پچھلے دنوں ایک دوست کی شادی کی دعوت میں بٹیر کی کڑھائی کھانے کا اتفاق ہوا تو مجھے اپنے گائوں کا مشہور شکاری ’’شیرو‘‘ یاد آگیا، جو بٹیر کے شکار میں کمال مہارت رکھتا تھا۔ گائوں کے قریب کئی کلو میٹرز اراضی پر پھیلا ہوا جھاڑیوں اور ریت والا جنگل تو بٹیروں سے بھرا رہتا تھا۔ شیرو بیٹر کا شکار ہفتے میں ایک مرتبہ کیا کرتا تھا اور شہرجا کر ان کو بیچ آتا۔ جو بٹیر بچ جاتے وہ گائوں والوں کو مفت میں دے دیتا تھا۔ لہٰذا ہر ہفتے گائوں کے تقریباً ہرگھر سے بٹیر پکنے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ اب نہ شیرو شکاری رہا ہے، نہ بٹیر اور نہ وہ ریتیلا جنگل، لیکن اب بھی سندھ میں سینکڑوں ایسے مقامات موجود ہیں۔ جہاں پر بٹیرکا شکار کھیلا جاتا ہے۔
بٹیر ایک چھوٹا پرندہ ہے۔ جس کا تعلق چکور کے خاندان سے ہے۔ یہ زمین پر گھونسلہ بنانے والا منفرد ’’کھیل پرندہ‘‘ ہے۔ دوسرے کھیل پرندوں کے برعکس اس کے پر کچھ لمبے ہوتے ہیں۔ اس کا عمومی قد18سے لیکر 21.9 سینٹی میٹرز تک ہوتا ہے، جبکہ اس کا وزن ایک سے پونے دو کلو گرام تک ہوتا ہے۔ بٹیر بنیادی طور پر ہجرت کرنے والا پرندہ ہے اور مختلف اجناس کے بیج، نرم گھاس اور کیڑے مکوڑے کھاکر گزارا کر لیتا ہے۔
یہ لوگوں کو دیکھ کر اُڑنے کے بجائے فصلوں یا جھاڑیوں میں چھپ جاتا ہے
یہ جب کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اُڑنے کی بجائے فصلوں یا جھاڑیوں میں چھپ جاتا ہے۔ اس کی موجودگی کا اندازہ کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ اکثر چھپا رہتا ہے۔ جب نر بٹیر چہچہاتا ہے تو پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں پر موجود ہے۔ ’’ پٹ پریٹ۔ پٹ پریٹ‘‘ کی بولی یا گیت وہ صبح اور شام یا کبھی کبھار رات کو ہی گاتا ہے۔ اس سے بھی اس کی موجودگی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
سندھ میں پائی جانے والی مادہ بٹیر تقریباً تین ماہ کی عمر میں انڈے دینا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ 6سے 12انڈے دیتی ہیں۔ سولہ سے اٹھارہ دن کے اندر ان انڈوں سے بچے پھوٹ نکلتے ہیں۔
بٹیر آپس میں مل جل کر رہنے والا پرندہ ہے اور وہ جھنڈ میں اُڑنا پسند کرتا ہے۔ اس کی روزانہ مشترکہ سرگرمی مٹی کا غسل ہے۔ بٹیر وں کا ایک گروہ ایک نرم دھول والے میدان کا انتخاب کرتا ہے۔ سارے بٹیر مٹی میں ایک سے دو انچ اندر تک اپنے آپ کو دھنستے رہتے ہیں اور پھر پروں کو پھڑپھڑا کر ان سے دھول نکال دیتے ہیں۔ یہ دھول پھر ہوا میں اُڑنے لگتی ہیں اور مخصوص قسم کا دائرہ بناتی ہے۔ اس دائرے کو دیکھ کر ایک شکاری اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہاں بٹیر موجود ہیں اور اس طرح وہ ان کا شکار کرنے کا منصوبہ بنا لیتا ہے۔
سندھ میں بٹیر کے شکار کے کئی ایک طریقہ رائج ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ دلچسپ اور جوش اور تھرتھراہٹ ’’پھندے‘‘ یا ’’دام‘‘ میں پھنسانے والاشکار ہے۔ اگرچہ یہ بے حد مہنگا اور مشکل کام ہے، لیکن بے حد منافع بخش بھی ہے۔ اس لئے کہ اس طریقے سے ایک ہی وقت یا ایک ہی کارروائی میں سینکڑوں بٹیر پکڑے جا سکتے ہیں۔
بٹیر کا شکار زیادہ تر سندھ کے میدانی علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ اس شکار کے لئے بٹیروں کو سیدھایا جاتا ہے یا ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ بٹیر دوسرے بٹیروں کو اپنے پاس بلاکر دھوکے سے ان کو پکڑوا دیتے ہیں۔ ایک سال قبل پکڑے ہوئے بٹیروں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے اور بڑی احتیاط سے ان کو مانوس کیا جاتا ہے۔ ایسے بٹیروں کو سال بھر زبردست خوراک کھلائی جاتی ہے اور زوردار آواز نکالنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ بٹیر خاص طور پر تیار کروائے گئے کپڑوں کے پنجروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان پنجروں کا اوپری حصہ تکون کی طرح ہوتا ہے جبکہ ان کا نچلا حصہ گول دائرے کی طرح ہوتا ہے۔ ان پنجروں کو لوہے کی دھاگہ نما سلاخوں سے تیار کروایا جاتا ہے۔
اس کا شکار زیادہ تر سندھ کے میدانی علاقوں میں کیا جاتا ہے
تربیت یافتہ بٹیروں کے علاوہ شکار کا دوسرا سازوسامان چند جالوں اور ایک درجن بانس کے کھنبوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بٹیر کا شکار ایک بکھیڑا اور دقت آمیز کام ہے۔ تاہم شکار پارٹی کو اچھا خاص منافع مل جاتا ہے۔ اس لئے کہ دوسرے پرندوں کی نسبت بٹیر بے حد مہنگا پرندہ ہے۔ اگر بہت سارے بٹیر ایک ہی پکڑ میں پھنس جائیں تو پھر تو شکار پارٹی کے مزے ہو جاتے ہیں۔ بٹیر کا شکار مئی، جون یا ستمبر، اکتوبر میں ہوتا ہے اور یہ شکار عام طور پر راتوں کو ہی کیا جا سکتا ہے۔ البتہ بارش اور ہوائوں والی راتوں میں بٹیر کا شکار ممکن نہیں۔
شکار پارٹی اپنے سازوسامان سمیت آدھی رات کو شکار کی جگہ پہنچ جاتی ہے۔ یہ شکار پُو پھٹنے سے پہلے شہروں اور گوٹھوں سے دوران مقامات پر کیا جاتا ہے جو کھلے ہوئے، لیکن جھاڑیوں سے بھرے ہوں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بٹیر کا شکار ٹھنڈی اور ہوادار اور برساتی راتوں کو نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ تیز ہوا کے ساتھ بٹیر دُور فضائوں میں اُڑ جاتے ہیں یا پھر زمین سے پیٹ لگاکر خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں یا پھر گھنے فصلوں میں چھپے رہتے ہیں۔ اس صورت میں ان کا شکار قطعی طور پر ممکن نہیں۔
چونکہ کئی شکار پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ پارٹی زیادہ فائدے میں رہتی ہیں جو جھاڑیوں والے میدانوں میں دور تک چلی جاتی ہے۔ مناسب جگہ پر پہنچ کر پارٹی بانس کے کھنبے زمین میں نصب کرتی ہے۔ یہ کھنبے ایک دوسرے سے دس فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے ہیں یا پھر بوقت ِ ضرورت سیدھی لکیروں میں بھی نصب کئے جاتے ہیں۔ بعدازاں ان کھنبوں میں جالیاں لگا کرجالیوں کی ایک دیوار سی بنائی جاتی ہے۔
ان جالیوں کے نچلے سر ے پھندے کی شکل کی طرح ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ ان جالیوں کی دیواروں کے ساتھ پتلی رسیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر ان رسیوں پر تربیت یافتہ بٹیروں کو بٹھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ان جالیوں کا رُخ ہوا کی طرف ہوتا ہے شکار پارٹی کے ممبر لٹکتی جالیوں کے ساتھ دب کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ باہر سے آنے والے بٹیروں پر فوراً جھپٹ پڑیں۔ حد سے زیادہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ آس پاس کی جھاڑیوں میں موجود بٹیر انسانوں کی موجودگی سے لاعلم رہیں۔
رات کے پچھلے پہروں میں تربیت یافتہ بٹیر بے چین ہو جاتے ہیں۔ ان کو وہ باد ِ صبا یاد آتی ہے۔ جس کا لطف وہ اپنی آزادی کے دنوں میں لیتے تھے اور بڑے مزے سے زمینوں اور میدانوں کے اوپر جھنڈ کی صورت میں اُڑتے رہتے تھے۔ یہ یادیں ان کو بے تاب کر دیتی ہیں اور وہ زور زور سے چہچہانے لگتے ہیں۔ ان کی بولی یا آواز ’’پٹ پریٹ ۔ پٹ پریٹ‘‘ یا ’’وانِ وانِ‘‘ دُور دُور تک چلی جاتی ہے۔ دور میدانوں میں جنگلی بٹیر دن کے آغاز کے انتظار میں اوپر اُڑنے لگتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی بولیاں سن کر وہ تیزی سے ان کی طرف چلے آتے ہیں اور پھرجلدی میں پکڑے جاتے ہیں۔ ہر جنگلی بٹیر باری باری سے بیغود ہو کر اپنے آپ کو جال میں پھینکتا رہتا ہے اور اس طرح ایک المناک انجام سے دوچار ہو جاتا ہے۔
یہ بٹیر دام میں یا پھندے میں آکر پھنستے ہیں۔ جہاں شکاری ان کے انتظار میں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ وقت بڑے جوش کا وقت ہوتا ہے۔
اس لئے کہ بٹیر باری باری آکر دام میں پھنستے جاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو آزاد کرنے کیلئے پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ لیکن اب تو ان کی آزادی چھن چکی ہوتی ہے۔ شکاری فتح و کامرانی اور دبتی ہوئی خوشی کے احساس کے ساتھ ان کو پکڑتے جاتے ہیں۔ یہ پوری کارروائی ایک ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتی ہے، کیونکہ دن کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔ اتنے تھوڑے سے وقت میں بے چارے سینکڑوں بٹیر پکڑے جاتے ہیں۔ ان کو کبھی بھی آزاد نہ ہونے کے لئے پکڑا جاتا ہے۔ ان کے بال و پر یا پنکھ بڑی بیدردی سے توڑے جاتے ہیں اور پھر ان کو کپڑے کی بوریوں میں ڈالا جاتا ہے۔
صبح کے وقت ان کی آزادی ختم ہو جاتی ہے اور دوپہرکو وہ کسی کھانے کی میز پر سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بد قسمت بٹیر، شکاری اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ ان کو سدھایا جاتا ہے اور لڑائی کے لئے تیار کیا جاتاہے تاکہ انسان اپنی اذیت پسند عادت کو مطمئن کرسکے۔
جب شکار پارٹی شکار سے واپس آتی ہے تو گائوں گوٹھوں یا شہر و ں کے باہر بٹیر کے بیوپاری ان کے انتظار میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ قوی الجثہ اور ہٹے کٹے، بڑی ٹانگوں اور لمبی گردنوں والے بٹیر وں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کچھ تو ہوٹلوں اور دعوتوں میں پکائے جاتے ہیں اور کچھ کو خرید کر تربیت دی جاتی ہے یا سدھایا جاتا ہے اور خاص قسم کی خوراک دی جاتی ہے کئی ماہ کی تربیت کے بعد وہ لڑاکا بٹیر یا پھر شکاری بٹیر بن جاتے ہیں اور انسانوں کے اشاروں پرچلتے ہیں۔