سیّد ابوالاعلیٰ مودودی
جس سرزمین میں انسانوں کے درمیان امتیاز نسل ، قبیلے اور رنگ کی بنا ءپر ہوتا تھا، وہاں نبی اکرمﷺ نے اپنی پکار انسان کی حیثیت سے بلند کی ۔ آپﷺ نے فرمایا : ” اے انسانو ! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں ۔“اور جو بات پیش کی وہ یہ ہے : ” اے انسانو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلوں اور گروہوں میں اس لیے بانٹا ہے کہ تمہیں باہم تعارف حاصل ہو ۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرتاہے ۔“
آپ ﷺنے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ تمہیں قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصود تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں تو ایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو فرق ہے، وہ صرف تعارف کے لیے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بغض ، عداوت اور امتیاز کے لیے۔
اسلام میں برتری کا تصور : اب دنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بنا ءپر ، کالے یا گورے ہونے کی بناء پر لیکن اس بناء پر برتری نہیں کہ کون برائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے ۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے۔ کون اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہواہے اور کون یورپ میں۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ دیکھنے کی اصل چیز یہ نہیں، بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھئے کہ کون اللہ سے ڈرتاہے اور کون نہیں ۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابل قدر نہیں ہے ،لیکن دور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو ، اگر اللہ کا خوف رکھتاہے تو وہ آپ کی نگاہ میںزیادہ قابل قدر ہونا چاہیے۔
امتِ وسط کا قیام : حضورﷺ فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کر دیا ۔ آپ ﷺنے اس بنیاد پر ایک امت بنائی اور اسے بتایا :ترجمہ :” ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “ (القرآن) امت وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے، نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہوتاہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتاہے کہ جانبدار بن جائے ، نہ دشمن ہوتاہے کہ مخالفت میں توازن کھود ے ۔ اس کا مقام یہ ہوتاہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کر ے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامل نہیں کرے گا۔
جج کی یہی حیثیت پوری امت کو دے دی گئی ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم امت عادل ہے ۔اب یہ امت عادل بنتی کس چیز پر ہے ؟ کسی قبیلے پر نہیں بنتی ، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی ، یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺکا حکم تسلیم کر لو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو ، جو بھی رنگ ہے ، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہو جاتا ہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سید اور شیخ میں کوئی فرق نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اس کلمے میں شریک ہو گئے تو سب برابر۔ حضورﷺ نے اسی لیے فرمایا تھا : ” کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے ،نہ گورے کو کالے پر ۔ تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ “
اسلامی عدل کی ایک مثال : اسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں ۔ غزوۂ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے ۔ اتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصاری کا اختلاف ہو گیا ۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصاری نے انصار کو ۔ آپ ﷺنے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہو کر فرمایا : ” یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے ۔ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو “اس سے آپﷺ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری امت مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا ،لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے ۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصار دونوں پر فرض تھی ۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلا ف اٹھے،لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے ۔اسلام اسی لیے کہتاہے ترجمہ:” عدل کو قائم کرنے والے بنو “
تسخیر انسانیت کا وصف : اس امت میں بلال حبشی ؓ بھی تھے ۔ سلمان فارسی ؓ بھی اور صہیب رومی ؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا ۔ خلافت راشدہ کے عہد مبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا ۔ اس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی،بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے ،اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکی۔ ایران میں ویسا ہی اونچ نیچ کا فرق تھا ،جیسا کہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خود بخود مسخر ہو گئے۔ اسی طرح مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا ۔غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے، لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے ۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فیصد کام کیا تو اس اصول عدل نے ننانوے فیصد کام کیا۔
آج دنیا کا کون سا خطہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے حج کے موقع پر ہر ملک کا مسلمان جمع ہوجاتاہے ۔ امریکہ کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا منظر دیکھ کر کہا تھا ” نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے “ صرف یہی چیز ہے جس پر دنیا کے تمام انسان جمع ہو سکتے ہیں ۔ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہوا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کر سکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتاہے ۔ نبیﷺ نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع بھی ہو سکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔
سیرتِ طیبہ اور اس کے عملی تقاضے : آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں۔ ذکر رسولﷺ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے، لیکن محض ذکر اور ورد ہو کر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولﷺ کے لیے مقدر ہے ۔ حدیث میں اسی لیے آیا ہے ترجمہ : ” قرآن تم پر حجت ہے ، تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف ۔“
کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے ۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس کلمے کو لے کر اٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہو گا، بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہو جائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑ ا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی ۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرور کائناتﷺ کا سچا امتی بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین )