اِن دِنوں ملک میں ہر طرف آڈیو لیکس کا چرچا ہے۔ اہم ترین شخصیات کی (اور وہ بھی وزیر اعظم ہاوس میں) گفتگو کا خفیہ طور پر ریکارڈ ہونا اور کہیں دُور بیٹھے ہیکر کے ہاتھ لگ جانا یقینا بہت سنگین معاملہ ہے۔اس معاملے کے کئی ملکی اور غیر ملکی پہلو ہیں۔
ان معاملات پر نظر رکھنے والے افراد کا شکوہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی سائبر سکیورٹی ایجنسی صحیح طرح سے فعال نہیں ہے، جو پوری طرح اس مسئلے کو دیکھے اور نہ ہی ہماری قومی سطح کی سائبر سکیورٹی پالیسی میں حکومت نےجو عزم کیا تھا، اس پر عمل کیا گیا۔ پوری دنیا میں یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بجائے سائبر سکیورٹی ایجنسی کا ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں اور ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کو محفوظ بنائے۔ جو کچھ سامنے آچکا ہے اس کے تناظر میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جن اجلاسوں کی کارروائیاں ریکارڈ کرکے لیک کی گئیں ان میں کون کون شریک تھا۔ اب تک جتنی آڈیو لیکس ہوئی ہیں یا جو ممکنہ طور پر ہوں گی،کیا اُن میں کوئی شخص ہمیشہ موجود تھا یا کون سا کمرہ زیادہ تر استعمال ہوا، اگر ایسی ہرمیٹنگ میں شہباز شریف موجود تھے تو یہ ممکن ہے کہ ان کا فون ہیک ہوا ہو۔
ماہرین کے مطابق چوں کہ ایک سابق اور ایک موجودہ وزیراعظم کی آڈیو لیک ہوچکی ہیں، اس لیے بہ ظاہرایسا لگتاہے کہ بگنگ وزیراعظم ہاؤس کی کی گئی ہے نہ کہ کسی مخصوص آلےکی۔ اس نکتے کو سامنے رکھیں اور ان دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پررافع بلوچ نامی آئی ٹی کے نوجوان ماہرکی زیر بحث ٹوئیٹس کو دیکھیں تو دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ مذکورہ نوجوان نے ایک برس قبل سابق حکومت کوایک خط لکھا تھاجوآج کل سوشل میڈیا پر دوبارہ گردش کر رہا ہے۔
اس خط میں انہوں نے یہ واضح موقف اختیار کیا تھا کہا سمارٹ فون ڈیوائسز اور ٹیبلٹس کا داخلہ اہم اجلاسوں میں ممنوع ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خط میں روس کی مثال دی تھی کہ وہاں الیکٹرونک ٹائپ رائٹرزکے ذریعےاورکاغذپراجلاسوں کی رودار محفوظ کی جاتی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک فرانزک ٹریل باقی رہ جاتی ہے جس سے ڈیوائس کی با آسانی شناخت ہوجاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اب تحقیقات اس طرح ہونی چاہییں کہ جن نشستوں کی گفتگو باہر آئی ہے ان میں شامل افراد کے فونز، ان اجلاسوں کے انٹرنیٹ راؤٹرز، فائر وال وغیرہ کو تحویل میں لے کران کا فرانزک ہوناچاہیے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ کہاں سائبر سکیورٹی کے مسئلے نے جنم لیا۔ تمام متعلقہ آلات کی بھی گہری جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے آج بہت کچھ ممکن بنا دیا ہے، لہذا کسی حد تک ممکن ہےکہ یہ ریکارڈنگزکسی بگنگ ڈیوائس کے ذریعےکی گئی ہوں، ویسے آج کل ہرا سمارٹ فون بہ ذات خود ایک بگنگ ڈیوائس کےطورپر کام کرسکتا ہے۔تاہم پرائم منسٹر ہاؤس کا ایک ضابطہ ہوتا ہے ،ڈی بگنگ معمول کا عمل ہے۔حکّام کو اس بارے میں بھی تحقیق کرنی چاہیے۔
حفاظت کے منصوبے
ہم میں سے بہت سے افراد کو شاید یہ یاد نہ ہوکہ بیس اپریل 2018کو پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ مالی سال 2018۔2019 کے بجٹ میں وزیرِ اعظم ہاؤس کی حفاظت کے لیے دونئے منصوبوں کی غرض سے ایک کروڑپچپن لاکھ روپے مختص کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں کی ریموٹ مانیٹرنگ اور سیٹیلائٹ ریکارڈنگ کو روکنے کے لیے بلاک وائزنگ وائس ڈیٹا کا نیا سیٹ نصب کیا جانا تھا۔ مذکورہ رقم ان آلات کی تنصیب پر خرچ ہونی تھی۔ اس ضمن میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں دو نئے منصوبے شامل کیے گئے تھے۔
وفاقی کابینہ کی جاسوسی
جوہری بم اور خِطّے اور دنیا میں اہم سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے بہت سے دوستوں کے ساتھ اس کے متعدد دشمن بھی ہیں۔ چناں چہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک کے ذمّے داروں کو بھی بہت سے معاملات میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتے ہیں کیوں کہ ہم پر ہر لمحے نظر رکھنے والے کبھی اپنے کام سے غافل نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس کمرے میں جاسوسی کرنے والے سگنلز پکڑے گئے تھے جس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونا تھا۔ چناں چہ حفاظتی نقطہ نظر سے وہ اجلاس اس وقت ملتوی کردیا گیا تھا۔
اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمن ملک کا اس ضمن میں جون 2015 میں دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میں دو غیر ملکی سفارت خانے سابق صدر آصف علی زرداری اور اس وقت کے وزیرِ عظم نواز شریف کی جاسوسی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دورِ حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی اور دو غیر ملکی سفارت خانےٹیلی فون ٹیپنگ میں ملوث رہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اہم ترین عہدے دار بھی جاسوسی سے محفوظ نہیں۔ ہمارے دورِ حکومت میں ایوانِ صدر سمیت تمام سرکاری محکموں کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی ہے۔ دو غیر ملکی سفارت خانےٹیلی فون ٹیپنگ میں بھی ملوث رہے۔ رحمن ملک کا کہنا تھاکہ ٹیلی فون ٹیپنگ، لیزر مائیکرو فون اور سییٹلائٹ کے طاقت ور سگنلز کے ذریعے مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان سگنلز کو روکا نہیں جا سکتا۔
ایک مرتبہ ایسے ہی سگنلز پکڑے جانے کی اطلاع ملی جنہیں نہ روکے جانے کے سبب کابینہ کا اجلاس موخر کرنا پڑ اتھا۔ وہ سگنلز ڈپلومیٹک انکلیو کی جانب سے موصول ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ان کے ذاتی فون سمیت سابق صدر آصف زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔ تاہم سابق وزیرِ داخلہ نے ان دو سفارت خانوں کا نام نہیں لیا تھا جن کے سامنے پاکستان اتنا بے بس تھا۔
رحمن ملک کا کہنا تھا کہ غیر متعلقہ افراد 2012 میں وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور ممکن ہے کہ ایسا اب بھی ہو رہا ہو۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے یہ اور دیگر رازوں کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ملک میں ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبےکے معاملات کی ریگولیٹری سے متعلق ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے یہ انکشافات اس وقت کیے تھے جب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر اسمعیل شاہ نے ان کے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ جاسوسی کی روک تھام کسی اور کی ذمّے داری ہے۔
اس موقعے پر رحمن ملک نے اپنی وزارت کے اس دور کو یاد کیا تھاجب جاسوس سگنلز وزیرِ اعظم ہاؤس کے کیبنٹ روم میں پکڑے گئے تھے، مگر چونکہ پاکستان کے پاس جاسوسی کی سرگرمیوں کی روک تھام کی صلاحیت زیادہ نہیں ،لہٰذا اس وقت کابینہ کے اجلاس کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ان کے گھر کی دو کھڑکیاں سیمنٹ لگا کر بند کرنا پڑی تھیں تاکہ جاسوس سگنلز کو بلاک کیا جا سکے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی انٹیلی جینس کے ادارے، سی آئی اے نے2013 میں پاکستان میں اپنی جاسوسی کی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تھا جس کے مطابق اس نے سابق صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم (2015 میں) نواز شریف اور دیگر پاکستانی راہ نماؤں کے فونز ٹیپ کیے۔
سابق وزیرِ داخلہ کے ان انکشافات سے تقریبًا ایک برس قبل یعنی جولائی 2014 میں امریکی ذرایع ابلاغ نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے پیپلز پارٹی کی جاسوسی اور نگرانی کی تھی۔ اسی عرصے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مصر کی حکم راں جماعت اخوان المسلمون کو بھی امریکی جاسوسی کے نظام نے مانیٹر کیا تھا۔اس بارے میں حاصل کردہ معلومات کا ڈیٹا بھی سامنے آگیا تھا۔ اس وقت وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں بھی بی جے پی کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان کے نو کمنٹ اور مبہم بیانات اور اشاروں سے بھی تصدیق ہوگئی تھی کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی نے پی پی پی، بی جے پی اور اخوان المسلمون سمیت پانچ سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کی تھی۔
اس انکشاف کے لیے ان جماعتوں کو مفرور امریکی ایڈورڈ اسنوڈن کا شکر گزار ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اُن ہی دنوں رحمن ملک نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ جب ان کے دور میں حکومت کی کابینہ کا اجلاس ہوتا تھا تو بعض اوقات مختلف سگنلز کو حفاظتی اداروں کے ذریعے کلیئر کرایا جاتا تھا۔ اُن کا یہ بیان کسی سائبر نظام کے ذریعے جاسوسی کی نشان دہی تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو اس انکشاف پر امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت کاروں کو نئی دلی طلب کرلیا تھا اور تمام صورت حال جاننے اور اعترافات کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کی امریکی یقین دہانی حاصل کی تھی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی۔ ظاہر ہے کہ امریکا عالمی طاقت ہے اور اس کے مفادات امریکی سرحدوں سے باہر بھی ہیں۔ لہٰذا اپنے عالمی مفادات کے لیے اس کا جاسوسی کانظام بہ قول ایڈورڈ سنوڈن 193 ممالک اور اُن کے سربراہان اور حکومتی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔
سب سے بڑا خطرہ
جاسوسی کے لیے کچھ سننے والے آلات استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن جو چیز کسی کو کم زور بناتی ہے وہ اس کا اپنا اسمارٹ فون ہے، جسے بغیر کسی جسمانی رابطے کےکہیں بھی رکھا جا سکتا ہے اور واٹس ایپ جیسی محفوظ ایپ کے معاملے میں بھی اسے ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔کسی کا دھیان اس طرف نہ جانے کے ذریعے، اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ کو ریکارڈنگ ڈیوائس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے خواہ وہ بند ہو یا انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہو۔
عام فون یا موبائل کالز کو کبھی بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جاتا، لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ واٹس ایپ جیسی ایپ کے ذریعے محفوظ سیلولر کالز کو ٹارگیٹڈا سمارٹ فون کو ایک فائل کے ذریعے انفیکٹ کرکے ریکارڈ کیا جا سکتاہے جس میں سننے والے پوشیدہ سافٹ ویئر موجود ہوتاہے جو صارف کو کوئی اطلاع دیے بغیرخودانسٹال ہوجاتا ہے۔
موبائل فون کی کم زوری کے بارے میں انٹرنیٹ پر دست یاب معلومات کے مطابق موبائل فون کو پروگرام کیا جا سکتا ہےتا کہ وہ وائبریٹ نہ ہو،بیل نہ بجے یا کوئی ظاہری علامات پیدا نہ کرے کہ اسے کال کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد وہ فون خودکارطریقے سے جواب دیتاہے اور کال کرنے والا کمرے میں ہونے والی گفتگو سن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ نئی اسمارٹ فون ایپس آپ کے فون، مائیکروفون اور کیمرے کو بہت حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
ایپ کی ایک نئی کلاس سامنے آئی ہے جو آپ کے فون میں موجود مائیکروفون کو ایک خفیہ سننے والے آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایپس یہ کہہ کر رازداری کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ صرف آواز کے نمونوں کو ریکارڈ کرتی ہیں، حقیقی آوازوں یا بات چیت کو نہیں۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی ہے تو کسی اور کے ہاتھ میں ناں، اوراسے کسی حد تک استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ جب اسمارٹ فون پر جی ایس ایم فنکشن کو غیر فعال کردیا جاتا ہے، تب بھی اِن بلٹ کیمرے کو سننے والے آلے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسمارٹ فون کو وڈیو ریکارڈ کرنے اور تصاویر لینے، پروڈکٹ کی معلومات، پروٹو ٹائپ وغیرہ چوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چوں کہ کیمرے کے بغیر موبائل فون ڈیوائس خریدنا عملی طور پر ناممکن ہے، اس لیے یہ ایک خطرہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ڈیجیٹل رائٹس
ایسے اسکینڈلز صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر سے سامنے آرہے ہیں۔اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں انقلابی پیش رفت ہے۔ دوسری وجہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا زبردست انقلاب اور اس کا پھیلاؤ ہے۔ موبائل فونز اور کیمروں کا پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑھتا ہوا غلط استعمال بہت اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ ان حالات میں ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والے افراد اور ماہرین کافی عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ خفیہ کیمرے یا نگرانی کی دیگر ٹیکنالوجیز کے استعمال اورخلوت یا پرائیویسی قایم رکھنے کے معاملے میں قواعدوضوابط کیا ہیں؟کچھ عرصہ قبل ملک میں سنیما گھروں اور سیف سٹی پراجیکٹ کی وڈیوز لیک ہوئیں۔
یہاں یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ آپ نے سی سی ٹی وی کیمرے تو لگا دیے، لیکن ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی حفاظت کا نظام وضح نہیں کیا۔ کس کو اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے؟ اسے رئیل ٹائم میں کون دیکھتا ، کون ریکارڈ کرتاہے؟ کچھ عرصے بعد اس ڈیٹا کو ضایع کرنے کے ایس او پیز کیا ہیں؟ ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جہاں کیمرے لگے ہوں وہاں تختی نصب ہو کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔
سنیما گھروں میں جانے والے کتنے لوگوں کو پتاہے کہ اسکرین کے بالکل سامنے کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں خفیہ کیمرے لگے ہیں ،مگر وہاں کی انتظامیہ ہی غلط کام میں ملوث ہو تو آپ کیا کریں گے؟خفیہ کیمروں کی نا جائز ریکارڈنگز پر پر فوری ایکشن لیا جانا چاہیے۔ آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگوں کو پتا ہو کہ رازداری ان کا قانونی حق ہے اور وہ کسی سے بھی یہ کہہ سکیں کہ آپ ہماری آڈیو یا وڈیوبغیر اجازت لیےاپنے پاس محفوظ نہیں کر سکتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی خفیہ ریکارڈنگ کی گئی ہے تو آپ کے پاس یہ حق ہونا چاہیے کہ آپ اسے کسی فورم پر جا کر چیلنج کر سکیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ایسا نظام موجود نہیں۔ جب 2020 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا تو کمیٹی نے نہ صرف جامعہ بلوچستان کے اسکینڈل کو دیکھا بلکہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون کےبِل کے بارے میں ، جو آئی ٹی کی وزارت میں پڑا تھا ، بھی دریافت کیا کہ اس کی منظوری میں کیا رکاوٹ ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں نجی اورسرکاری ادارے بغیر کسی پالیسی اور قانون کے، لوگوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے اسے استعمال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے قانون آ بھی جائے تو کیا اس پر عمل درآمد کروایا جاسکےگا؟ اس ضمن میں جو بل سامنے آیا اس میں صرف نجی اداروں کا ذکر ہے۔
نادرا اور سیف سٹی پراجیکٹ کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ یہ ادارے قومی سلامتی سے متعلق ہیں، اس لیے بل میں ان کا ذکر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سرکاری ادارے اس کے زمرے میں نہیں آتے تو پھر کون آتا ہے؟ آپ کا شناختی کارڈ بایومیٹرک ہے آپ کو کچھ نہیں پتا کہ آپ کا شناختی کارڈ نادرا میں کس کے پاس ہے؟
اس شعبے کے سرگرم افراد کے بہ قول جب کسی مسئلے کو طویل عرصے تک ٹالا یا نظر انداز کیا جائے تو پھر بات آپ کے تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتی ہے جہاں خفیہ کیمروں کی فوٹیج لڑکے، لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں اکتوبر 2021کے دوسرے ہفتے میں ہونے والی ایک عدالتی کارروائی کافی اہمیت کی حامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سلمان صوفی کی درخواست پر سماعت کی جس میں سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں ایک عام شہری کی پرائیویسی پامال کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیےیہ اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد درخواست تھی جو لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی۔ کچھ عرصے میں پبلک مقامات پر لگائے گئے پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور عام شہریوں کی پرائیویسی پامال کی گئی۔
جسٹس جواد حسن نے درخواست پر ابتدائی کارروائی کے بعد اسے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا اور وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے جواب مانگ لیا تھا۔ شہریوں کی پرائیویسی کو پامال کرنے کا ایک واقعہ لاہور کے جدید طرز کےسنیما گھر میں پیش آیا تھا۔ہال میں بیٹھے کچھ لوگوں کی نجی نوعیت کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔
اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کی خبروں کو بھی درخواست میں بنیاد بنایا گیا تھا۔ انس مشہود ایڈووکیٹ نے سنیما گھر کے علاوہ دیگر واقعات کو بنیاد بنا کر درخواست دائر کی اور اس میں ان واقعات کے بارے میں اخباری تراشے اور تصاویر کو لف کیا گیاتھا۔درخواست گزار سلمان صوفی کے وکیل انس مشہود عدالت میں پیش ہوئے اور سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے نکات پر دلائل دیے۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے بنائی گئی فوٹیج میں شہریوں کی پرائیویسی کا دھیان نہیں رکھا جاتا اور کئی مرتبہ ایک عام شہری کی پرائیویسی مجروح ہوتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے رُوبہ ُرو درخواست گزار کے وکیل انس مشہود نے مختلف ممالک میں پرائیویسی کے قوانین کا حوالہ دیا اور یہ بتایا کہ وہاں پرائیویسی کی پامالی کے مسائل سے کس طرح نمٹا گیا۔
سلمان صوفی کے وکیل نے توجہ دلائی کہ پبلک مقامات پر لگائے گئے سرکاری اور نجی سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے بنی ہوئی فوٹیج کو وائرل کرنے کے واقعات رونما ہوئے جو بینادی حقوقِ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ پبلک مقامات پر لگائے گئے سی سی ٹی کیمرے کی فوٹیج وائرل کرنے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا ٹھوس اور موثر طریقہ کار ہونا چاہیے۔
پبلک مقامات پر پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوتے ہیں لیکن ایسے نوٹس آویزاں نہیں کیے جاتے جن سے عام شہری کو کیمرا نصب ہونے کا علم ہو۔ انہوں نے استدعا کی کہ جہاں بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہوں وہاں عوامی نوٹس آویزاں کرکے اس کی موجودگی کی اطلاع دی جائے۔وکیل نے یہ بھی نشان دہی کی کہ پبلک مقامات اور مختلف دکانوں کے علاوہ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے سے بنی فوٹیج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کسی بھی طور پرکسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں لوگوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے قوانین توہیں، لیکن ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
لاہور ہائی کورٹ کے روبہ رو انس مشہود ایڈووکیٹ نے نکتہ اٹھایاتھا کہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر شہری کی پرائیویسی کا تحفظ یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے قانون سازی کی جائے۔
مخالفت اور موافقت
ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سرویلنس مارکیٹ کا کل مالیاتی حجم سینتیس اعشاریہ سات ارب امریکی ڈالرزکے مساوی ہوچکا ہے۔ دوسری جانب ان کے استعمال کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف دنیا بھر میں انسانی حقوق کی انجمنیں آواز اٹھا رہی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر کیمرے نصب ہونے سے لوگوں کی پرائیویسی بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ تاہم سرکاری حکام تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کیمروں کی مدد سے دنیا بھر میں لاتعداد جرائم ہوتے ہوتے رہ گئے اور بہت سے جرائم کرنے والے پکڑے جاچکے ہیں۔
ان کیمروں کی تنصیب کے حق میں دلائل دینے والے شکاگو کی انتظامیہ کے ترجمان کی جانب سے 2013میں دیے جانے والے بیان کا خاص طور سے حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ پچھلے چار برسوں میں ان کیمروں کی مدد سے ساڑھے چار ہزار کیسز حل کرنے میں مدد ملی تھی۔ مخالفت کرنے والے جوابی دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ مذکورہ عرصے میں وہاں تقریبا دس لاکھ جرائم ہوئے تھے جن سے ظاہر ہوتاہے کہ کیمروں نے اس ضمن میں محض صفر اعشاریہ صفر پانچ فی صد تک کردار ادا کیا تھا۔