• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منہگائی اگرچہ اس وقت ساری دنیا میں ریکارڈ توڑ رہی ہے، لیکن پاکستان میں عوام کو صرف کمر توڑ منہگائی ہی کا عذاب نہیں جھلنا پڑرہا ہے بلکہ وہ ناجائز منافع خوروں کے پیداکردہ کئ اقسام کے مصنوعی بحرانوں کا بھی شکار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں مختلف شعبوں میں مختلف مافیاز اور کارٹیل دہائیوں سے اپنا گھناؤنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس کھیل میں مبیّنہ طور پر بعض صنعت کار ، کاروباری افراد، درمیان کے آدمی اور بہت سے سرکاری اہل کار ملوث ہیں جن کے بارے میں گاہے بہ گاہے خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ لیکن ان لوگوں کا گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ بعض اوقات یہ لوگ کسی مصلحت کے تحت مختصر مدّت کے لیے اپنی گھناؤنی حرکتیں روک دیتے ہیں،لیکن خطرہ ٹلتے ہی اپنے نقصان کا ازالہ کرلیتے ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ ظلم و ستم پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

اِن دِنوں ملک میں ملیریا اور ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طرح طرح کے امراض پھوٹ رہے ہیں۔ ایسے میں بعض ادویہ کی شدید قِلّت اور ان کی زاید نرخوں پر فروخت کی شکایات میں اضا فہ ہوتا جارہا ہے۔ ان میں سے بعض ادویہ اگرچہ عام استعمال کی ہیں ، لیکن موجودہ حالات میں ان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیوں کہ وہ بخار اور جسم کا درد ختم یا کم کرنے میں کلیدی کردار اداکرتی ہیں۔ لیکن یہ صرف آج کی بات نہیں ہے ، بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں فلاں ادویہ کی بازار میں قِلّت پیدا ہوگئی ہے یا وہ بلیک میں فروخت ہورہی ہیں۔

چند برسوں میں شایع ہونے والی ایسی خبریں جب ایک جگہ جمع کرکے پڑھی گئیں تو یوں محسوس ہواکہ ایسا تسلسل کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔ شاید اس دھندے میں مختلف گروہ شامل ہیں جو ایک کے بعد دوسری قسم کی ادویہ کا بحران پیدا کرتے ہیں یا پھر وہ خود کمالینے کے بعد دوسرے گروہ کو کوئی نیا بحران پیدا کرکے کمائی کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات دیکھنے سے پتا چلتا ہے وہ کس قدر دلیری سے دہائیوں سے اپنے انداز میں تبدیلی لائے بغیر یہ دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اپیل اور تحقیقات ساتھ ساتھ

اِن دِنوں بھی مسلسل ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ ملک بھر میں ادویات کی کمی کا بحران شدت اختیار کرنے لگا ہے۔ ایسے میں محکمۂ صحت پنجاب نے فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سے مدد کی درخواست کی ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری محکمۂ صحت، پنجاب، کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے میں53ضروری ادویات میسر نہیں ہیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے ) ناپید ادویہ بنانے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے۔دوسری جانب پرائم منسٹر انسپکشن ٹیم نے بھی ادویہ کی قلت کی تحقیقات ی شروع کر دی ہیں۔

پرائم منسٹر انسپکشن ٹیم نے ادویہ کی قلت پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، پی ایم اے اور دیگر حکام کو طلب کر لیاہے۔ دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک میں نہ ملنے والی ادویات کثیر القومی کمپنیوں کی ہیں۔ تھیلیسیمیا، کینسر اور ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کے لیے ان کمپنیوں کی ادویہ آنا بند ہو گئی ہیں۔

پی ایم اے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیرون ملک خام مال منہگا ہونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ادویہ کی قِلّت کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ ادہر حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ملک بننے والی ادویہ کی درآمد پرتین فی صد ٹیکس عاید ہونے سے درآمد کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹرز اور فارماسسٹس کا کہنا ہے کہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں تقریباً سو سے زاید ضروری ادویہ کی قِلّت ہے۔

معنی خیز قِلّت اور چھاپہ

بخار اور جسم میں درد کو ختم یا کم کرنے والی دو بہت معروف ادویہ کی اِس وقت قِلّت کو بعض حلقے بہت معنی خیز قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ادویہ کی تیّاری سے لے کر ان کی گلی محلّوں میں فروخت تک کے عمل پر گہری نگاہ رکھنے والے بعض افراد کے مطابق یہ ادویہ ملک میں تیّار ہوتی ہیں، لہذا موجودہ حالات میں اِن کی قِلّت کی شفّاف انداز میں تحقیقات کی جائیں تو بہت سے مکروہ چہروں پر سے پردہ اُٹھ سکتا ہے۔ مذکورہ افراد کے بہ قول کراچی کی مرکزی میڈیسن مارکیٹ کا سروے کرنے سے پتا چلتا ہے کہ تھوک اور خوردہ فروش اپنی مرضی کے مطابق ادویہ فروخت کر رہے ہیں۔

اس بازار کے ایک ذریعے کے مطابق جب کورونا کی وباعروج پر تھی اس وقت سے شہر میں بخار کے علاج کی ادویہ کی طلب و رسد میں نمایاں فرق ہے اوران ادویہ کی دست یابی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن متعلقہ سرکاری حکام سورہے ہیں۔ بازار میں عام استعمال کی ادویہ کا مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے تاکہ اس کی من مانی قیمت وصول کی جا سکے۔ یہ سرکاری اداروں کی ذمّے داری ہے کہ نہ صرف بازار میں اضافی قیمتوں پر ادویہ فروخت کرنے والوں کے کارروائی کرے بلکہ ادویہ کی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ اس مکروہ دھندے میں ادویہ ساز ادارے بھی ملوث ہوں۔

ایسے میں جب یہ خبر آتی ہے کہ حکومت سندھ کے حکام نے چھاپہ مارکر ہاکس بے میں واقع ایک گودام سے بخار اور جسم میں درد کو رفع کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ایک معروف دوا کی چارکروڑاسّی لاکھ گولیاں ضبط کرلی ہیں تو سینہ درد سے پھٹ جاتا ہےکہ یہ کیسا ظلم ہے۔ صوبے کے ڈرگ انسپکٹر دلاور علی جسکانی کے مطابق یہ گودام ایک معروف ادویہ ساز ادارے کاہے۔ان کا کہنا تھاکہ دواکی ذخیرہ اندوزی بازار میں منہگے داموں فروخت کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

ضبط کی گئیں گولیوں کی مالیت تقریباً پچّیس کروڑ روپےہے اور پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے۔ اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی، مرتضیٰ وہاب نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ایسے وقت میں ادویہ کی ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے جب مریضوں کے علاج کے لیے ادویہ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے بھرپور کارروائی کی ہے اور اس حوالے سے مزید قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح وفاقی محکمہ صحت کے عملے نے بھی چند یوم قبل کراچی کی میڈیسن مارکیٹ میں چھاپہ مار کر تقریبا ڈھائی لاکھ گولیاں برآمد کی تھی۔

یاد رہے کہ پکڑی گئیں گولیاں مقامی طور پر ایک ادارہ تیار کرتا ہے اور یہ ایک معروف دوا کا برانڈ نام ہے۔ یہ دوا اکثر بخار اورجسم میں درد کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور موجودہ حالات میں خصوصا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا اور ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کے تناظر میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

دوسری جانب متعلقہ کمپنی نے اپنے ایک بیان کے ذریعے اپنے ایک گودام پر چھاپے کی تصدیق کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کے دعوے کو مسترد کیا اور کہا کہ ہم قلت پیدا کرنے کے لیے جان بوجھ کر دوا ذخیرہ کرنے سے متعلق دعووں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ تاہم گودام میں موجود اسٹاک ملک میں عام کاروبار کے لیے تقسیم کرنا تھا۔کمپنی ملک میں اس دوا کی فراہمی جاری رکھے گی اور مارکیٹ میں رکاوٹوں کے باوجود چند مصنوعات کی دست یابی یقینی بنانے کے لیے ہم نے پیداواری صلاحیت ایڈجسٹ کی ہے۔

وزیرِ صحت اور ینگ فارماسسٹ کےالزامات 

خیال رہے کہ چند یوم قبل ہی وفاقی وزیر صحت نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں پر دواؤں، بالخصوص مذکورہ دوا کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا الزام بھی لگایا تھا اور خبردار کیا تھا کہ ان کمپنیوں کا کوئی بھی بلیک میلنگ کا حربہ ان پر کام نہیں کرے گا۔ انہوں نے ذرایع ابلاغ کو حکومت کے بجائے ادویہ ساز کمپنیوں پر تنقید کرنے کی تجویز دی تھی، کیوں کہ ان کے بہ قول فارما کمپنیوں نے ہی مصنوعی قلت پیدا کی ہے۔

وزیر صحت نے کہا تھا کہ اسی طرح چند سیاست داں سیلاب زدگان کے مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوا ساز کمپنی اور اس کے برانڈ کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے کہا ہے کہ ادویہ کی قلت پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن نے الزام لگایاہے کہ قیمت بڑھانے کے لیے مذکورہ دواکو بازار سے جان بوجھ کر غائب کیا گیاہے۔ یہ الزام ایسے وقت میں لگایا گیا ہے جب حکومت اور فارما انڈسٹری کے درمیان قیمتوں کے تعین کے معاملے پر تعطل کی وجہ سے پیداوار میں کمی کے باعث ملک بھر میں 'مذکورہ دواکی قلت کا سامنا ہے۔ ایسے میں پی وائی پی اے نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مذکورہ دواکی تیاری میں استعمال ہونے والے کنٹرول شدہ مادے کا آڈٹ کرے۔ پی وائی پی اے کے عہدے دار ڈاکٹر فرقان کے مطابق ایسیٹک این ہائیڈرائیڈ وہ کیمیائی مادہ ہے جو مذکورہ دوا تیار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

بلیک مارکیٹ میں اس کی بہت زیادہ طلب ہونے کے باعث یہ بھاری قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ یہ مادہ مارفین کو ہیروئن میں تبدیل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل پاکستان میں بڑی مقدار میں تیار کیا جاتا ہے اورمذکورہ دوا کی تیاری کے لیے اس کا کوٹا مختص کیا جاتا ہے۔ اگر ایسیٹک این ہائیڈرائیڈ کا مکمل کوٹا استعمال کیا جارہا ہے تو پھر یہ دوا مارکیٹ میں دست یاب کیوں نہیں ہے؟ ان کے بہ قول اگر دوا کی پیداوار رک جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسیٹک این ہائیڈرائیڈ مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ تفتیش کاروں کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے جب کہ ایفیڈرین کا معاملہ سامنے آنے کے باعث ملک کو پہلے ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پی وائی پی اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فرقان ابراہیم کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط کے مطابق ڈینگی، ڈائریا، کووڈ 19، ملیریا، خارش اور ٹائیفائیڈ پھیلنے کے باعث لاکھوں افرادزندگی بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن بازار میں ادویہ دست یاب نہیں ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) عوام کے لیے مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بجائے جان بچانے والی ادویہ کی دست یابی بھی یقینی بنانے میں ناکام ہوچکی ہے۔

ایسوسی ایشن نے الزام لگایاہے کہ قیمت بڑھانے کے لیے مذکورہ دوا کو بازار سے جان بوجھ کر غائب کیا گیاہے۔ اپنے خط میں ایسوسی ایشن نے اینٹی نارکوٹک فورس سے خام مال، خاص طور پرمذکورہ دوا بنانے کے لیے درکار کنٹرول شدہ مادّے کا آڈٹ شروع کرنے کے لیے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنے خط میں اس نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ حکومت ان کمپنیوں کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے جنہوں نے مذکورہ دوا کی پیداوار بند کردی ہے۔ دوسری جانب وزارت قومی صحت نے ایک بیان میں دعویٰ کیاہے کہ ملک بھر میں جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور کراچی، پشاور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ان گوداموں کو سیل کیا گیا ہے جہاں غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویات موجود تھیں۔

بڑی سہولت دینے کا فیصلہ

صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان، ڈریپ نے مذکورہ دوا بنانے والی کمپنیز کو بڑی سہولت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے اس دواکی ازسرنو تیاری کی اپیل کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈریپ نے یہ دوا بنانے والے ملکی اداروں کواپنی اس پیش کش سے آگاہ کر دیاہےکہ انہیں مذکورہ دوا کی زسر نو پیداوار پر بڑی سہولت ملے گی، کمپنی کو محدود مدت میں پندرہ ہزار پیکٹس تیار کرنا ہوں گے ہدف حاصل کرنے پر کمپنی ایک فارما پراڈکٹ کی فوری رجسٹریشن کرا سکے گی۔یاد رہے کہ ستّر کمپنیز کے پاس یہ دوا تیّار کرنے کا لائسنس ہے،لیکن ان میں سے بیش تر اسے تیّار نہیں کر تی ہیں۔

عوام کے دکھ اور ادویہ سازوں کا موقف

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مزید ادویہ کی فوری ضرورت ہے۔ فی الحال فارمیسیز میں درد کش ادویات، اینٹی بایوٹکس، جلدی امراض ، نسوانی امراض ، ذیابطیس اور آنکھوں کے انفیکشن سے نمٹنے کے لیے ادویات موجود نہیں ہیں۔ شہروں میں مقیم افراد بھی کچھ ایسی ہی شکایات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاہم ادویہ ساز کمپنیز حکومت کو ادویہ کی قلت کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں۔ ان کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو بڑھا دیا ہے جس کے باعث مینوفیکچرنگ معطل کر دی گئی ہے۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حامد رضا کے مطابق جب کسی تیار شدہ پراڈکٹ پر ہماری کمپنیوں کی لاگت طے شدہ قیمت سے زیادہ آتی ہے تو ہم اس کی تیاری کیسے جاری رکھیں؟ یہ ایک آسان سا کاروباری اصول ہے۔ اگر حکومت منہگائی کے تناسب سے ادویہ کی قیمتیں بڑھاتی ہے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ادویہ سازی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے بہ قول یہ مقامی فارما کمپنیوں کا اتفاقی فیصلہ نہیں تھا، لیکن حالات نے انہیں ایک ایک کرکے پیداوار بند کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اس کا اثر اب ادویات کی عدم دست یابی کی صورت میں بازار میں نظر آنے لگا ہے۔ کورونا کے بحران پر قابو پاکر عالمی منڈی کو کھولا گیا تھا بحران کے بعد عالمی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق دیکھنے کو ملرہا ہے۔ ہم تیزی سے کم ہوتے ہوئے منافع کی شرح کے باوجود ادویات کی سپلائی جاری رکھے ہوئے تھے، لیکن مقامی سطح پر بڑھتی ہوئے پیداواری لاگت نے اب چیزوں کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ 

کمپنیاں مزید نقصان برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لیے وہ خام مال درآمد نہیں کر رہی ہیں اور بالآخر اب کئی دوائیں تیار نہیں کر پائیں گی۔ انہوں نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ ادویہ کی قیمتوں میں ایک حد تک اضافہ کیا جائے اور حالیہ بحران پر قابو پانے کے لیے ان کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو آنے والے دنوں میں بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا۔

دوسری جانب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک ذمے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی پی ایم اے ادویہ کی قلت کے معاملے پر مبینہ طور پر بلیک میلنگ کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ تمام ادویہ کی قیمتوں میں چالیس فی صد اضافہ کردیا جائے جو کسی صورت ممکن نہیں۔ انہوں نے سوال کیاکہ دنیا کے کون سے ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ تمام ادویہ کی قیمتیں ایک ساتھ بڑھا دی جائیں۔ پاکستانی عوام پہلے ہی منہگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ قیمتیں ایک ساتھ بڑھا دی جائیں۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی دوا نہیں ہے جس کی پیداواری لاگت کا مسئلہ ہو اور پیداواری لاگت کو جواز بناکر دوا کی تیاری بند کردی ہو، ایسی کوئی ایک بھی دوا نہیں ہے۔ البتہ ایسی ادویات ضرور ہیں جن کی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے یا جس کا کوئی حقیقی مسئلہ ہو اوران کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہم نےتحقیق کرکے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق 35 کے قریب ادویہ ہیں جو ہارڈشپ کیسز میں شامل ہیں جن کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہیے اور ان ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کی سفارش کابینہ کو بھیجی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی ایم اے کو چاہیے کہ وہ تھوڑی قربانی دے، کیوں کہ اس وقت ملک کےحالات ایسے نہیں ہیں کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ 75 ہزار ادویات کے نرخ ایک ساتھ بڑھادیے جائیں۔

ادویہ کے جینرک نام استعمال کرنے کی تجویز

ماہرین کے مطابق جینرک ادویہ میں وہی فعال جزو ہوتا ہے جو ان کے مساوی برانڈ نام کی ادویہ میں ہوتا ہے۔ ان کے بھی وہی اثرات ، خوراک اور مضر اثرات ہوتے ہیں ، لیکن عام طور پر عام دوائیں ان کے برانڈ نام کے متبادل کے مقابلے میں نمایاں طور پر سستی ہوتی ہیں۔ جب پہلی بار ایک دواتیار کی جاتی ہے تو عام طور پر صرف ایک برانڈ نام کا ورژن موجود ہوتا ہے۔ تاہم ، جب اس کمپنی کا دوا کا پیٹنٹ ختم ہوجاتا ہے تو دوسری کمپنیاں عام دوا کے نام سے ایک ہی دوا بیچ سکتی ہیں۔

جینر کس کو برانڈ نام کی دوا سے مختلف نظر آنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ سائز ، شکل، رنگ اور نشانات میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ان میں برانڈ نام کی دواسے مختلف غیر فعال اجزاء پائے جاتے ہیں کیوں کہ کسی دوا کا اثر صرف فعال جزو سے ہوتا ہے۔ عام نام کی دوائیں برانڈ نام کی ادویہ کے مقابلے میں نمایاں طور پر سستی ہوتی ہیں ، کیوں کہ عام ادویہ بنانے والوں کو کسی نئی مصنوعات کی نشوونما اور مارکیٹنگ کے اخراجات برداشت نہیں کرنے پڑتے۔ ایف ڈی اے کے مطابق ، عام طور پر ایک عام دوا برانڈ نام کے متبادل سے اسّی تا پچّاسی فی صد سستی ہوتی ہے۔

گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں ڈریپ نے ڈاکٹرز کو نسخوں پر برانڈ کے بجائے جینرک نام لکھنے کی ہدایت کی تھی اور اس ضمن میں اس نے تمام صوبوں کے ہیلتھ سیکریٹریز کو مراسلے بھجوا دیےتھے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں کو ادویات کے نسخوں پر جینرک کے بجائے برانڈ نام لکھنے کے خلاف عوامی شکایات پر یہ اقدام اٹھایا تھا۔مراسلوں میں کہا گیا تھا کہ طبی نسخوں پر برانڈز کا نام لکھنا طبی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹروں کو نسخوں میں برانڈز کے نام لکھنے سے روکنے اور جینرک نام لکھنے کیلئے ضروری ایکشن لیا جائے۔

ڈاکٹر اپنے نسخہ جات میں ادویہ کے برانڈ نام کے بجائےجینرک نام لکھیں۔ ڈاکٹروں کی جانب سے ادویات کے برانڈ نیم لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ برانڈ کی منہگی ادویہ سے مریضوں پر مالی دباؤ پڑتا ہے۔ مراسلے میں کہاگیا تھا کہ کہ ڈاکٹرز برانڈ کے بجائے دوا کےکیمیائی اجزا کا نام لکھنے کے مجاز ہوں گے۔ اس حوالے سے اداروں کو عمل درآمد نہ کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔لیکن افسوس کہ خود ڈریپ اس مراسلے کو بُھلا بیٹھا اور کوئی بھی ڈاکٹر ادویہ کے جینرک نام نہیں لکھ رہا۔

ماہرین کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ہدایات میں واضح ہے کہ ڈاکٹرز فارمولا تجویز کریں، اس سے ادویہ کی قیمتوں میں 20 سے 50 فی صد کمی آئے گی۔ پاکستان پریکٹشنر ایکٹ اور ضابطہ اخلاق کے تحت ڈاکٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فارماسوٹیکل کمپنیوں سے کسی قسم کی مراعات لے کر ان کی ادویات تجویز نہیں کریں گے۔ ڈاکٹرز ان کمپنیوں سے کئی طرح کی مراعات لیتے ہیں جن میں گاڑی، اے سی، فریج اور دیگر مراعات شامل ہیں، وہ یہ مراعات نہیں لیں گے اور غریبوں کے لیے سستی اور معیاری ادویات لکھیں گے۔

بعض طبی ماہرین کے مطابق دل کی بیماری کے لیے ایک دوا 460 روپے اور دوسری اچھی اور معیاری دوا 49 روپے کی بھی مل رہی ہے۔ ڈاکٹر مریض کش پالیسی کے تحت منہگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اسی طرح کینسر کے لیے عام ادویات بالکل بھی منہگی نہیں ہیں، لیکن ڈاکٹرز منہگے برانڈ تجویز کرتے ہیں۔منہگے برانڈ کی ادویہ تجویز کرنے سے عوام کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

وہ وزیراعظم اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے خط کی روشنی میں ڈاکٹرز کو عام فارمولا یا جینرک نام تجویز کرنے کا پابند بنائیں۔ دوسری جانب ان کا یہ مطالبہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ادویہ کی منظوری دیتے وقت معیار پر سمجھوتا نہ کرے۔ ڈریپ نے ایسی ایسی ادویات کی منظوری دے رکھی ہے کہ اگر بہ حیثیت ڈاکٹر خودانہیں ان میں سے کوئی دوا استعمال کرنے کی نوبت آجائے توان کے لیے اسے استعمال کرنامشکل ہوگا۔

بعض طبی ماہرین کا موقف یہ ہے کہ وہ خود فارمولا ہی لکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں، لیکن جب انہیں یہ معلوم ہو کہ اس فارمولے میں استعمال ہونے والا کوئی جزولالو کھیت کے جس کارخانے میں تیّار ہوا ہے اس کا معیار اس قابل نہیں ہے کہ مریض کو استعمال کرایا جائے تو پھر بعض اوقات نام لکھنا پڑ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ڈریپ میں ادویہ کی منظوری کا طریقہ کار اور معیار سخت کیا جائے اور ایک ہی فارمولے کی ادویہ کی قیمت بھی یک ساں مقرر کی جائے تو اس سے مریضوں کو زیادہ فائدہ ہوگا۔