• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی خارجہ پالیسی میں ایک عرصے بعد جوش کی بجائے ہوش کا عُنصر غالب نظر آرہا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ چھے ماہ میں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے دنیا سے تعلقات کی سمت درست کرنے کی کافی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ یقیناً ہمیں دوست ممالک سے مالی امداد اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، لیکن اِس طرح کی امداد کے حصول کے لیے خارجہ اُمور کے اپنے ہی طریقے ہوتے ہیں،جسے معاشی سفارت کاری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ دنیا کو یہ نہیں کہا جاتا کہ’’ اللہ کے واسطے ہمیں قرضہ دے دو، ورنہ ہم دیوالیہ ہوجائیں گے‘‘،بلکہ دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ قرضہ دینے والوں کو بھی کچھ کشش محسوس ہو۔

اگر دیکھا جائے، تو دو، چار ممالک کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی ایسا مُلک ہو،جس نے قرضوں اور سرمایہ کاری کے بغیر ترقّی کی ہو۔بدقسمتی سے گزشتہ چار برسوں میں ہمارے سابق وزیرِ اعظم کو دنیا میں صرف قرضے مانگنے کا سفیر سمجھا گیا، تاہم گزشتہ چھے ماہ سے خاموشی اور سنجیدگی سے خارجہ پالیسی کے مسائل حل کرنے کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ اِس ضمن میں ذاتی تعلقات بھی قومی بہتری کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ،جو سفارت کاری میں ایک عام بات ہے۔نیز، بڑی طاقتوں سے تعلقات میں توازن بھی بے حد ضروری ہے۔

چین، روس، امریکا اور یورپ کے کئی معاملات پر اختلافات ہیں، لہٰذا ہمیں اس تنی رسّی پر بہت احتیاط سے چلنا ہوگا۔روس،یوکرین جنگ میں یورپ اور امریکا کے سامنے کھڑا ہے۔اُس کی جانب سے نئی نئی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور دوسری جانب سے بھی برابر کا جواب مل رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا اور تائیوان سینگ لڑا رہے ہیں، البتہ یہاں اچھی بات یہ ہے کہ چین اور امریکا دونوں ہی سفارتی حساسیّت اور نزاکتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کے نتائج بھگت چُکے ہیں، اِس لیے اس طرف رُخ کرنے کو تیار نہیں۔ویسے بھی امریکا کا طریقۂ کار یہ رہا ہے کہ وہ خود سے ہزاروں میل دُور جنگ کرتا ہے۔

عراق، ایران، شام، افغانستان اور اب یوکرین اس کی مثالیں ہیں۔اِسی لیے جنگوں سے اس کی معیشت پر براہِ راست منفی اثرات مرتّب نہیں ہوتے اور نہ ہی امریکی متاثر ہوتے ہیں۔ شاید اِسی لیے آج ڈالر دنیا کی سب سے مضبوط کرنسی ہے ،جب کہ دنیا میں کساد بازاری اور منہگائی منہگائی کا شور مچا ہوا ہے۔علاوہ ازیں، امریکی قوم کسی بھی تنازعے میں جذباتی طور پر ملوّث نہیں ہوتی۔حال ہی میں افغانستان سے امریکا کی واپسی دیکھ لیں۔ متعلقہ فورمز پر بحث مباحثوں کے علاوہ کسی نے پھلی تک نہیں پھوڑی۔ امریکی شہریوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ افغانستان سے کس حال میں واپسی ہوئی، اُنھیں تو اپنے ہیلتھ کیئر پروگرام اور دوسری مراعات سے مطلب ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ امریکا میں افغانستان سے واپسی پر شاید ہی کوئی غیرمعمولی جذباتیت دیکھی گئی ہو۔گویا افغان چیپٹر امریکی قوم اور شاید باقی دنیا کے لیے بھی بند ہوچکا ہے۔ شنگھائی فورم بھی، جو افغانستان کے پڑوسی ممالک پر مشتمل ہے،ٹھنڈا دِکھائی دے رہا ہے۔اِس بات کا تذکرہ اِس لیے ضروری تھا کہ پاکستانی قوم اچھی طرح سمجھ لے کہ اگر وہ امریکا سے تعلقات رکھنا چاہتی ہے اور اس سے فوائد سمیٹنے کی خواہش مند ہے، تو اُسے خود بھی آگے بڑھنا ہوگا۔

اپنی بات دلائل اور سنجیدگی سے کہنا ہوگی کہ دھمکیوں سے کوئی کام نہیں بنے گا۔ سیدھی بات یہ ہے کہ امریکی شہریوں نے تو میر جعفر اور میر صادق کے نام تک نہیں سُنے اور شاید وہ ان کے بارے میں جاننے کے خواہش مند بھی نہیں ہوں گے۔عمران خان ڈیڑھ سال صدر جوبائیڈن کی فون کال کا انتظار کرتے رہے اور پھر’’ ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کا حربہ بھی استعمال کرکے دیکھ لیا، مگر ملا ملایا کچھ نہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اقوامِ متحدہ کے اجلاس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا گئے، جب کہ اِس سے قبل ملکہ کی آخری رسومات میں شرکت بھی روایات کی پاس داری تھی، جس سے اچھا پیغام گیا کہ بارہ لاکھ پاکستانی برطانیہ میں آباد ہیں۔وزیرِ اعظم نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات دنیا کے سامنے رکھیں۔ اقوامِ متحدہ میں گرجنے برسنے اور کسی مقرّر جیسا جوش دِکھانے کی وہی کوشش کرتا ہے، جسے اپنے عوام کو بے وقوف بنانا ہو، کیوں کہ 194ممالک کے اس فورم میں زیادہ تر تو تقاریر کا ترجمہ ہی سنایا جاتا ہے۔ 

گویا اسٹیج پر بیش تر لیڈر کسی خاموش فلم کی طرح جوشِ خطابت میں ہاتھ لہرا رہے ہوتے ہیں۔مندوبین اُنھیں صرف دیکھ سکتے ہیں،سُنائی تو صرف ایئر فون ہی پر دیتا ہے۔ اِسی لیے سمجھ دار رہنما اقوامِ متحدہ میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کی بجائے سنجیدگی سے بات کرتے ہیں کہ تقریر کا ٹرانس کرپٹ پہلے ہی مندوبین کی میز پر موجود ہوتا ہے۔شہباز شریف نے دنیا کو اپنے مُلک کی مشکلات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی بتایا کہ ہم تنازعات میں اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔ 

ہم جذباتی ہیں اور نہ ہی کسی انقلاب کا حصّہ۔ ابھی تو سیلاب سے بحالی کے مرحلے میں ہیں۔ویسے بھی ہر مُلک کا یہی کام ہے کہ وہ اپنے معاملات دنیا کے سامنے رکھے، ہاں دوسرے کے موقف کی حمایت یا مخالفت ضرورکی جاسکتی ہے، جو ایک معمول کی سفارت کاری ہے۔ جذباتی باتیں اور تقریری قصیدے تو اپنے میڈیا اور عوام کے لیے ہوتے ہیں، جو چند دن کی واہ واہ کے بعد پھر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں۔ باقی دنیا تو صرف کسی مُلک اور قوم کی طاقت ہی دیکھتی ہے،اُسے حکم رانوں کی پرسینلٹی اور ان کے گرجنے برسنے سے کوئی سروکار نہیں، وگرنہ اسی فورم پر80 سالہ جوبائیڈن کی آواز سب سے توانا نہ ہوتی۔ 

وزیرِ اعظم کے اِسی دورے میں یورپی، عرب اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے، جن سے گزشتہ چارسالوں میں ہمارا تعلق تقریباً ختم ہوچکا تھا، تعلقات بحال کیے گئے۔یہ اِس لیے بھی ضروری تھا کہ یہی وہ ممالک ہیں، جو مختلف فورمز، جیسے آئی ایم ایف،ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک، انسانی حقوق اور سلامتی کاؤنسل کے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یاد رہے، پلواما واقعے کے بعد سلامتی کاؤنسل کے اجلاس میں پاکستانی مندوب کمرۂ اجلاس تک میں نہیں بُلائے گئے اور چین نے ہمارا مقدمہ لڑا۔

اِسی طرح انسانی حقوق کے معاملات میں ہمیں سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم اسے سازش قرار دیتے ہوئے مختلف ممالک کی لابیز پر الزامات لگا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں خارجہ معاملات کا پتا ہے اور نہ ہی وہ جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔اُن کے لیے سُنی سُنائی باتیں، سوشل میڈیا کی پوسٹس یا مَن پسند تبصرہ نگاروں کے تجزیے ہی سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو ہمارے مُلک کی عزّت اور پاسپورٹ کا یوں بُرا حال نہ ہوتا۔ ابھی تک برطانیہ اور یورپ کے لیے پی آئی اے کی فلائیٹس تک نہیں کُھل سکیں،دوستی کی منزل تو کافی دُور ہے۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹّو نے بھی وزیرِ اعظم کا بہت اچھا فالو اَپ کیا۔وہ دو ہفتے وہاں رہے اور سیکریٹری اسٹیٹ سمیت بہت سے اہم امریکی حکّام سے ملاقاتیں کیں۔

اس پیش قدمی کے نتیجے میں امریکا نے بہت سے سفارتی، مالیاتی اور امدادی اقدامات کا اعلان کیا۔ ان میں سیلاب زدگان کے لیے چھے کروڑ ڈالر، قرضوں میں رعایت، آئی ایم ایف میں آسانیاں، ایف اے ٹی ایف میں تعاون اور ایف سولہ لڑاکا طیاروں کے لیے پُرزوں جیسے معاملات اہم ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کسی مُلک کو دشمن اور سازشی کہہ کر اُس سے تعلقات خراب کرنا کہاں کی عقل مندی ہے،جن کی درستی میں برسوں لگ جائیں۔یاد رہے، امریکا میں پانچ لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ 

بلاول بھٹّو نے امریکی میڈیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا، جس کے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مسائل پر فوکس رہا، جب کہ باقی معاملات پر اصولی موقف کا اعادہ کیا گیا۔وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ کی یورپی رہنماؤں سے بھی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ یقیناً اس سے اُنھیں یہ پیغام ملا ہوگا کہ اسلام آباد دوسرے ممالک کے ساتھ چلنے کا خواہش مند ہے۔دراصل، بیرونی دورے لو پروفائل ہوتے ہیں اور ان سے متعلق زیادہ شور نہیں مچایا جاتا کہ بیرونی تعلقات کی حسّاسیت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ مُلک ابھی تک سائفر جیسی حسّاس دستاویز کے جلسوں میں لہرانے کے آفٹر شاکس بھگت رہا ہے۔ 

بیرونی دوروں میں کوئی ورلڈ کپ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ اپنے مُلک کے معاملات اور مفادات آگے بڑھانے ہوتے ہیں۔لیڈر یا حکم ران خود اپنا امیج بنانے نہیں نکلتے بلکہ اپنے مُلک کا امیج بناتے ہیں۔بدقسمتی سے بھٹّو صاحب کے زمانے سے خارجہ پالیسی میں وزیرِ خارجہ اور حکم ران ہی کو مُلک سمجھ لیا گیا،وہ دوسرے ممالک کے حکم رانوں کو ذاتی طور پر متاثر کریں اور عالمی رہنما بن جائیں،چاہے عالمی ترقّی میں مُلک کا نمبر آخری ہی کیوں نہ ہو۔ کیا کسی کو پتا ہے کہ جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ کا وزیرِ اعظم کون ہے، لیکن اُن مُمالک کی عزّت اور پاسپورٹ کی مضبوطی سے سب آگاہ ہیں۔

جب وزیرِ اعظم امریکا کا دورہ کر رہے تھے، تو اس دوران آرمی چیف چین میں تھے۔واضح رہے، چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک اہم ترین اجلاس 16اکتوبر کو( یعنی آج) ہوگا، جس میں صدر شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ چین کا سپریم لیڈرچُنا جائے گا اور یہ انتخاب اب تاحیات کی بنیاد پر ہوگا۔اِس لیے ضروری تھا کہ چین اور پاکستان جیسے قریبی دوستوں کو مزید قریب لایا جائے اور بین الاقوامی تناظر میں اہم امور پر ہم آہنگی پیدا کی جائے۔تائیوان کا مسئلہ اس علاقے میں بہت اہم ہے اور بھارت اپنا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈال چکا ہے۔نیز، دہلی ایک بار پھر افغانستان میں بھی آچکا ہے۔دوسری طرف ہماری امریکا سے دوستی میں عرصے بعد بہتری نظر آرہی ہے۔

اب اِن معاملات میں کیسے توازن لایا جائے، غالباً اسی لیے آرمی چیف نے چین کے فوری بعد امریکا کا بھی دورہ کیا،جہاں ان کی وزیرِ دفاع اور مشیرِ امورِ سلامتی سے ملاقات ہوئی۔یوکرین، تائیوان، افغانستان اور بھارت کے پس منظر میں یہ ملاقاتیں بہت اہم ہیں، پھر حالیہ ایف سولہ جہازوں کے پرزوں کی فراہمی سے پاک، امریکا تعاون کے جو اشارے ملے ہیں، انہیں بھی سمجھنا ضروری ہے۔

عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے معاشی ابتری کے دوران جس طرح ہمارا ساتھ دیا، ایک شُکر گزار قوم کی حیثیت سے بہتر یہی ہوگا کہ ہم مخالفانہ باتوں میں آئے بغیر قطر کی ایل این جی پر توجّہ دیں، جس کی ہمیں سردیوں میں ضرورت ہوگی۔یاد رہے،قطر نے فُٹ بال ورلڈ کپ کی سیکیوریٹی کی ذمّے داری میں پاکستان کو شریک کر کے بڑے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ تیل کی قیمتیں بہت تیزی سے گری ہیں۔

پاکستان کی درآمدات کا سب سے بڑا بِل تیل اور اس کی مصنوعات ہی کا ہے، جو 20 ارب ڈالرز کے قریب بتایا جاتا ہے، یعنی ہماری مجموعی درآمدات کا کُل ساٹھ فی صد۔ اِسی لیے جب ہم پر معاشی دبائو بڑھتا ہے، تو ہمارے حکم ران عرب ممالک،بالخصوص سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں۔یہ بدقسمتی ہے کہ ایران، جو دنیا میں تیل برآمد کرنے والا چوتھا بڑا مُلک ہے، ایک سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود امریکا سے دوبارہ نیوکلیئر ڈیل کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے معاشی حالات کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں اور اسے فوری طور پر دنیا سے رابطے کی ضرورت ہے۔ 

شروع میں ڈیل سے متعلق کچھ اچھے اشارے ملے تھے، لیکن یوکرین کی جنگ نے کام یابی کے امکانات بہت حد تک معدوم کردیے۔مشکل یہ ہوئی کہ گزشتہ تجربات کی روشنی میں عربوں نے اسرائیل سے مضبوط تعلقات استوار کر لیے ہیں اور ایسا ہی کچھ تُرکی نے کیا، جب کہ ایران، روس اور چین کا سہارا لے رہا ہے۔ وہ شنگھائی فورم کا بھی حصّہ بن چکا ہے، لیکن اس کے بیش تر مفادات یورپ سے وابستہ ہیں۔ شہباز شریف کی ایران کے صدر سے ازبکستان میں ملاقات ہوئی۔

تہران اور اسلام آباد کے درمیان کئی مسائل، خاص طور پر بارڈر سے متعلق معاملات چلے آرہے ہیں، جب کہ ایک اہم معاملہ عربوں سے دوستی کا بھی ہے۔پاکستان نے برادر مسلم ممالک سے تعلقات میں توازن رکھنے کی کوشش کی ہے، مگرمسئلہ یہ ہے کہ یمن میں سیز فائر ہونے کے باوجود امن قائم نہیں ہو پارہا اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں یمن تنازع ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے یہی معاملہ شام کا تھا۔

تاہم، جنرل سلیمانی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سے ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ پالیسی اب اعتدال پر آچکی ہے۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو ایران اور تمام عرب ممالک سے مضبوط روابط رکھنے پڑیں گے۔مُلکی معاشی حالات اِس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ ہم کسی دوسرے مُلک کے معاملات سُلجھانے یا ثالثی کے لیے چل پڑیں۔ ہاں اگر کوئی خود درخواست کرے تو وہ ایک الگ بات ہے۔تُرکی میں اردوان نے بگڑتی معاشی صُورتِ حال کے بعد یہی پالیسی اپنائی اور خاصے کام یاب نظر آتے ہیں۔

اُنہوں نے عربوں سے تعلقات ٹھیک کیے،اسرائیل سے قریبی روابط بحال کیے، یورپ کی شکایات ختم کیں اور سب سے بڑھ کر روس سے تعلقات کے باوجود امریکا اور نیٹو کے ساتھ بھی موجود ہیں۔ وہ کسی کے آگے جُھکے نہیں بلکہ سفارتی مہارت استعمال کرتے ہوئے سب سے تعلقات بحال کرتے چلے گئے۔آج تُرکی معاشی بحران سے نکل رہا ہے۔ غلامی اور جُھکنے جیسی باتیں ہمارے ہاں ہی سیاسی نعرہ بن رہی ہیں، لیکن اب ہمیں یہ معاملات بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے ہوں گے ،وگرنہ سفارت کاری بہت مشکل ہوجائے گی۔ ہماری اوّلین ترجیح معیشت میں بہتری ہونی چاہیے تاکہ بائیس کروڑ آبادی کا مُلک دنیا میں سربلند ہوسکے۔