آج کل ٹی وی پر سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے نوحے اور شکایتیں سُن کر ہر درد مند انسان کا دل بھر آتاہے۔ کوئی خیمے اور راشن نہ ملنے کی شکایت کرتا ہوانظر آتا ہے تو کسی کا دُکھ یہ ہے کہ تاحال اس کے علاقے تک کوئی سرکاری یا غیر سرکاری امدادی ٹیم نہیں پہنچی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سیلاب سے متاثرہ بہت سے علاقوں تک امدادی سامان پہنچانا تاحال کافی مشکل کام ہے، لیکن سوال یہ ہےکہ کیا آفات کے بعد دنیا بھر میں ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے؟ ہمیں اس ضمن میں حقایق کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ دیگر اقوام کے کام کے انداز کیا ہیں۔
آج سیلاب کے بہت سے متاثرین دویش دکشت کی زبان میں سرکاری حکّام اور امدادی ٹیمز کے لیے یہ کہتے نظر آتے ہیں:
یہ آنکھیں راہ تکتی ہیں، تمہیں یہ من بلاتا ہے
چلے آؤتمہیں سُونامرا آنگن بلاتا ہے
برستی روز ہیں آنکھیں،یہ بارش ہی نہیں رُکتی
تمہیں بھیگے ہوئے اشکوں کا یہ دامن بلاتا ہے
ایسے میں سرکاری لوگ غلام محمد قاصرؔ کے اشعار کی صورت میں یوں جواب دیتے محسوس ہوتے ہیں:
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
تصویر نہیں بدلی ، شیشہ بھی نہیں بدلا
نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ بھی نہیں بدلا
ہے شوقِ سفر ایسا اِک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
بیکار گیا بَن میں سونا مِرا صدیوں کا
اس شہر میں تو اب تک سِکّہ بھی نہیں بدلا
بے سَمت ہواؤں نے ہر لہر سے سازش کی
خوابوں کے جزیرے کا نقشہ بھی نہیں بدلا
مہارت بڑھانا ہوگی
ہم تقریبا دو دہائیوں سے ملک میں بڑی بڑی ناگہانی آفات کا مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں ،لیکن تاحال ان کی شدّت کم کرنے اور ان سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کم کرنے کے لیے کوئی ایک بھی موثر کوشش نہیں کرپائے ہیں۔ یہ بات پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی شخصیات اور ادارے بھی شدّت سے محسوس کررہے ہیں۔ چناں چہ رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے ہمیں مشورہ دیا کہ پاکستان کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی مہارت بڑھانا ہو گی، پاکستان کو آفات کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مالیاتی وسائل اور استعدادمیں اضافے کی ضرورت ہے۔
بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2010اور2015 میں آنے والے سیلاب نے ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں کسانوں کو32.6ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا، متاثرہ کسانوں کی مدد کے لیے حکومت پاکستان نے6.7ارب روپے فراہم کیےتھے، جو مطلوبہ رقم کا صرف18.5فی صد بنتا ہے۔
رپورٹ میں قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ فنڈز کی مالی اورتیکنیکی مہارت میں اضافے اوراس حوالہ سے لاجسٹک کےدائرہ کار میں توسیع کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔2010کے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ فنڈ قائم کیا گیا، ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق فنڈز کو فعال کرنے، مالیاتی طریقہ ہائے کار کے بہترانتظام وانصرام اور صوبوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے طریقہ کار کو معیاری بنانا اہمیت کاحامل ہے۔
بینک کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس عام طور پر قومی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 2 کروڑ ڈالر کی محدود ہنگامی فنڈنگ ہوتی ہے،ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے، نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کے تحت ڈیزاسٹر رسک فنانسنگ یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ یہ یونٹ قدرتی آفت کے خطرات کے بہتر انتظام کے لیے ذمے دار ہے اور اس نے اپنے لیے اہداف مقرر کیے ہیں۔
چین اور جاپان کے تجربات سے استفادہ
قوموں کی تاریخ میں قدرتی آفات اور حادثات رونما ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ہر قوم اپنے وسائل اور منصوبہ بندی کے مطابق ان آفات اور حادثات سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ حادثات سے ہونے والے نقصانات کی روک تھام کی جاسکے اور نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے والی اقوام میں جاپان کا شمار صف اول کی اقوام میں ہوتا ہے۔
جاپان نے آفات اور حاثادت سے نمٹنے کے لیے جس طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے اور اپنی منصوبہ بندی کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے آپ کو منوایا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ پانی میں گھرے ہوئے اس ملک میں زلزلے، سیلاب، سونامی وغیرہ آنا معمول کی بات ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ڈیزاسٹر جاپان میں کلچر کی طرح ہے۔ شاید اسی لیے جاپانیوں نے ہمیشہ منصوبہ بندی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے ان تھک کوششیں جاری رکھی ہیں اور ہر وقت اپنے آپ کو آنے والی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار رکھا ہوا ہے۔
جاپان میں حادثات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے سرکاری ٹی وی NHKکا ایک کلیدی کردار ہے۔ قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے NHK ٹی وی اور محکمہ موسمیات جاپان کا کردار بنیادی اور تاریخی ہے ۔ زلزلے ،سیلاب اور سونامی کے بارے میں پیشگی آگاہی اور نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور امدادی کارروائیوں میں دونوں سرکاری ادارے NHKاورجاپان میٹورولوجیکل ایجنسی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اپنے عوام کو جانی ومالی نقصانات سے نمٹنے کےلیے بھرپور انداز میں تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جس سے تباہی اور نقصانات میں کمی لائی جاتی ہے۔
11مارچ2011 کوآنے والے The Great East Japan Earthquake کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں 15,893افراد ہلاک ،2553لاپتا اور 6152زخمی ہوئے تھے۔ اس آفت سے نمٹنے کے لیے NHKٹی وی نے پہلے ہفتے میں 24 گھنٹے نشریات جاری رکھی تھیں۔
چوں کہ سب سے پہلے ایمرجنسی ریسپانس کے ذریعے حادثات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے، لہٰذا وہاں ابتدائی وارننگ کے ذریعے لوگوں کو جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ایمرجنسی نیوز دیکھ کر لوگ حادثے کی جگہ سے محفوظ مقام کا رخ کر لیتے ہیں اور پھر ریسکیو اینڈ سپورٹ آپریشن ہوتا ہے۔ امداد کے لیے ریسکیو آپریشن کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کے لیے NHK ٹی وی نشریات کا آغاز کرتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں حادثات کے بعد ریکوری اور ری کنسٹرکشن کے لیے امدادی کارروائیاں شامل ہیں جن میں کمیونٹی اور زندہ بچ جانے والوں کی ریکوری، محفوظ مقامات کی طرف منتقلی، طبی امداد کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں۔ آفات سے تباہی کے بعد دوبارہ عمارات اور گھروں کی پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر اور بحالی کےلیے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اسی طرح چین کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے اثرات کم سے کم کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ چین نے پانی محفوظ کرنے کے بنیادی انفرااسٹرکچر، موسم کی پیش گوئی کے طریقہ کار اور اس حوالے سے عوامی آگاہی کو بہتر بنا کر آفات کے خلاف واضح کام یابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اس ملک کو اب بھی سیلاب کا سامناکرنا پڑتاہے، لیکن نقصانات بہ تدریج کم ہو رہے ہیں۔ اس سب سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگر ایسا کرنا چاہیں تو۔۔۔۔
اموات میں کمی کے لیے منصوبہ بندی
ماہرین کے مطابق ناگہانی آفات اورحادثات کے نتیجے میں ہر سال ہونے والی ہزاروں اموات میں کمی کے لیے ہمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیےایک جانب حفاظتی اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور دوسری جانب ہنگامی طبی امداد کے مراکز کی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جان بچانے والی تدابیر کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی مدد سے اموات میں کمی کو یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ان تدابیر پر بروقت عمل در آمد کےساتھ یہ التزام بھی کرنا چاہیے کہ انسانی جان کے لیے خطرہ ننے والی کسی بھی صورتحال کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی ہدایات کے مطابق اس لائحہ عمل میں ہنگامی صورت حال میں دی جانے والی طبی امدادشامل ہے جو جائے حادثہ پر موجود تربیت یافتہ عام افراد فراہم کریں۔ یہی افراد ایمبولینس بھی بلوا سکتے ہیں جس میں جان بچانے والے ضروری آلات نصب ہوں اور طبی عملے کے کم از کم دو افراد موجود ہوں؛ ایک فرد مریض کی نگرانی اور طبی امداد کے لیے اور دوسرا ایمبولینس چلانے کے لیے۔ ضرورت پڑنے کی صورت میں، ایمبولینس کے عملے کو کسی متعلقہ اسپتال پہنچنے سے قبل وہاں کے عملے سے رابطہ کرنےکے قابل ہونا چاہیے۔ مریض کواسپتال کے حوالے کرنے کے وقت ایمبولینس کے عملے کو تمام اہم معلومات ہسپتال کو فراہم کرنی چاہییں جو اس کے بعد مریض کی صورت حال کا جائزہ لے اور مریض کی درجہ بندی کرے۔
ماہرین کے مطابق ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارےاسپتالوں میں ماہرین کی بین الشعبہ جاتی ٹیمیں نہیں ہیں۔ اس کے عالوہ ایمرجنسی کیئر کے نظام میں موزوں آلات سے لیس ایمبولینسوں اور تربیت یافتہ افرادکی بھی کمی ہے۔ متاثرہ فرد یا مریض کے اسپتال پہنچنے سے قبل دیکھ بھال، بڑے پیمانے پر اموات، بحالی، تحفظ اور آفات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والے ماہرین بھی بہت کم تعداد میں ہیں۔
واضح رہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت یا حادثے کے بعد خون ضایع ہو جانے کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی روک تھام ممکن ہے۔ اس کے لیے جائے حادثہ پر خون کا زیاں روکنا سب سے ضروری امر ہے اور سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ جائے حادثہ پر موجود افراد طبی عملے کے پہنچنے سےقبل ہی مریض کو ابتدائی طبی امداد فراہم کریں۔
سرگرمیاں مربوط کرنے کی ضرورت
بہت سے علاقوں میں طلبا کے کئی گروہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے عطیات جمع کرکے انہیں امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔یوں ہی دیگر کئی طرح کے افراد بھی ایسی کوششیں کررہے ہیں۔ لیکن رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ان افراد میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل ہیں جن کے پاس آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ جن چند لوگوں کو مقامی افراد کی مدد اور علاقوں سے قدرے آگاہی حاصل ہے وہ ایسے علاقوں میں کام کرنے کے طریقہ کار سے ناواقف ہیں۔
یہ دریست ہے کہ ان میں سے بعض افراد کو کووڈ 19 کی وبا کے دوران رضاکارانہ طور پر کام کرنے کا تجربہ ہے ، تاہم انہیں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کا تجربہ نہیں ہے۔ ایسے افراد اور گروہوں کی کوششوں کو مربوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک میں اس ضمن میں کافی کام ہوچکا ہے، لہذا ہمیں ان سے یہ سیکھنا چاہیے۔
ان میں سے بعض گروہوں، تنظیموں اورافراد کا کسی متاثرہ علاقے کے کسی فرد سے رابطہ ہوتا ہے، وہ ان کی راہ نمائی بھی کرتے ہیں کہ کس علاقے میں کس چیز کی ضرورت ہے اور وہاں راستوں کی کیا صورت حال ہے ، لیکن اس کام کے لیے صرف اتنی معلومات کافی نہیں ہوتیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ کوششوں کی آفت زدہ علاقوں میں اشد ضرورت ہوتی ہے، تاہم ان تمام کوششوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا نظام قائم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں رضاکارانہ یا انفرادی حیثیت میں متاثرہ علاقوں میں سامان لے جانے والوں کی وجہ سے یہ فایدہ ہوتا ہے کہ کم از کم سامان کی ترسیل توہو رہی ہوتی ہے، وہیں ریسکیو اور ریلیف کی مجموعی کوشش میں اس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مثلا انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا متاثرین کو کھانا چاہیے، پانی چاہیے یاانہیں شیلٹر کی ضرورت ہے۔
یہ ضروریات ان اداروں کو معلوم ہوتی ہیں جو فیلڈ میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور اپنا اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انفرادی حیثیت میں لوگ ایک علاقے میں وہی چیز پہنچا دیتے ہیں جو وہاں پہلے سے وہاں موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح کئی علاقے ایسے ہوتے ہیں جنہیں وہ اشیا ملتی ہی نہیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ نقصان بھی ہوتا ہے کہ کئی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں کو پہلے ہی امداد مل چکی ہے اس لیے وہ ادہر نہیں جاتے۔
سوشل میڈیا پر کچھ امدادی رضاکاروں کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں شہریوں کی طرف سے بعض چیزیں ایسی بھی پہنچائی جا رہی ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے یا جو فوری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ مثلا پرانے کپڑے یا جوتے، کمبل، رضائیاں، پکا ہوا کھانا یا بغیر ابلا ہوادودھ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے تک پکا ہوا کھانا لے جاتے ہوئے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اگر راستوں کی خراب صورت حال کی وجہ سے کھانے کی ترسیل میں 24 گھنٹے یا اس سے زیادہ تاخیر ہوتی ہے تو پکا ہوا کھانا خراب ہو جاتا ہے جس کا استعمال کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے اور یہ مدد ایک قدرتی آفت کے بعد دوسری آفت پیدا کر سکتا ہے۔
ان کی تجویز ہے کہ کھانا متاثرہ علاقے کے قریب ترین مقام پر پکایا جائے تاکہ مناسب وقت میں متاثرین تک پہنچایا جاسکے۔ رضا کار بتاتے ہیں کہ کھڑے پانی کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور جلد کی بیماریاں اور ڈائریا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ملیریا اور ڈینگی بھی عام ہے۔ بجلی موجود نہیں اور پانی کے نلکے بھی کام نہیں کر رہے۔ یوں متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ پوری پوری بستیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ لوگوں میں بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں پر تو پھر بھی کچھ توجہ دی جا رہی ہے، لیکن جانوروں کا بہت برا حال ہے۔ ان تک خشک چارہ اور طبی امداد پہنچانا بہت مشکل ہے۔
رضاکاروں کے مطابق متاثرین کو ان اشیاکی زیادہ ضرورت ہے:پینے کا صاف پانی، خشک خوراک ، چادریں (کمبل یا رضائیوں کی جگہ صرف صاف چادریں)، سلے ہوئے کپڑے جو فوری پہنے جا سکیں، پلاسٹک کے جوتے (عام جوتے وہاں قابل استعمال نہیں ہیں، جگہ جگہ کھڑے پانی میں عام جوتے کی سلائی کھل جاتی ہے)، خشک دودھ (چھوٹے بچوں کے لیے)، دودھ کے ڈبے، جانوروں کے لیے خشک چارہ،خیمے، وغیرہ ۔
مرکزی ادارے کا کردار
ماہرین کے بہ قول مؤثر ریلیف کی کوششوں کے لیے ضروری ہے کہ مختلف انفرادی کوششوں اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جائے۔ اصولی طور پر ایک سرکاری ادارہ تمام امدادی کارروائیوں کی نگرانی اورراہ نمائی کرتا ہے اور باقی تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس کے تعاون سے کام کرتے ہیں۔ ان میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ مرکزی ادارہ این ڈی ایم اے ہے۔
بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کے پاس تربیت یافتہ عملہ بھی ہوتا ہے اور مقامی علاقوں میں پہلے سے ایک نیٹ ورک موجود ہوتا ہے جسےاستعمال کرکے امداد کو مؤثر طریقے سے متاثرہ لوگوں تک بروقت پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں اپنے طور پر بھی امداد کی رقم مختلف اداروں سے حاصل کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں 2015 سے قبل اس نوعیت کا نظام موجود تھا جہاں غیر ملکی یا بین الااقوامی تنظیمیں اور ان کے کلسٹرز یا گروپس موجود تھے۔ 2010کے سیلاب میں بھی ان تنظیموں نے امدادی کام کیا تھا۔ تاہم اس مرتبہ ایسی تنظیمیں زیادہ تر فیلڈ میں امدادی کام کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ چند مقامی غیر سرکاری تنظیمیں ابتدا ہی سے امدادی کام کر رہی ہیں تاہم ان میں ایسی تنظیموں کی تعداد کم ہے جن کے پاس بڑا اور مؤثر نیٹ ورک ہے۔
2015 میں حکومت نے آئی این جی اوز کے حوالے سے ایک نئی پالیسی کا اجرا کیاتھا جس کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی آئی این جی اوز کو وزارتِ داخلہ سے این او سی لینا اور ایک میمورینڈم آف انڈر سٹینڈنگ(ایم او یو) پر دست خط کرنا ضروری تھا۔ اس میں عموماً چھ ماہ کا وقت لگتا ہے۔بہ ظاہر ایسی پالیسیوں کی وجہ سے کئی آئی این جی اوز نے پاکستان میں گزشتہ چند سال میں اپنا کام یا تو محدود کر لیا یا پھر وہ بالکل دکھائی نہیں دیتیں۔
پاکستان میں2010کے سیلاب کے بعد آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مرکزی ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے قائم کیا گیا۔ بعد میں صوبائی سطح پر پی ڈی ایم ایز اور ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایم ایز بھی وجود میں آئے۔ کسی بھی آفت کی صورت میں وفاق کی سطح پر این ڈی ایم اے ہی تمام تر ریلیف، ریسکیو اور بحالی کی مہم کی قیادت کرتا ہے، باقی تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے، آئی این جی اوز، این جی اوز وغیرہ اس کی معاونت سے کام کرتی ہیں۔
ان سرکاری اداروں کو بنانے کا مقصد بہ ظاہر یہ تھا کہ کسی بھی آفت کی صورت میں ریلیف اور ریسکیو وغیرہ کے کام میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب اس نوعیت کا نظام موجودہے تو کیا حالیہ سیلاب کی صورت حال میں امداد کی فراہمی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے؟ آفات سے نمٹنے کے طریقہ کار یعنی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے مطابق ان کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت ریلیف اینڈ ریسکیو کی مہم میں بہ ظاہر کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آ تی۔ مؤثر طریقے سے امداد کو ان علاقوں تک پہنچانا، جہاں اس کی ضرورت ہے، کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ جس وقت سیلاب کی پیش گوئی کی گئی یا وارننگ جاری کی گئی تھی اسی وقت سامان ان علاقوں میں محفوظ مقامات پر پہنچا دیا جاتا۔
اس طرح ضرورت پڑنے پر اس کی بروقت ترسیل ممکن ہوتی۔تاہم ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بعد میں تمام اداروں کو متحرک کیا جائے اور وسائل کو حرکت میں لایا جائے۔ لیکن حکومتی سطح یا پھر این جی اوز کی سطح پر بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مقامی این جی اوز ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتیں،اس لیے ان کے درمیان کسی قسم کی کوآرڈی نیشن نہیں ہوتی۔ این جی اوز زیادہ تر انفرادی حیثیت میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ سرکاری اداروں پر اعتماد کا فقدان بھی ہے۔ 2015 سے قبل اقوامِ متحدہ کے کئی ادارے اور تنظیمیں آفات کی صورت میں بڑھ چڑھ کر کام کرتی تھیں۔ اس مرتبہ وہ بھی فیلڈ میں دکھائی نہیں دیے۔ 2010کے سیلاب میں انہوں نے امدادی کاموں کی قیادت کی تھی اور سرکاری اداروں نے ان کی معاونت سے کام کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اقوامِ متحدہ کا ادارہ ان کی اس معاونت سے کوئی زیادہ خوش نہیں تھا۔