• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ نو ستمبر کی بات ہے۔ قطر کے دارالحکومت، دوحہ، میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم، حمّاس کے صدر دفتر میں اس کے راہ نما اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کی غرض سے صلاح و مشورے کے لیے جمع ہوئے تھے کہ اس عمارت پر اسرائیل نے فضائی حملہ کردیا۔عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مدمّت کی۔

لیکن اسرائیل کی یہ دہشت گردی نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس نے دنیا ،بالخصوص خلیجی ریاستوں میں فکر کے دھارے اور سیاسی نظریات سمیت بہت کچھ بدل دیا۔ چناں چہ خطّے کی صورت حال پر غور کرنے اور مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے 15ستمبر 2025کو خلیج تعاون کونسل کا غیر معمولی اجلاس، دوحہ میں منعقد ہواجس میں رکن ممالک کی دفاعی پوزیشن اور ممکنہ خطرات کا جائزہ لیا گیا۔

اس روز خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کی سپریم کونسل نے دوحہ میں تنصیبات پر اسرائیلی حملے پر بات چیت کی۔ ان راہ نماؤں نے جی سی سی کی مشترکہ دفاعی کونسل کو ہدایت کی کہ وہ دوحہ میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرے، جس سے قبل سپریم ملٹری کمیٹی کے اجلاس میں جی سی سی کی ریاستوں کی دفاعی صورتحال اور خطرات کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔

انہوںنےمشترکہ فوجی کمان کو مشترکہ دفاعی میکانزم اور خلیجی ڈیٹرنس کی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لیے ضروری انتظامی کرنے اور اقدامات اٹھانےکی بھی ہدایت کی۔ سپریم کونسل نے کہا کہ قطر کی ریاست کے خلاف اسرائیلی جارحیت مشترکہ خلیجی سلامتی اور علاقائی امن و استحکام کے لیے بہ راہِ راست خطرہ ہے۔ سپریم کونسل نے سلامتی کونسل، عالمی برادری اور بااثر ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پوری ذمے داریاں سنبھالیں اور ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اور روک تھام کے اقدامات اٹھائیں۔

خلیجی ممالک کی مشترکہ دفاعی کونسل نے اٹھارہ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اپنے غیر معمولی اجلاس میں کونسل کے رکن ممالک کے دفاعی حالات اور ممکنہ خطرات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ موقف بالخصوص اسرائیلی حملے کے پیشِ نظر سامنے آیا۔ 

اجلاس میں تمام آپریشن مراکز کے فضائی حالات کی تصویر پیش کی گئی اور مشترکہ دفاعی منصوبے اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے لیے متحدہ عسکری قیادت، آپریشن اور تربیت کمیٹی کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی خلیجی ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے میں اضافہ کی بھی منظوری دی گئی۔

اجلاس نے خلیجی مشترکہ ابتدائی انتباہی نظام برائے بیلسٹک میزائل پر کام کرنے والے مشترکہ ورکنگ گروپ کی رفتار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مزید یہ کہ آئندہ تین ماہ میں فضائی اور دفاعی مراکز کے درمیان مشترکہ مشقیں کرنے کی منظوری دی گئی، جس کے بعد عملی فضائی مشق ’’سیکٹرز‘‘ منعقد ہوں گی۔

کونسل کے ارکان نے فیصلہ کیا کہ تمام عسکری اور انٹیلی جنس سطحوں پر مشاورت، تعاون اور ہم آہنگی جاری رکھی جائے گی تاکہ خلیجی دفاعی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے اور خطرات اور چیلنجز کے مقابلے میں دفاعی نظام کو مربوط کیا جا سکے۔ اس کا مقصد کونسل کے تمام ممالک کی سلامتی، استحکام اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور کسی بھی ممکنہ حملے یا خطرے کا مؤثر جواب دینا ہے۔

اس کے بعد دوحہ میں سولہ ستمبر کو اسلامی ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں اسرائیل کی سخت مذمت کی گئی اور صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ عرب لیگ اور دیگر اسلامی ممالک کے مشترکہ اجلاس کے دوران کچھ اور اہم اجلاس اور ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی ولی عہد اور ایرانی صدر کے درمیان ملاقات میں نو ستمبر کو اسرائیل کی طرف سے قطر پر کیے جانے والے فضائی حملے پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل، حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل، احمد ابوالغیط نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں اکٹھے ہوئے ہیں جب خطے کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔

ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں مسلم ممالک کے سربراہان نے کہا کہ اسرائیل نے تمام ریڈ لائنز عبورکرلی ہیں لہذا اسے جواب دہ ٹھہرانا ہوگا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔

وزیراعظم پاکستان، شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے، پاکستان قطرکے ساتھ کھڑا ہے، انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہوگا، ہمیں خاموش رہنے کے بجائے متحد ہونا ہوگا، ایسانہ کیا تو اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر قطر، شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ اسرائیل عرب دنیا کو اپنے زیر اثر لانا چاہتا ہے، اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژکرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا، اسرائیل کی جانب سے خطے کے ملکوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردی ہیں۔ 

یرغمالیوں کی پرامن رہائی کے تمام اسرائیلی دعوے جھوٹے ہیں، گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ صہیونی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے، اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی سنگین پامالی لمحہ فکریہ ہے، اسرائیل کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں سے امن کو خطرات لاحق ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا۔

اپنی تقریر میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے دوحہ پر اسرائیلی حملے کو ڈھٹائی، منصوبہ بندی اور سفارت کاری پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یہ امریکا اور کچھ مغربی ممالک کی ملی بھگت ہے۔

انہوں نے اسرائیلی حکومت کے راہ نماؤں کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوحہ پر حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی اسلامی یا عرب ملک اسرائیلی جارحیت سے محفوظ نہیں ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے باہمی تعاون بڑھانا ہوگا۔

سیکریٹری جنرل عرب لیگ نے کہاکہ اسرائیلی دہشت گردی نے صورتحال کو گمبھیر کر دیا ہے۔ مصری صدرنے کہا کہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ فلسطینی صدرکا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور فوری امداد ناگزیر ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جواب دہ ٹھہرایا جائے۔

انہوں نے جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور فلسطینی حکومت کو پٹی میں اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے بااختیار بنانے کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ اسرائیل نے دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں، اسرائیلی حکومت لبنان اور شام کی سلامتی اور استحکام کو مسلسل خطرہ بنا رہی ہے اور آج وہ قطر کی خودمختاری اور سلامتی پر حملہ کر رہی ہے۔

قطر کے خلاف جارحیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی خطرے کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہمارا ردعمل واضح، فیصلہ کن اور دو ٹوک ہونا چاہیے۔ عراق کے وزیراعظم، محمد شیاع السودانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت نے خطے کے مسائل کو سنگین کردیا ہے، اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پرعالمی برادری کی خاموش معنی خیز ہے، عالمی برادری کودہرامعیار ترک کرناہوگا، اسرائیلی اقدامات ہماری اجتماعی سلامتی کے لیےخطرہ ہیں۔

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل نے تمام ریڈلائنز کراس کرلی ہیں۔ انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل کو کوئی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل دانستہ طور پر خطے کا امن تباہ کرنے کے درپے ہے، جبر اور تشدد سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ فلسطین کے صدرمحمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے جنگی جرائم تمام حدیں پارکرچکے ہیں، صہیونی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

دھماکا خیز خبر کی آمد

سربراہی اجلاس میں کی جانے والی تقاریر کا لُبِّ لباب عرب اور اسلامی ممالک کو لاحق عسکری خطرات تھے۔ قطر پراسرائیلی حملے نے اسلامی، بالخصوص خلیجی ممالک کو یہ واضح پیغام دیا کہ امریکا کا حفاظتی حصار کبھی بھی خلیجی ممالک کو امریکاکےسب سے اہم اتحادی، اسرائیل کے حملے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ 

چوںکہ یہ واضح ہوچکا، اس لیے خلیجی ممالک کو ہم آہنگ ہونے کے لیے امریکی نظام سے باہر اپنا دفاعی نظام بنانے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ حفاظتی شیلڈ بنانے کے لیے اُن یورپی اور ایشیائی سپلائرز سے ابتدائی وارننگ سسٹم اور میزائل دفاعی نظام لے کر استعمال لے سکتے ہیں جو جزوی طور پر آزادانہ کام کرتے ہیں۔

اب ان ممالک کے راہ نما شدت سے یہ بات محسوس کرنے لگے ہیں کہ دوحہ پر حملہ، محض قطر کی خودمختاری پر حملہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔ یہ پورے خلیجی سیکیورٹی آرڈر کے لیے امتحان ہے۔ مستقبل کے حملوں کو روکے بغیر غم و غصہ ظاہر کرنا بے معنی ہے اور خلیج اس طرح بے اختیار رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ایسے میں سترہ ستمبر کو ایک دھماکا خیز حبر سامنے آئی۔ وہ حبر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ طے پانے کی تھی۔ یہ محض ایک خبر نہیں تھی اور یہ معاہدہ کوئی معمولی نوعیّت کا نہیں۔

دراصل دونوں ممالک اس کے ذریعے مزید قریب آگئے ہیں، انہوں نے دنیا کو کئی پیغامات دیے ہیں، پاکستان نے خطّے کی اور عالمی سیاست میں مزیدجگہ بنالی ہے اورطاقت کے بعض پُرانے نظریات کوکسی حد تک چیلنج کردیا ہے۔

معاہدے کا پس منظر

دراصل خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکارہے۔ایک جانب غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورت حال مزیدپے چیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے،نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکا پر انحصار کیا ہے۔ لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق امریکا کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی۔ قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ماہرین کے بہ قول خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد تمام ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔

اس معاہدے کے ضمن میں دفاعی تجزیہ کارکہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔ سعودی افواج کےسیکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہے ہیں۔ 

لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل، بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔ لیکن اس وقت تو کوئی بھی خود کو اسرائیل سے محفوظ نہیں سمجھ رہا۔

اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکا اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھاجا رہا ہے۔ کیوں کہ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

لیکن پاکستان نے کم وسائل کے باوجود حال ہی میں اپنے سے کئی گنابڑے اور کئی گنا زیادہ عسکری وسائل رکھنے والے ملک، بھارت، کو جس طرح شکست دی اس سے دنیا بھر میں اس کی عسکری اور دفاعی صلاحیتوں کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔دوسری جانب اس تناظر میں چین کا کردار، اس کے دفاعی سازوسامان کی عمدہ کارکردگی، کم قیمت،آسانی سے دست یابی اور پاکستان کے ساتھ اس کے بہترین تعلقات کے پہلوبھی نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔

دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد کا منظر
دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد کا منظر

امکانات

ایک نظریہ بھی پیش کیا جارہاہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلتے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس ’’باہمی دفاع کے اسٹریٹجک معاہدے‘‘ کے بارے میں وزیرِ اعظم پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ’ ’اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اورکسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بناناہے اور ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔‘‘

بعض خدشات

عالمی امور کےبعض ماہرین کا موقف ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکا اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔لیکن اب تک جو خبریں آئی ہیں انہوں نے ان خدشات کو درست ثابت نہیں کیا ہے۔ بلکہ ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے اس دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور ان کے اس بیان کو تہران اور ریاض کے تعلقات کی تلخ تاریخ کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارت کو شدید دھچکا

بھارت اور سعودی عرب کے درمیان کچھ عرصہ قبل ہونے والے بعض بڑے معاہدوں کو عالمی امور کے بعض ماہرین نے بہت بڑا دھچکا قرار دیا تھا۔ لیکن اب بعض ماہرین یہ کہتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ سے ہمیں بہت سے فوائد ملے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: پاکستان کی بیرونی دنیا میں شبیہ کی تبدیلی اور اس میں واضح بہتری، خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی، پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں اور حکمت عملی کا لوہامانا جانا اور اسلامی ممالک ،بالخصوص خلیج کے اسلامی ممالک کی جانب سے پاکستان کا نئے پہلووں سے جائزہ لینا اور ان کی رائے میں تبدیلی آنا بھی شامل ہے۔

دراصل جنگ سے بعد اور چند یوم بعد تک بھارت یہ سمجھ رہا تھاکہ اب اس کانافذ کردہ نیو نارمل خطے میں چلے گا ۔مگر اسے جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ اس کی بے وقوفیوں ، غلط حکمت عملیوں،ضد،انا اورطاقت کے نشے کی وجہ الٹا اسے ہی عالمی سطح پر بہت بڑا نقصان پہنچ چکا ہے اور اس کی سوچ کے برعکس اب پاکستان کا نافذ کردہ نیو نارمل چل پڑا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی فوجی موجودگی کے مقامات
مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی فوجی موجودگی کے مقامات

بعض ماہرین بین الاقوامی امور کے بہ قول یہ معاہدہ دراصل بھارت کی حماقت اور غلط حکمت عملی سےپیدا ہونے والی صورت حال کا ایک نتیجہ ہے۔ کیوں کہ اس جنگ کے ذریعے خِطّے اور دنیا کویہ پیغام ملاکہ پاکستان مشکل اقتصادی حالات سے گزرنےکے باوجود کوئی ایرا غیرا ملک نہیں ہے۔

اس کے پاس بھی عالی دماغ سیاسی اور فوجی قیادت ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی صبر وتحمل اور بہت دانش مندی کےساتھ سیاسی اور عسکری فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا پر یہ واضح ہوا کہ پاکستان جوہری طاقت رکھنے کاپوری طرح اہل اور اسی طرح ذمے دار ملک ہے جس طرح دیگر جوہری طاقت رکھنے والے ممالک ہیں۔ 

دنیا کو یہ پیغام بھی ملا کہ صرف کسی سپر پاور کی دوستی ہی کسی ملک کے لیے سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ آج کی دنیا میں پاکستان کی طرح بین الاقوامی تعلقات میں دیگر آپشنز کے دروازے کھلے رکھ کر اور دانش مندانہ فیصلے کرکے بھی قومیں مشکل حالات میں اپنا وجود کام یابی سے برقرار رکھ سکتی ہیں۔ دنیا نے یہ جاناکہ چین اپنے دوست ممالک کو مشکل حالات میں دھوکا نہیں دیتا اوراور وہ آج کی دنیا کےپے چیدہ بین الاقوامی تعلقات میں خود اور اپنے دوست ممالک کومحفوظ انداز میں آگے لے کر چلنے کی کام یاب حکمت عملی، صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے۔

حالیہ جنگ میں پاکستان نے اپنی ہر طرح کی حکمت عملی اور ردعمل سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو حیران کیا۔اس مرتبہ پاکستان نے صرف ردِعمل نہیں دیا بلکہ اپنی عسکری قابلیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کی بنیاد پر فعال دفاع کی نئی جہت بھی متعارف کرائی۔ انتہائی کشیدہ ماحول میں پاکستان نے جس انداز سے عالمی برادری کو متحرک کیا، وہ بلاشبہ ایک سفارتی کام یابی تھی۔ 

اقوام متحدہ، او آئی سی، چین، ترکی، ایران، آذربائیجان اور روس سے فوری رابطے اوراپنے موقف کی وضاحت نے دنیاکےسامنے بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کیا۔ پاکستان نے ایک طرف امن کا پیغام دیا تو دوسری جانب یہ واضح کر دیا کہ قومی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں۔ اس کے برعکس بھارت کو عالمی سطح پر خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

مودی حکومت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، سفارتی بائیکاٹ اور فضائی حدود کی بندش جیسے اقدامات نے بھارت کو ایک غیر ذمے دار جوہری ریاست کے طور پر پیش کیاجو دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے اپنی عسکری حکمت عملی میں فوری جوابی کارروائی سے گریز کیااور صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنایاجو اس کے ذمے دار ریاست ہونے کی عکاسی کرتاہے۔

دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ جوہری طاقت رکھنے والے دو ممالک کے درمیان انتہا درجے کے کشیدہ ماحول میں پاکستان نے ہر سطح پر جو حکمتِ عملی اختیار کی اس نےخِطّے اور دنیا بھر میں اس کی روایتی تصویر اور کردارکو بدل دیاہےجو خِطّے اور عالمی سیاست میں ہمارے لیے نئی جہتوں کے دروازے کھول رہا ہے۔

یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے، اگر ہم اس ضمن میں مزید سنجیدہ کوششیں کریں تو ایک ممکنہ نئے جغرافیائی منظرنامے میں اہم مقام حاصل کرسکتے ہیں۔جہاں طاقت صرف عسکری قوت نہیں بلکہ سفارتی فہم، اخلاقی برتری اورا سٹریٹجک توازن پر مبنی ہوگی۔

چناں چہ اگر پاکستان کی نظر سے دیکھا جائے تو اس معاہدے سے سعودی عرب میں بھارتی اثر و رسوخ کم ہونےکا امکان ہے اور اس سے نہ صرف پاکستان کو اقتصادی محاذ پر مدد ملے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں نئے اور زیادہ موثر دفاعی سازوسامان کی تیاری کے لیے مالی مدد بھی مل جائے۔اس طرح دونوں ممالک اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھاکر زیادہ مضبوط اور خوش حال ہوسکتے ہیں۔

عالمی منظر نامہ سے مزید
اسپیشل ایڈیشن سے مزید