سفر وسیلہ ٔ ظفر شاید اسی لئے کہلاتا ہے کہ دورانِ سفر ذات پر بہت سے انکشافات ہوتے ہیں۔ سفر اندر کا ہو یا باہر کا ہمیشہ ثمر آور ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ثمر کا تعین انسان اپنی ترجیحات کے حوالے سے کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ڈی سی او بہاولنگر ملک اشرف اعوان کی دعوت پر بہاولنگر جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور سے بہاولنگر جاتے ہوئے اوکاڑہ کے قریب عجیب کشادگی اور طراوت کا احساس ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہاں کی زرخیز زمین کی خوشبو اور سحر ہے جو پھلوں، پھولوں، درختوں اور پودوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے پرندوں کی آواز میں بھی رچا بسا محسوس ہوتا ہے۔ اسی خواب ناک سرزمین کا ایک زرخیز ذہن آفتاب اقبال اپنے عجیب پروگرام ’’خبرناک‘‘ کے ذریعے عالمگیر شہرت حاصل کر چکا ہے۔ میں سوچ رہی تھی اپنی زمین سے وابستہ رہنے والوں پر دھرتی صدیوں کے راز افشا کر کے اپنا ہمراز بنا لیتی ہے کہ وہ اس کی بے پناہ وسعتوں اور ادراک میں شامل ہو کر کائناتی علم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ آفتاب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے اردو زبان کے اس پروگرام میں اپنی مادری زبان کو اس طرح سربلندی عطا کی ہے کہ وہ پورے ملک کے عوام کے دلوں سے جڑ کر قومی ہم آہنگی کا وسیلہ بن رہی ہے۔ وہ لوگ جو پنجابی نہیں بولتے مگر اس پروگرام میں بولے جانے والے جملوں اور محاوروں کو سمجھنے کے لئے پنجابی سے واقفیت ضرور حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ صرف پنجابی نہیں بلکہ تمام پاکستانی زبانوں کی ترقی و ترویج کی طرف اہم پیشرفت ہے کیوں کہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ پاکستانی زبانوں کا قتل پاکستانیت کا قتل ہے اور ان کا پھلنا پھولنا اپنی دھرتی، کلچر اور اقدار سے وابستگی کے مترادف ہے۔ اسی لئے میں نے خبرناک کو منفرد نہیں بلکہ عجیب کہا ہے۔ یہ عجب پن جو ہمیں پروگرام میں نظر آتا ہے وہ تمام اس کے کمپیئر کی اختراع ہے۔ آپ خود سوچئے ایک ایسا پروگرام جو مزاح کی دلفریب بنیادوں پر کھڑا ہو اس میں ہمیں زبان و بیان جیسے خالصتاً علمی موضوع پر فکر انگیز گفتگو سننے کو ملے، پاکستان کے مختلف اضلاع کی تاریخ، تعارف اور سنجیدہ علمی، ادبی و ثقافتی ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو اور وہ سہانے اور سریلے گیت سننے کو ملیں جو نہ صرف ہماری سماعتوں میں سما کر ہمارے وجود کو سرشار کر دیں بلکہ ان سے جڑی بھولی بسری یادیں ہمیں کچھ لمحوں کے لئے زمان و مکان کی قیود سے آزاد کر دیں۔ کیا یہ اس شخص کا کمال نہیں کہ وہ پروگرام کی بشاشت کو متاثر کئے بغیر علم، اصلاح اور دانش کی بات منتقل کرنے کا فن جانتا ہے۔ جیو ٹی وی کا یہ وہ پروگرام ہے جسے دیکھ کر واقعتاً زندگی خوشی اور شادمانی میں بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ صرف مسکراہٹ پر اکتفا کرنے والے لوگ بھی قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کہیں بھی پروگرام پر گرفت کمزور دکھائی دیتی ہے نہ بے ربطگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ خود اپنے لکھے اور سوچے سمجھے اسکرپٹ کے مطابق چلتے ہوئے غیر ارادی اور فی البدیہہ کا تاثر قائم رکھنے میں بھی پوری طرح کامیاب رہتا ہے جو ناظرین کو بہت بھلا لگتا ہے۔ یہ ذہانت نہیں وہ فطانت ہے جس کی سرحدیں تخلیق سے جڑی ہوئی ہیں۔ ویسے بھی آفتاب نے تخلیق کو اپنے گھر میں اپنے والد کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے کئی بار دیکھا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی بہاولنگر کی جہاں ملک اشرف اعوان نے اپنے قیام کے دوران قواعد و ضوابط کی پابندی کو یقینی بنانے کے علاوہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر بھی خصوصی توجہ دی۔ کھڈے لائن لگے ایماندار لوگوں کو اہم پوسٹوں پر تعینات کیا، کرپشن اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مادر پدر آزاد ملازمین کو کڑی سزائیں دیں۔ ڈی سی او آفس تک سب کی رسائی ممکن بناتے ہوئے چھوٹے بڑے کی تمیز ختم کی اور اس سارے عمل میں انہیں سی ایم ہائوس کی طرف سے کسی قسم کے پریشر کے بجائے بھرپور تعاون اور شاباش ملتی رہی۔ اس ضلع کے لوگ بہت پرامن اور قناعت پسند ہیں، شرارت کرنا اور اکسانا انہیں پسند نہیں۔ حکومت پنجاب نے اپنے سابقہ دور میں یہاں بہت سے منصوبے شروع کئے جن میں سڑکوں کی تعمیر سرفہرست تھی اور اس پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں تحصیل چشتیاں کے سیوریج سسٹم کے لئے 7 ارب کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسکولوں کالجوں کی کمی نہیں البتہ یہ ضلع ڈاکٹروں کی شدید کمی کا شکار ہے۔ ہر اسپتال میں نصف سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں۔ پنجاب سرکار کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹروں کو خاص مراعات دے کر ان دور دراز علاقوں میں بھیجے تاکہ وہ وہاں ٹک کر کام کرنا پسند کریں۔ اس ڈویژن کے کمشنر اسد اللہ خاں ایک نیک صفت انسان ہیں جو دل سے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے متمنی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ میرٹ اور دیانتداری کو سر فہرست رکھنے والے دو آفیسر ڈی پی او اطہر اسمٰعیل اور ایڈیشنل ڈی سی منظر جاوید یہاں تعینات ہیں جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ شاعر خوش آئند مستقبل کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ شاعر کا کلام معجزاتی تاثیر کا حامل ہوتا ہے تو اس کے عمل میں بھی روحانی عناصر کارفرما ہوتے ہیں جو بعض اوقات ناممکن کو ممکن بنا کر سب کو حیران کر دیتے ہیں۔ شاہنواز زیدی نے کیا خوب کہا ہے
محبت کی چمک دیکھی گئی ہے اس کی آنکھوں میں
نہ جانے کس طرح سے ہو گیا ہونے نہیں والا
شاعر کی احساس بھری نظر صرف محبوب کے خدوخال کی تعریف و توصیف تک محدود نہیں رہتی بلکہ زمین کے دل اور ہوا کے پروں کو بھی چھو اور محسوس کر سکتی ہے۔ جب اس کا دل زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے تو سب مناظر اس سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور اپنا احوال بیان کرنے لگتے ہیں۔ بہاولنگر کے خوبصورت شاعر عامر سہیل نے زمین سے اپنی ہم کلامی کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
میں زمینوں کا دھواں پڑھ کے نہ کچھ کر پایا
کیا تری آنکھ کے کاجل کو پڑھوں یار مرے
لیکن شاعر اگر بڑا افسر ہو اور اس کے پاس وسائل کی چابی بھی ہو تو کچھ نہ کر پانے کی بے بسی اس کے حساس دل کو رنجیدہ نہیں کرتی بلکہ وہ تو اپنے ماحول کی سیم اور تھور سے بنجر ہوتی زمین میں بھی جمال، خوشی اور محبت کی ایسی فصل کاشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دائمی خوشحالی کی ضمانت بنے۔ مجھے اطہر اسمٰعیل اور منظر جاوید سے یہی امید ہے کہ ان کا وِجدان علاقے کے اصل مسائل تک رسائی حاصل کر کے ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرے گا۔ امید ہے پنجاب سرکار اس ضلع کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے مزید اقدامات کرے گی تاکہ لوگوں کو روزگار، صحت اور دیگر مسائل کے باعث اپنی دھرتی چھوڑ کر دیگر شہروں میں منتقل نہ ہونا پڑے اور انہیں اس احساس سے بھی نجات ملے کہ حکومت کو ان کے معاملات سے سروکار نہیں۔