتا ہے۔
مثلا بتایا جاتا ہے کہ امریکا میں دریائی نظام سے متعلق تحقیق شایع کرنے والی ایک ویب سائٹ امیریکن ریورز کے مطابق وہاں پانی کے راستوں کی بحالی اور دریائی نظام کی بہتری کے لیےایک صدی میں 1797 ڈیمز ختم کیے جا چکے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت 2020 تک سب سے زیادہ ڈیمز ختم کرنے والی امریکی ریاستوں میں اوہایو نےگیارہ ،اور میساچوسٹس اور نیو یارک نے چھ چھ ڈیمز ختم کیے۔مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق 1990 سے 2015 تک امریکا نے900 ڈیمز ختم کیے اور 2015کے بعد سے سالانہ 50 سے 60 ڈیم ختم کیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ ویب سائٹ کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق فرانس اور کینیڈا نے بھی ڈیمز ختم کرنے کے نمایاں منصوبے شروع کیے ہیں۔ جاپان نے ڈیمز ختم کرنےکا منصوبہ 2012میں دریائے کوما پر اریز ڈیم کو ختم کرنے سے شروع کیاتھا جو2017میں مکمل ہوا۔
ری چارج اور چیک ڈیم
آبی امور کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں ری چارج اور چیک ڈیمز بھی بنانےپر توجہ دینی چاہیے۔ واضح رہے کہ چیک ڈیم عام طورپر ایک عارضی بند یا پشتہ ہوتاہےجو برساتی پانی کے بہاؤ اور کٹاؤ کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ اس کے ذریعے چھوٹے سیلابی بہاؤ کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ چیک ڈیم عام طور پربرساتی ندی نالوں کے راستے میں بنائے جاتے ہیں۔
یہ پتھر، مٹی یا گارے، لکڑیوں اور سیمنٹ سے بن سکتے ہیں۔ ان کی چوڑائی ان کی اونچائی سے زیادہ ہونی چاہیے، بنیاد مضبوط بنانی چاہیے اور پانی گرنے کی جگہ پتھر ڈالنے چاہئییں۔ چیک ڈیم کی اونچائی ایک سے دو میٹر تک ہوسکتی ہے، لیکن دو میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
اگر آپ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں یا ایسے علاقوں میں جہاں زمین ٹیلوں کی شکل میں ہے یا وہاں نشیب و فراز ہیں تو آپ چیک ڈیم بناکر برساتی پانی ذخیرہ کرکےدرخت اور فصلیں اگانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ان کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کا بہاؤ دھیما کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح نشیبی علاقوں میں نقصان کا اندیشہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ چیک ڈیم کے اطراف زمین میں نمی آجاتی ہے اور وہاں درخت اور پودے اگ آتے ہیں۔ ایسی زمین فصل یا درخت اگانے کے لیے موزون ہو جاتی ہے۔ اس طرح زیرِ زمین پانی بھی ری چارج ہوجاتا ہے۔
ری چارج ڈیم بھی کم و بیش اسی طرح بنائے جاتے ہیں۔ یعنی ندی نالوں کے ساتھ یا برساتی پانی کی گزر گاہوں کے آس پاس۔ پانی کے چاروں طرف کسی بھی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے یا گہرے گڑھے کھود کر ری چارج ڈیم کا سادہ سا ماڈل بنایا جاسکتا ہے۔ ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے آس پاس کے علاقے میں زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے۔