• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

کوئین میری اسکول /کالج کا یہ سوئمنگ پول کبھی 1989ء تک زیرِاستعمال رہا اسکول اور کالج کی طالبات شام کو اس تالاب میں تیراکی کرتی تھیں بڑا خوبصورت ماحول تھا پھر آہستہ آہستہ اس کی مشینریاں اور ٹیوب ویل خراب ہو گئے پھر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی اس پول کی دیوار کی دوسری طرف میاں ممتاز دولتانہ کا محل تھا کیا محل تھا ہم نے وہ سارا محل دیکھا ہوا ہے اور میاں ممتاز دولتانہ سے انٹرویو بھی کیا ہوا ہے۔ ان کا ایک ملازم جو میاں صاحب کی عمر کا ہی تھا بڑا تمیزاور آداب والا تھا میاں ممتاز دولتانہ کی کیا لائبریری تھی پتہ نہیں وہ قیمتی کتابیں اور لائبریری کہاں گئی وہ بڑی تاریخی کتب تھیں جو ہم نے دیکھی تھیں میاں ممتاز دولتانہ ایک خاص انداز میں بیٹھ کر بات چیت کیا کرتے تھے اس لائبریری میں ایک آرام دہ کرسی جو بڑے اور لمبے ریشمی گہرے لال رنگ کے موٹے پردے، پرانے وقتوں کا خوبصورت فرنیچر، پھر اس محل کا خوبصورت لان جس میں فوارے بھی تھے۔لان کے درمیان میں ایک بڑا گول فوارہ تھا ہم کئی مرتبہ اس محل کو دیکھنے چلے جاتے تھے ،کیا شان وشوکت والا محل تھا سب کچھ تو ختم ہوگیا آج وہاں دو دومرلے کے مکان اور دکانیں بن چکی ہیں۔ اندازہ لگائیں اس محل کی جگہ پر دو سو کے قریب مکانات بن چکے ہیں۔ ڈیورنڈ روڈ سے شروع ہونے والا یہ محل گڑھی شاہو چوک اور علامہ اقبال روڈ کے قریب تھا اب کسے پتہ کہ یہاں کبھی دولتانہ ہائوس ہوتا تھا ایک کالے سے گیٹ پر ٹین پر صرف دولتانہ ہائوس لکھاہوا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس محل پر جو مکانات تعمیر ہوئے ہیں ان سب کی کھڑکیاں کوئین میری اسکول کے گرائو نڈ کی طرف کھلتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام مکانات اسکول کی دیوار کے ساتھ ہیں اب بھلا اس پر وہ اسکول کا تصور کہاں گیا ۔کوئین میری اسکول کے برامدوں تک میں آج بھی لکڑی کی جالیاں لگی ہوئی ہیں یہ ہمیشہ پردہ اسکول کے نام سے بھی مشہور رہا اس اسکول /کالج کی بائونڈی وال پر جو پتھر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔اسکول /کالج کے تیراکی کے تالاب پر پول کے مشین روم کے باہر دیوار پر ایک بورڈ نصب ہے۔ سنگ مرمر کے اس پتھر پر کندہ الفاظ اب مٹنے شروع ہو رہے ہیں پھر بھی ہم جو الفاظ پڑھ سکے وہ درج کر رہے ہیں۔

JOGINDER SINGH BENCHES PRE SENTED BY AMAR SINGH BHULLER TO COMMEMORATE VICTORY CERMONY MAY 1945

اسکول کی طرف کی عمارت پر ایک اور تاریخی اسٹون یعنی پتھر نصب ہے جس کے الفاظ مدہم ہو چکے ہیں پھر بھی ہم نے بڑی محنت سے پڑھ لئے جو درج ہیں ۔

QUEEN MARY COLLEGE JUNIOR SCHOOL THIS STONE WAS LAID BY BEGUM AMIN -UD- DIN MAY THE 29TH 1954

اس تاریخی کالج میں ایک ہوسٹل کا افتتاح گورنر مغربی پاکستان جنرل محمد موسیٰ نے کیا تھا اندازہ لگائیں کبھی اس تعلیمی ادارے کا معیار کتنا بلند تھا یہ ایک پیتل کی پلیٹ ہے جس پر لکھا ہے۔

QUEEN MARY COLLEGE MARYAM UNDER GRADUATES HOSTEL OPENING CEREMONY PERFORMED BY GENERAL MUHAMMED MUSA . HPK. HJHOAMDE GOVERNOR OF WEST PAKISTAN ON.27TH MAY1967

یہ لاہور کا آج بھی واحد اسکول و کالج ہے جہاں پر پہلی جماعت سے ماسٹر لیول اور بی ایس آنرز تک کی بچیاں ہوسٹل میں رہتی ہیںاس کا پرانا ہوسٹل بڑا تاریخی ہے ۔یہ طالبات کا پہلا اور شاید آخری تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر کسی زمانے میں دس بستروں کا ایک اسپتال بھی تھا جہاں پر ایک لیڈی ڈاکٹر اور ڈسپنسر موجود ہوتے تھے اب وہاں صرف دو بیڈز کا ایک چھوٹا سا کمرہ ایمرجنسی کے لئے بنا دیا ہے تاہم کوئی لیڈی ڈاکٹر یہاں پر نہیں۔انگریزوں کے بنائے ہوئے اس اسپتال کو اب ڈے کیئر سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ہمارے نزدیک بالکل غیر مناسب ہے ڈے کیئر سنٹر کہیں بھی بنایا جا سکتا تھا ۔

کالج میں اسکول سیکشن میں ایک بڑی خوبصورت بارہ دری ہے جو لال اینٹ کی ہے اس عمارت کے تین اطراف میں چار چار بڑے بڑے در ہیں جو کبھی کھلے ہوتے تھے کسی پرنسپل نے اس کے ان بارہ دروں پر شیشہ اور بدنما لوہے کا فریم لگا کر اس عمارت کی خوبصورتی کو تباہ کر دیا حالات یہ ہیں کہ عمارت کے اوپر گھاس اگ چکی ہے اس عمارت کے اوپر سیڑھیاں بھی جاتی ہیں اور ایک سفید پتھر پر تحریر ہے ۔

KHURSHID BEGUM

BORN- 1-1-1903

DIED 4-7-1922

اس خوبصورت عمارت کو محفوظ کرکے میوزیم بنانا چاہئے تھا جیسے لاہور کالج (اب یونیورسٹی ) کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا نے بڑا خوبصورت میوزیم بنایا ہے اس اسکول میں کبھی لڑکیاں فراک اور لڑکے نیکر پہن کر آتے تھے ڈسپلن میں یہ اسکول ،کانونیٹ آف جینززاینڈ میری کا مقابلہ کرتا تھا اس اسکول میں لڑکے ایچیسن کالج کے امتحان کے لئے تیار کئے جاتے تھے ۔گوروں کے زمانے میں اور پھر پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اس اسکول کو ایچیسن کالج کی نرسری بھی کہا جاتا تھا۔کیا زبردست اسکول تھا کوئین میری اسکول اور کالج کا بیڑہ غرق 1970ء کے بعد شروع ہوا جب علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات نے سفارشی داخلے کرانے شروع کر دیئے ۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین