سندھ میں موجود آثار قدیمہ کی کھدائی سے معلوم ہوتا ہے کہ عوامی مہارتوں اور فنون کے حوالے سے صدیوں سے سندھ کی تاریخ نہایت ہی شاہکار رہی ہے۔ سندھ میں برصغیر پاک وہند کے وہ قدیم ہنر مند ہیں، جو آج تک اپنے روایتی لوک ہنروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان ہنروں اور فنون میں سے مٹی کے برتن بنانا بھی ایک ہنر ہے یعنی کمہار کا ہنر جوکہ آج بھی پورے سندھ میں رائج ہے۔
مٹی کے برتن بنانے کے لئے میدے جیسی مٹی (جسے سندھی زبان میں چیکی مٹی کہا جاتا ہے) کو ہلکا کوٹ کر، بڑی چھلنی میں چھان کر اور پھر اسے پانی میں گوندھ کر پیڑے بنائے جاتے ہیں۔ اس پیڑے کو کمہار کے چاک پر چڑھا کر اس میں سے برتن بنائے جاتے ہیں۔ جب کمہار اس چاک کو گردش دیتا ہے اور کوئی برتن بنا لیتا ہے۔ تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قدرت نے کمہار کے ہاتھوں میں ایک بڑی قوت اور جادوگری رکھی ہے۔ اس لمحے ایسا لگتا ہے کہ گویا مٹی کے وہ پیڑے کمہار کی فرمانبرداری میں ہوتے ہیں۔ وہ صرف سوچ کی ’’کن فیکون‘‘ سے اور پھر مٹی کا ایک پیڑا کسی خوبصورت برتن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
کمہار کا ہنر سندھ کا قدیم پیشہ اور ہنر ہے بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب رہے گا کہ یہ ہنر سندھ کے سارے ہنروں سے قدیم ترین ہے اور صدیوں سے وہ اپنا اصلی مقام برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سندھ میں موجود آثار قدیمہ کی کھدائی سے دریافت شدہ مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں یہ کام بہت ہی اعلیٰ قسم اور معیار کا ہوتا رہا ہے۔ سندھ میں کمہار کے ہنر کی قدامت، اہمیت اور خوبصورتی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سندھ کے کئی ایک گائوں اور شہروں کے نام کمہاروں کے مشہور برتنوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ مثلاً پاٹار، گھڑو، کنگری، بنگار، گندی، ڈیٹل، کنری،کُنر وغیرہ۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کمہار کا ہنر سندھی تہذیب کے زرخیز ذہنوں کی پیداوار ہے۔ اس کا ثبوت موہن جودڑو، بھکرجودڑو، کاہو جودڑو،آمری جودڑو اورکوٹ ڈیجی کے ٹیلے سے دریافت شدہ برتن اور مٹی کے کھلونے ہیں۔
کمہار کے ہنر کی جڑیں کہیں بھی جا ملیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں کمہار کا ہنر بے حد قدیم ہے اور یہاں یہ کام جس اعلیٰ معیار کا ہوتا رہا ہے۔ اسے دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا خوبصورت اور دلکش کام صدیوں کی مسلسل محنت اور تجربات کا نتیجہ ہی ہوگا۔
کمہار کے ہنر میں یا کام میں نہایت ہی سادہ اوزار استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثلاً چاک، کیسزو اور ٹھپنی یہ تین اوزار دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ ان سادہ اوزاروں سے ایسی بہترین چیزیں تیار ہوتی ہوں گی۔ ان تینوں سادہ اوزاروں کی مدد سے کمہار کئی ایک برتن بناتے ہیں۔ ان برتنوں میں گھڑے، مٹکے، کونار، ماٹیے، حقے، ڈھکن، گندیاں، گنڈرے ، دیئے، ڈیٹاٹیاں، گلدان وغیرہ شامل ہیں۔ ان برتنوں کے علاوہ مٹی سے بچوں کے کھلونے بھی بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً اونٹ، گھوڑے، کتے، ہاتھی، کشتیاں وغیرہ یہ کھلونے زیادہ تر عورتیں ہی بناتی ہیں۔ کمہار کی کاریگری میں جتنا حصہ مردوں کا ہے۔ اتنا ہی حصہ عورتوں کا بھی ہے۔ جو خشک برتنوں پر ایسے ایسے نقش و نگار اور پھول بناتی ہیں کہ بڑے بڑے مصور بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔
جب برتن اور کھلونے تیار ہو جاتے ہیں تو ان کو کھلے میدان یا آنگن میں دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو بھٹی میں پکایا جاتا ہے۔ بھٹی کیلئے ایک ڈھلوانی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس منتخب جگہ پرسب سے پہلے پتلی لکڑیاں اور گھاس پھوس رکھا جاتا ہے۔ پھر اس کے اوپر لکڑی کاچورا چھٹکایا جاتا ہے۔ اس کے بعد برتن رکھے جاتے ہیں۔ ایک بڑی بھٹی میں برتنوں کی دس سے پندرہ قطاریں بنائی جا سکتی ہیں۔ ان کے اوپر پھر گوبر کی کھاد پھیلائی جاتی ہے اس کے اوپر پھر خاک کی تہہ بچھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھٹی کو آگ دکھائی جاتی ہے۔ تین دن کے بعد وہ برتن لال ہوکر پک جاتے ہیں۔ ان پر گل کتاری کا کام ان کے پکنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔
مٹی کے برتن سندھ کے کئی ایک شہروں میں بنائے جاتے ہیں مثلاً بدین، ٹھٹھہ، تلہار، سیہون، ہالا، نصرپور، شکارپور، نٹوں دیرو وغیرہ
طبی لحاظ سے مٹی کے برتنوں کے کئی فوائد ہیں یہ برتن استعمال کرنے سے دل کی تکالیف، یرقان، دمہ اور آنکھوں کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے وفاقی ریلوے ڈپارٹمنٹ نے ملک کی ساری ریلوے اسٹیشنوں پراور ریلوے سفر کے دوران مٹی کے برتن استعمال کرنے کا قانون لاگو کردیا ہے۔ لہٰذا ہمارا بھی یہ قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ کمہار کے ہنر کی قدر کرتے ہوئے یہ برتین زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔