ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کی مخالفت اور غلط تشریح نے خواجہ سراؤں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور ان پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار خواجہ سراؤں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے جمعہ کو ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 سے متعلق پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
پریس کانفرنس سےانٹر ایکٹیو الائنس کی سربراہ بندیا رانا، شہزادی رائے، تحریک نسواں کی سربراہ شیما کرمانی، سندھ کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن نزہت شیریں، نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کی رکن انیس ہارون، بیبو حیدر و دیگر نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ انتخابات سے قبل اس مسئلے کو اچھالنے کا مقصد ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اگر مذہبی جماعتوں کو بل پر تحفظات ہیں تو ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں، اس بل کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو بند کیا جائے۔
مقررین نے بل کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور مذہبی جماعت کے سینیٹر کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی آڑ میں سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شیئر کرکے ہماری زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ اس بل میں کہیں بھی ہم جنس پرستی کا ذکر نہیں اور نہ ہی ایک جنس کے افراد کی شادی کا کوئی ذکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے بعد خواجہ سراؤں کو دیئے گئے شناختی کارڈ میں جنس کی جگہ X لکھا جائے گا جس کے بعد وہ شادی نہیں کر سکیں گے لیکن اس قانون سے خواجہ سراؤں کو جائیداد میں حصہ ملے گا، انہیں بنیادی حقوق ملیں گے جبکہ ان کے لئے عمرہ حج پر جانا بھی آسان ہوگا لیکن اس بل کے خلاف سیاست کی جا رہی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ اس بل میں ترمیم یا ختم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ یہ خواجہ سراؤں کے تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اسے ہم جنس پرستی سے جوڑنا غلط ہے۔
انہوں نے دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دینی جماعتوں کے قائدین بیٹھ کر ہم سے بات کریں، ہم ان کے تحفظات کا ازالہ کریں گے اور انہیں بتائیں گے اس قانوں میں شریعت سے متصادم کچھ نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کے قانون کے مخالفین کو شرم آنی چاہیے۔ خواجہ سرا بھی پڑھنا، لکھنا اور نوکری کرنا چاہتے ہیں، انہیں حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔