• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ملکہ الزبتھ 1952ء میں تخت نشین ہوئی تو میں آٹھویں کلاس میں تھی۔ اس زمانے میں ادارۂ مطبوعات کا انگریزی کا پرچہ نکلتا تھا اور میں نے ملکہ کی تخت نشینی کی تصویریں ، اُسی والہانہ پن سے دیکھیں جیسے ہم ہیلن آف ٹرائے یا زلیخا یا قلوپطرہ یا ممتاز محل کے بارے میں اپنے بڑوں سے بار بار پوچھا کرتے تھے ۔ دراصل مجھے بچپن ہی سے تاریخ میں بادشاہوں کے قصے پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا، اگر میں نے ماسٹر ز تک تاریخ پڑھی ہوتی تو میں بھی عورتوں کی ڈاکٹر مبارک علی بن جاتی۔ میں تو صرف بہادر عورتوں کی سرخیل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت مریم ر ضی اللہ عنہاکو مانتی رہی ہوں۔

ملکہ الزبتھ خوبصورت نہیں، بس قبول صورت تھیں جبکہ مارگریٹ، ان کی چھوٹی بہن خوبصورت تھی اور اُسے بھی شاہانہ پابندیاں ڈیانا کی طرح بہت تنگ کرتی تھیں۔ اس وقت وہ دونوں ہی نہیں ہیں تو ملکہ الزبتھ کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ صرف ذاتی حوالے سے۔1961ء میں وہ پاکستان آئی تھیں۔ ہم لوگ لاہور میں چیئرنگ کراس پر کھڑے ان کے جلوس کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی کیا زمانے تھے ملکہ کھلی گاڑی میں بیٹھی ، عوام کو ہاتھ ہلا ہلا کر مسکرا رہی تھیں۔ اور ہم لوگ مال روڈ کے دونوں طرف ان کو گزرتے دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا اور اب ہر دوسرے دن آپ کی گاڑی کم از کم پندرہ منٹ کو روک دی جاتی ہے کہ روٹ لگا ہے اور پھر درجنوں گاڑیاں جن کے آخر میں ایمبولینس بھی ہوتی ہے مگر ان میں سے کسی گاڑی میں ملکہ الزبتھ جیسی قامت کے لوگ نہیں ہوتے۔ وہ جو کل سڑکوں پر رل رہے تھے وہ آج پندرہ گاڑیوں کے جلو میں چلتے ہیں۔

خیر ان باتوں کا اس برطانوی ملکہ سے کیا رشتہ، مگر ایک بات مجھے کہیں اور کبھی بلکہ آج ہی نہیں بھول رہی ہے۔ انگریز جاتے ہوئے انڈیا کو دو ملکوں میں تقسیم کرکے گئے تھے۔ ملکہ چونکہ اپنی شادی کی گہما گہمی میں مصروف تھیں مگر اگلےدو سال تک کشت و خوں ہوتا رہا۔ اس پر ذرا بھی توجہ نہیں دی ۔ وہ تو شاید یہاں سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ کوہِ نور سجاکے بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دنیا میں امن یا جنگ کے حوالے سے خبروں یا اذیتوں کا کبھی اپنے خطاب یا کسی تقریر میں تکلفاً بھی ذکر نہیں کیا۔ مگر وہ بے قصور تھیں۔ انہیں لکھ کر جو تقریر دی جاتی تھی وہ پرسکون انداز میں پڑھ لیتی تھیں۔ جتنی پرسکون وہ بظاہر نظر آتی تھیں اتنی پرسکون وہ نہیں تھیں۔ ان کے ملک میں بھی آئرلینڈ الگ ہوا تھا۔ آج سے25برس پہلے ڈیانا کی حادثاتی موت یا قتل پر بہت متانت کے ساتھ انہوں نے اس کو رخصت کرنے کیلئے شہزادیوں والی توقیر دی۔ انہوں نے اینڈریو کی بے ہودہ حرکات کو دنیا بھر میں افشا ہونے کے باوجود صبر کےساتھ خاموشی سے برداشت کیا۔ ہیری کی شادی کی رسوم کوبھی تمام گھر بھر کی مخالفت کے باوجود، شاہانہ طریقے سے ادا کیا۔ اس طرح مارگریٹ کے غیر شاہی انداز کو بھی برداشت کیا۔ شہزادی این کو بھی اپنے طور پر زندگی گزارنے دی۔ ہیری جواپنی ماں سےمحبت میں کئی سال تک اپنی دادی اور باپ سے ناراض رہا ،باغیانہ مزاج کے باعث گورے کالے کی منافرت کوامریکی اداکارہ سے شادی کرکے، بعدازاں شاہی عنایات کو ٹھکرا کر کیلیفورنیا جا بسا۔ یہ تمام باتیں دھیمے مزاج کی ملکہ ، بظاہر ایک خاموش سمندر کی طرح سہہ گئیں۔ ان کی آخری ملاقات نئی منتخب وزیراعظم سے تھی، بے حد کمزور تھیںمگر شاہی روایت کو نبھایا۔ سلویا پلاتھہ کے شوہر، شاہی شاعر کے طور پر ہم لوگوں سے بنگلہ دیش کے پوئٹری فیسٹیول میں ملے تھے۔ مجھے سلویا پسند تھی اس لئے میں نے ان سے بات کرنا بھی گوارا نہ کیاجب وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئی۔ میں نے خفگی کی وجہ بتائی تو بڑی سادگی سے کہا ’’ہم دو آزاد شخصیات ایک ہوگئی تھیں، مگر الگ الگ ہی رہیں‘‘۔ خیر، میرے ساتھ اس تقریب میں وفد کی صورت میں پروین شاکر اور احمد فراز تھے۔ ان دونوں نے مجھے ناراضی دور کرنے کو کہا کہ جب ہم چودھویں کی رات کو دریا میں کشتی کی سیر کر رہے تھے۔

مجھے 1997ء میں ڈی جی کلچر کی حیثیت سے ملکہ کی فرمائش پر، نیشنل آرٹ گیلری دکھانے کا حکم ملا مگر اس وقت گیلری بنی نہیں تھی۔ حکم ہوا کہ پریذیڈنسی کی لابی میں مصوری کی نمائش آراستہ کی جائے۔ ہمارےاور برطانوی پروٹوکول کی جانب سے حکم ملا کہ جب ملکہ تشریف لائیں تو آپ کو جھک کر استقبال کرنا ہے۔ کسی کو تصویر اتارنے کی اجاز ت نہیں ہوگی۔ کوئی بڑھ کر بات کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ملکہ آئیں فیتہ کاٹا اور تصویریں دیکھنے کے علاوہ ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ اس میں خواتین مصوروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ وہ سب کا حال پوچھتیں، بال بچوں کا پوچھتیں، یہ جان کرکہ میں شاعرہ ہوں۔ ایک دفعہ پھر ہاتھ ملایا اور رخصت ہوئیں۔ اس زمانے میں پاکستان کی چالیس سالہ تقریبات جاری تھیں۔ یہ بات ہے 25برس پہلے کی۔ ان کی زندگی، شادی اور بچوں کی پرورش کے دوران، دو ایک دفعہ وہ ڈیانا کے بارے میں باتیں سن کر کچھ خفا ہوئیں، مگر برداشت کا چہرہ، مسکراتا ہوا ہی ملا۔ ان کو ڈیانا کی طرح بی بی بینظیر کی موت کا دکھ ہوا تھا مگر خود کردہ را علاجے نیست۔

ہر چند پاکستان نے ایک دفعہ کامن ویلتھ ممالک سے علیحدگی اختیارکی۔ بعدازاں، دوبارہ شامل ہوگیا۔ دونوں دفعہ کوئی معرکہ خیز بات نہ ہوئی مگر سیلاب کی اس قیامت میں مجھے سارے اسلامی اور کامن ویلتھ ممالک کی سردمہری سخت گراں گزر رہی ہے۔ ترکیہ اور دبئی کے علاوہ قطر نے برادرانہ کردار ادا کیا ہے مگروہ ملک جو پاکستان کو اپنی لڑائی کا مرکز بنا کر ہمارے جوانوں اور بچوں کو مرواتا رہا۔ وہاں کے صدر نے اپنا مطلب نکلنے کے بعد آنکھیں پھیر لی ہیں۔اب 73سالہ چارلس کے ساتھ اس کی موجودہ بیوی کو دیکھ کر بار بار ڈیانا یاد آرہی ہے۔ اس کے نصیب میں ساری دنیا کے لوگوں کے دلوں کی ملکہ بننا تھا اور کسی کے نصیب میں ، دنیا کی محبت کے سوا سب کچھ تھا۔ ملکہ شہزادہ فلپ کے انتقال کے بعد، بس ایک سال اور زندہ رہیں۔ پچھلے سال انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں سروس کرنے والے بزرگوں کو میڈل دیئے۔ ان میں گورکھا بھی شامل تھے مگر برصغیر کے جان دینے والے، ان کو کسی نے یاد نہیں دلائے۔ وہ اس وقت زندہ ہوتیں توپاکستان کا حال دیکھ کر، وہ بھی رو پڑتیں۔ لیکن انہوں نے اپنے زخم کسی کو نہیں دکھائے۔ الوداع خواتین میں 70برس حکمراں رہنے والی الوداع۔

تازہ ترین