عین حے سین
دنیا پر طویل حکمرانی کرنے والی ملکہ ایلزبتھ 8 ستمبر 2022ء کو انتقال کرگئیں اس طرح ایک عہد تمام ہوا، 96 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہونے والی ملکہ الزبتھ دوئم 1992ء میں ملکہ بنی تھیں، ملکہ نے 96 برس کی عمر کے باوجود عمر رسیدہ افراد کو دیا جانے والا اعزاز ”اولڈ آف دی ایئر“ لینے سے معذرت کرلی تھی۔ منفرد ریکارڈ کی حامل ملکہ کی دنیا کے 45 ملکوں کے نوٹوں پر تصاویر شائع ہوتی ہیں۔
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہ انتہائی فعال تھیں، امور حکومت میں بھرپور انداز میں شرکت کرتی تھیں۔ ملکہ برطانیہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ”یہ وہ اعزاز ہے جس کے حصول کی آرزو ا نہوں نے کبھی نہیں کی تھی۔“ ان کے عہد میں برطانیہ میں پندرہ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، ملکہ کا شمار دنیا کی امیر ترین سربراہان مملکت میں ہوتا ہے ان کی ذاتی دولت 50 کروڑ ڈالرز سے زیادہ تھی جو اب بادشاہ چارلس کو تفویض کردی جائے گی۔
2 جون 1953 ء کو ان کی باقاعدہ تاج پوشی کی گئی، ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی تاج پوشی کی یہ پہلی تقریب تھی۔ تاج پوشی کے وقت اُن کے شاہی لباس پر ہندوستان اور سری لنکا کے کنول کے پھول‘ پاکستان کی گیہوں کی بالیاں اور کپاس کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ دولت مشترکہ کے دوسرے ملکوں کے نشانات بھی کاڑھے گئے تھے۔ اپنی تخت نشینی سےانتقال تک کا وقت ملکہ نے تحمل اور بردباری سے گزارا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی ضعیف العمری کے سبب تخت سے اپنے بیٹے یا پوتے کے حق میں دستبردار ہوجائیں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آخری دم تک ملکہ رہیں۔
اپنے دور اقتدار میں ملکہ دو مرتبہ پاکستان تشریف لائیں۔ پہلی مرتبہ 1961 ء اور دوسری بار 1997ء میں ۔ دونوں دورے حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر کئے۔ پہلی بار ملکہ ایلزبتھ اپنے شوہر پرنس فلپ کے ساتھ یکم فروری 1961ء کو تشریف لائیں، کراچی ایر پورٹ پرصدر جنرل ایوب خان نے ملکہ کا استقبال کیا ، ایئر پورٹ سے قائدِ اعظم کے مزار گئیں ،وکٹوریہ روڈ پر جو اب عبداللہ حسین روڈ کہلاتا ہے کراچی کے نمائندہ اسکولوں کے بچے صاف ستھرے کپڑوں میں ایک ہاتھ میں پاکستان اور دوسرے ہاتھ میں برطانیہ کا جھنڈا لیے ان کے منتظر تھے۔ اس وقت سربراہان مملکت کھلی گاڑیوں میں شہر کی سڑکوں سے گزرا کرتے تھے‘ ۔
ملکہ برطانیہ کھلی چھت والی لیموزین میں، جس پر 4ستاروں والی ایک تختی لگی ہوئی تھی، ان کے ہمراہ گاڑی میں جنرل ایوب خان بھی تھے‘ ملکہ نے ہلکے زرد رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا‘ چہرے پرمسکراہٹ تھی، جنرل ایوب خان فوجی وردی میں ملبوس تھے، کراچی کی سڑک پر ملکہ کا جلوس دیکھنے والے بچوں کے ساتھ کراچی کے شہری بھی بڑی تعداد میں امڈ آئے تھے۔ مکانوں اور عمارتوں کی گیلریاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔
کراچی کے پہلے دورے کے موقع پر موجودہ گورنر ہاؤس میں ان کی رہائش کے لئے خاص انتظامات کئے گئے تھے اور یہ انتظامات ان کی آمد سے تقریباً دو ماہ قبل شروع کردیئے گئے تھے، ان کی رہائش کے لئے ایک خاص سوٹ تیار کیا گیا تھا جسے پنک سوٹ کا نام دیا گیا تھا، اس میں اعلیٰ قسم کا فرنیچر رکھا گیا تھا، بہت عمدہ طریقے سے تزئین و آرائش کی گئی تھی، نئے برتن خریدے گئے تھے، کٹلری کا خاص سامان درآمد کیا گیا تھا اور گورنر ہاؤس کے عملے کو خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی تھی تاکہ وہ ملکہ کی بہتر انداز میں خدمت کرسکیں۔
کراچی میونسپل کارپوریشن نے ملکہ معظمہ ایلزبتھ دوئم کے اعزاز میں فاطمہ جناح روڈ پر واقع تاریخی عمارت فریئر ہال میں کراچی کے شہریوں کی جانب سے ایک شاندار اور پُروقار ”شہری استقبالیہ“ کا اہتمام کیا۔ اس وقت بلدیہ کے چیئرمین ممتاز احمد اور منتخب وائس چیئرمین خان بہادر حافظ حبیب اللہ تھے۔ جب ملکہ استقبالئے کے لئے فریئر ہال روانہ ہوئیں تو ان کے لئے ایک خاص بگھی تیار کی گئی جو چار گھوڑوں کی مدد سے چلتی تھی، ملکہ کو گورنر ہاؤس سے اس بگھی میں فریئر ہال لایا گیا تھا۔
وائس چیئرمین حافظ حبیب اللہ نے ملکہ معظمہ کی خدمت میں اہلیان شہر کراچی کی جانب سے سپاسنامہ پیش کیا جو کراچی میونسپل کارپوریشن میں آج بھی محفوظ ہے۔ یہ سپاسنامہ اردو میں اس وقت کے ڈائریکٹر اطلاعات و طباعت فضل احمد صدیقی نے تحریر کیا تھا اور ملکہ کی خدمت میں اردو زبان میں ہی پیش کیا گیا۔ خان بہادر حافظ حبیب اللہ نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوے کہا۔
ملکہ معظمہ!
’’یہ امر میرے لیے باعث افتخار ہے کہ میں اہالیان شہر کراچی کی جانب سے عُلیا حضرت کو خوش آمدید کہنے کا خوشگوار فرض ادا کررہا ہوں اور آپ کے یہاں تشریف لانے سے ہم سب کو جو دلی مسرت ہوئی ہے اس کے اظہار کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ آپ جس ممتاز قوم کی سردار ہیں اور جن اعلیٰ تصورات اور اداروں کی مظہر ہیں وہ ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ آپ کے شاہی خاندان اور ان مختلف حکومتوں سے جن کی باگ ڈور آپ اور آپ کے نامور اسلاف کے ہاتھوں میں رہی ہیں۔
ہمارے رشتے اس قدر پُرانے اور تعلقات اس قدر گہرے ہیں کہ ان چند پچھلی صدیوں میں انہوں نے ہمارے احساسات پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے۔ ہماری قوم میں جن افراد کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جنہوں نے برطانوی راج اور اس کے لائے ہوئے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی اثرات کو تیکھے افتخار سے کبھی قبول نہیں کیا اور ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اسلاف کو انہی اثرات میں اپنی قوم کے واسطے ایک نئی زندگی اور ایک نئی امید کی کرن نظر آئی اور ہمارے درمیان وہ سپوت بھی ہیں جن کے دلوں میں برطانیہ کی سرداری میں اتحادیوں کے شانہ بشانہ فسطائیت کے خلاف جنگ اور برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔
ان دونوں لڑائیوں میں انہوں نے اُن سیاسی اور سماجی حکمت عملیوں کو مشعل راہ بنایا جنہوں نے مغربی حریت پسندی اور برطانوی طرز کی جمہوریت کو پُر کشش نصب العین بنا رکھا ہے۔ یہاں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے آکسفورڈ‘ کیمبرج اور آپ کے ملک کی دوسری بڑی یونیورسٹیوں سے علم کی روشنی پائی ہے اور ایسے لوگوں کی بھی تعداد کافی ہے جن تک آزادی مساوات اور اخوت کے خیالات انگریزی زبان کے ذریعہ پہنچے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جب ان خیالات نے ان میں گھر کیا تو ان کے دلوں میں اسلام کے پھیلائے ہوئے سماجی مساوات اور عالمی اخوت کے بنیادی اصولوں کی زیادہ گہری اور نئی آگاہی پیدا ہوگئی۔
ہرچند کہ ہمارے ہم وطنوں کی زیادہ تعداد ایسی ہے جو انگریزی زبان سے ناواقف ہے اور جس نے کبھی اپنے ملک سے باہر قدم نہیں نکالا ہے لیکن پھر بھی وہ برطانیہ اور ہم خیال قوموں اور ملکوں کی برادری سے جس کا نام دولت مشترکہ ہے تاریخی تعلقات سے باخبر ہیں اور وہ اُن بندھنوں کو بھی مانتے ہیں جو آج ان آزاد قوموں کے درمیان قائم ہیں جو انسانی عظمت‘ آزادی اور باہمی کوششوں سے امن و ترقی کے واسطے کوشاں ہیں۔ ہمیں ان سربراہوں کی دانائی کا احساس ہے جنہوں نے ایک عظیم سلطنت کے طویل اور عریض ممالک کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کیا اور آزاد اور دوستانہ رشتہ کی بنا پر قوموں کی ایک عظیم دولت مشترکہ قائم کی۔
ہم کو دولت مشترکہ کے ممالک کی ان عملی دلچسپیوں کا احساس ہے جو انہوں نے ہماری فلاح و بہبود اور ترقی میں لی ہیں اور جو اس دعویٰ کی دلیل ہے کہ دولت مشترکہ صرف ایک جذباتی تنظیم کا نام نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانہ پر اتحادِ عمل اور فلاحِ باہمی کے واسطے ایک موثر اور طاقت ور ادارہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے طور پر فخر اور چاہت کے ساتھ ذہنی‘ جذباتی یا وجدانی طور پر اس مرکزی حیثیت کو پہنچانتے ہیں جو عُلیا حضرت کو اس دولت مشترکہ میں حاصل ہے۔ میں تمام اہالیان شہر کراچی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عُلیا حضرت کی خدمت میں ہدیہئ خلوص و احترام پیش کرتا ہوں اور آنجناب اور دولت مشترکہ کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے دعائے خیر کرتا ہوں۔
ہم ہیں عُلیا حضرت کے مخلص دوست۔اہالیانِ شہر کراچی۔
ملکہ برطانیہ نے شہری استقبالیہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ہجرت کر کے کراچی آنے والے نئے شہریوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہ لوگ کام کرنے کے لیے اپنےبہتر مستقبل کا یقین لے کر آئے تھے، بہت سے لوگوں کو خوراک، صاف پانی، بجلی پناہ اور گھر فراہم کرنا ہے، اور باقی تمام سہولیات بھی جلد فراہم کرنی ہے جو بڑے شہروں میں ہوتی ہیں، کراچی نے جس طرح ان مشکلات کا سامنا کیا اس کے نتیجے میں یہ شہر آگے بڑھتا رہا، یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے، اپنے مختصر مگر معنی خیزخطاب کے آخر میں انھوں نےارد میں یہ کہہ کر کہ " بہت بہت شکریہ کراچی"،سب کو حیران کر دیا، وہاں موجود لوگ بشمول صدر پاکستان جنرل ایوب خان والہانہ انداز میں دیر تک تالیاں بجا تے رہے۔
دوسری بار ملکہ معظمہ اکتوبر1997ء میں کراچی تشریف لائیں۔ان کا استقبال اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر اور وزیراعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی نے کیا۔ ملکہ نے قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 9 اکتوبر 1997 ء کو ان کے مزار پر حاضری دی‘ پھول چڑھائے اور کچھ دیر احتراماً خاموش کھڑی رہیں۔ انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے قائد اعظم کو دنیا کا عظیم رہنما قرار دیا۔
رات میں ملکہ ایلزبتھ نے اس وقت کے گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل معین حیدر اور وزیراعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی کے ساتھ کھانے میں شرکت کی۔اس موقع پر ملکہ ایلزبتھ نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ ”مسٹر جتوئی میں طویل عرصے کے بعد پاکستان آئی ہوں اور اس عرصے میں‘ میں نے چکن کڑاہی اور چکن بریانی کی بہت زیادہ کمی محسوس کی۔ اس فرمائش کے بعد ملکہ ایلزبتھ کی پاکستانی کھانوں سے بھرپور تواضع کی گئی۔
ملکہ کے کراچی کے یہ دونوں دورے انتہائی یادگار ہیں اور کراچی کی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔