پروفیسر خالد اقبال جیلانی
آج کا دن 12؍ربیع الاول ، یومِ میلاد النبی ﷺ کے نام سے موسوم اور مشہورو معروف ہے ، حکمت و مشیت خداوندی دیکھئے کہ یہ دن میلادالنبی ﷺ بھی ہے اور وصال النبی ﷺ بھی ۔ خوشی اور غم کا وہ پیمانہ جو دنیا والوں نے تجویز ومقرر کیا ہے، اس سے قطع نظر ہمیں آج کے دن اللہ کے پیمانے کے مطابق اس دن کی اہمیت و فضیلت کو قائم کرنا، یاد رکھنا اور باقی رکھنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ انسانوں کے لئے ایک کامل و اکمل اور دائمی نمونہ حیات ہیں ،تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کو ہمیشہ کے لئے ایک نقطۂ کمال تک پہنچا کر محفوظ کر دینے کا فریضہ انجام دینے آئے ۔ یہاں مکان و زمان کی قید اور ولادت و وصال کے دنیاوی تصورات سے ماوراء ،رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں، ہمیشہ کے لئے انسانیت کا نورِ ہدایت اور مرکز و مہبط وحی ہیں ۔
آج کا دن مسلمانوں کے لئے ایک ایسا دن ہے کہ جسے وہ کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں بھول نہیں سکتے اور صرف مسلمان ہی نہیں،بلکہ دنیائے انسانیت اس دن کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ یہ دن انسانیت کی آزادی اور نجات کا تہوار ہے، یہ یومِ رحمت و قبولیت ہے ۔ یہ یومِ صلح واتحاد ہے اور خالقِ کائنات کی طرف سے ایمان والوں پر یومِ احسان ہے کہ بےشک، اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کرتا ، انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگرچہ یہ لوگ اس (رسول) سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘ (سورۂ آل عمران )
آج کا دن اسلام کی تکمیل کا پیغام لانے والے کا یوم میلاد ہے اور دین حق کی بنیاد رکھے جانے کا دن ہے۔ آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت (احسان) پوری کردی اور تمہارے اسلام کو بطور دین (زندگی گزارنے کا نظام) پسند کر لیا۔‘‘(سورۃ المائدہ)
آج کا دن وہی دن ہے کہ جب کسریٰ کے محل کے چودہ کنگرے گر گئے۔ ایران کا آتش کدہ بجھ گیا اور خانہ کعبہ کے بت منہ کے بل گر پڑے ۔ اب آج کے دن اسی ’’یوم عظیم‘‘ پر رسول اللہ ﷺ کی امت اور ملتِ اسلامیہ نے ازسرِ نو عہد کرنا ہے کہ وہ پھر خدائی طاقتوں کا اظہار کریں گے۔ غیر خداندی ،ابلیسی ، باطل طاغوتی طاقتوں کے محلّات کو سرنگوں ہونے پر مجبور کریں گے۔ کفر و استبداد کے بتوں کواوندھا کردیں گےاور غضب و شیطنت کے آتش کدوں کو بجھا دیں گے۔ تاکہ دنیا میں اُس وجود پاک ﷺ کی برکات کا اظہار ہو اور اسلام کا غلبہ اور بول بالا ہو کہ یہی آج کے دن اس دنیا میں تشریف لانے والی ہستی ﷺ کی پیدائش اور بعثت کا مقصد خداوندی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ،تاکہ وہ اسے تمام ادیان(باطلہ) پر غالب کردے۔ چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔‘‘ (سورۂ صف)یہی مضمون سورۂ توبہ او ر سورۂ فتح میں بھی دہرایا گیا۔
یہی کچھ آج کے دن کا اصل مقصد ، پیغام اور عہد ہے، اس سے کچھ کم نا زیادہ۔آج کے دن آپ ﷺ کی سیرت پاک کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان سب کاموں کا مقصد صرف او ر صرف یہ ہے کہ : اول ۔ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت و بزرگی کا اظہار ہو اور بنی نوع انسان کو ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘ کی صحیح شان نظر آئے ۔دوم۔ دنیا پر مسلمانوں کے اس عشق و محبت او ر ادب و احترام کا اظہار ہو جو امت کو ہادی اعظم ،نبی بر حق ﷺ سے ہے۔سوم۔ مسلمانوں کی طاقت ، وحدتِ امت اور قومی اتحاد کا اظہار ہو اور دوسری قومیں اس دنیا کی ہر ایک بستی، گاؤں دیہات ، شہر شہر میں نبی پاک ﷺ کی عظمت و محبوبیت اور ایک امت کا نظارہ کر سکیں۔
رسول اللہ ﷺ کا جشن میلاد منانے اور اس دن کی تقریبات منعقد کرنے کے فائدے یہ ہیں۔اولاً۔خلقِ خدا رسول خدا ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے مستفید ہو اور سیرت نبوی کا علم بلند کرکے نیکی کی طرف متوجہ ہو اور برائیوں سے بچے۔
ثانیاً۔مسلمانوں میں عشقِ رسولﷺ پیدا ہو ۔ ان کا ایمان تازہ ہو اور وہ تعلیماتِ محمدی ﷺ سے آگاہ ہو کر تبلیغ و تعلیم کا وہ فریضہ ادا کر سکیں جو بحیثیت امت اور نائب ان پر عائد ہوتا ہے اور اُنہیں’’امت وسطیٰ‘‘ اور’’ شہداء علیٰ الناس ‘‘ (لوگوں پر گواہ) بننے اور دنیا پر اپنی اس حیثیت کو واضح کرنے کا موقع نصیب ہو۔
ثالثاً۔دشمنانِ اسلام نے سرورِ کونین ، خاتم النبیین ﷺ کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں، وہ دور ہو جائیں ۔ نوع انسانی کے دل میں اسلام کی عظمت اور قبولیت حق کا دروازہ کُھل جائے اور وہ اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔
رابعاً ۔عالم انسانی رنگ ، نسل زبان اور فرقہ کی تفریق سے نکل کر ایک امتِ مسلمہ بن جائے۔ ہر مسلمان سمجھ لے کہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کی نعمت شخصی یا ذاتی نہ تھی، بلکہ تمام دنیائے انسانیت کے لئے رحمت ’’وماارسلنک الارحمۃ للعالمین‘‘ ہے۔ اس لئے ان کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تمام مشرق و مغرب کو ہم آہنگ ہو جانا چاہئے اور آج کے دن تمام کرہ زمین سے اجتماعی شکریہ کی آواز اٹھنی چاہیے۔
جب سرور کونین ﷺ دنیا میں تشریف فرماتھے تو آپ ﷺ کی صحبت اور مجلس جلسۂ سیرت النبی ﷺ تھی اور صحابہ کرام ؓ کی زندگی کا ہر ایک دن یوم النبی ﷺ تھا۔ لیکن جب حضور ختمی مرتبتﷺ کا وجود اقدس اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے اور سننے والی بزرگ ہستیاں پُشتِ زمین پر باقی نہ رہیں تو یہ ضرورت پیش آئی کہ تمام ممکن طریقوں سے ذکر حبیب ﷺ کو تازہ رکھا جائے، تاکہ یہ امت اور انسانیت اپنے مرکز حیات سے دور نہ ہٹے۔ دامنِ رسالت ﷺ سے وابستگی بر قرار رہے۔
اگرچہ شریعت نے نمازوں ، خطبوں اور درودُ و سلام میں سرور کونین ﷺ کی تازگیٔ ذکر کا بہت کافی انتظام کر دیا ، مگر اسلام کے تمام دنیا میں پھیل جانے اور کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عربی سے ناواقف ہونے کے باعث لوگ روز بروز اپنے مرکز حیات سے دور ہونا شروع ہو گئے، سرکارِ دوعالمﷺ کی یاد کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور امتِ مسلمہ کے اجتماعی دینی روحانی اور مادی غلبہ کے لئے آپﷺ کے نقش پاکو تلاش کریں اور اس کا سامان پیدا کریں۔ آج کے دن ہمیں غلبۂ دین اسلام کے لئے تبلیغ و تنظیم کا ایک عالمگیر نظام قائم کرنا چاہیے ۔ جس طرح حضور سرور کونین ﷺ کی ذات سب کے لئے ہے اور اس میں رحمتِ عام کی مثال قائم کی جاچکی ہے۔ اسی طرح یہ تنظیمی کام بھی جماعت بندی ، گروہ سازی یا فرقہ گردی سے بلند رہ کرکرنا چاہیے۔
۱۔ایسا تبلیغی کام صرف اسی مشترکہ بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے جس پر تمام مسلم جماعتیں جمع ہو سکتی ہیں اور مل کر کام کر سکتی ہیں اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہے۔ اس لئے ہمیں اسی بنیاد پر یہ نظام قائم کرنا چاہیے اور آج کا دن اس کے آغاز کے لئے موزوں ترین دن ہے۔
۲۔اس تنظیم کے مقاصد یہ ہونے چاہییں (الف) اللہ کی کتاب (قرآن عزیز ) کی اطاعت و اشاعت تاکہ اللہ کی کتاب زندگی کا رائج الوقت قانون بن جائے (ب) سیرت النبی ﷺ کی اطاعت و اشاعت، تاکہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی تمام نوع انسانی کے لئے نمونۂ عمل بن جائے۔ (ج) مسلمانوں کو کلمۂ شہادت، ارکانِ اسلام اور اجتماعی فلاح و بہبود کی بنیاد پر منظم کرنا، تاکہ وہ قانونِ الہٰی کی پیروی اور اجتماعی قوت سے دنیا کے امام و رہنما بن سکیں۔ اور غلبۂ دینِ اسلام کے اسباب پیدا ہوں ۔یہ سب اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور نزولِ قرآن کا مقصد یہی تھا۔