• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 وطنِ عزیز میں فنونِ لطیفہ کی تاریخ شاندار رہی ہے، خصوصاً فنِ مصوّرئ، جس میں مصوّروں کی کہکشاں ہے جو نہایت دل رُبا ہے۔ اب تک مصوّری کے شعبے نے زوال نہیں دیکھا بلکہ پیش رفت ہی کی ہے۔ ملک کے کتنے ہی شہروں خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کتنے ہی مصوّر سامنے آئے ہیں۔ مصوّری کے اسکول قائم ہوئے ہیں، آرٹ گیلریز کی تعداد بڑھی ہے، آرٹ کے شائقین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، آرٹ جمع کرنے والے، آرٹ خریدنے والے بھی بہت ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو آرٹ کے قدردان ہیں، وہ بھی ہیں جو اپنے گھروں میں آرٹ سجانا ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ سمجھتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو آرٹ خرید کر اسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصوّروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو آرٹ کی مقبولیت کا عکّاس ہے۔

جب ہم ان مصوّروں کی طرف دیکھتے ہیں جن کا شُمار اساتذہ (ماسٹرز) میں ہوتا ہے تو ممتاز فنکار اے آر چغتائی (عبدالرحمن چغتائی) سرِفہرست نظر آتے ہیں۔ یقینا ، وہ پاکستان کے پہلے مصوّر ہیں جو بین الاقوامی شہرت کے حامل ہوئے۔ انہوں نے مصوّری میں منفرد انداز اپنایا، مغل آرٹ ان کی پہچان اور شہرت بنا۔ مصوّر، دانش ور چغتائی21 ستمبر1894کو لاہور میں پیدا ہوئے اور 17جنوری 1975 کو لاہور ہی میں فوت ہوئے۔

چغتائی نے ریلوے ٹیکنیکل اسکول لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’’میو اسکول آف آرٹس لاہور‘‘ سے مصوّری کی تعلیم حاصل کی،فوٹو گرافر اور ڈرائینگ کے استاد کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، پھر وہ میو اسکول میں ہیڈ انسٹرکٹر ہوگئے۔ 1920میں ان کی پینٹنگز، کی پہلی نمائش ’پنجاب فائن آرٹ سوسائٹی‘ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ اسی عشرے میں انہوں نے انڈین اسکول آف اورینٹل آرٹ کے زیر اہتمام اپنے فن کی نمائش کی جس سے انہیں بھرپور شہرت حاصل ہوئی۔

اے آر چغتائی نے اپنی تقریباً ساٹھ برسوں کی مصوّری کی زندگی میں دو ہزار سے زائد واٹر کلر، ہزاروں کی تعداد میں پینسل اسکیچز بنائے،انہوں نے مختصر کہانیاں تحریر کیں اور آرٹ کے بارے میں مضامین بھی۔ انہوں نے پاکستان کے ڈاک ٹکٹ اور سکے ڈیزائن کیے اور کتابوں کے سرورق بھی، اپنے آرٹ کی تین کتابیں بھی شائع کیں; مرقع چغتائی، نقش چغتائیاورچغتائی کی پینٹنگز، پاکستان کے قومی اور شہرہ آفاق شاعر ڈاکٹر محمد اقبال نے ، مرقع چغتائی کا پیش لفظ (1928) تحریر کیا تھا۔

چغتائی کی پینٹنگز برٹش میوزیم ، وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم، اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے علاوہ نیو یارک، بوسٹن، واشنگٹن ڈی سی، صدارتی محل بون، بینکاک کے شاہی محل، ایوان صدر اسلام آباد، لاہور، کراچی گورنر ہائوسز اور نیشنل آرٹ گیلری میں آویزاں ہیں۔

حکومت پاکستان نے ملک کے ممتاز مصوّر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی یاد میں ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ 

احمد سعید ناگی
احمد سعید ناگی 

استاد اللہ بخش، پاکستانی اساتذہ میں سر فہرست ہیں۔ وہ 1895 میں وزیر آباد پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان کشمیری ہے جو پنجاب میں آکر آباد ہوا تھا۔ اللہ بخش نے ماسٹر محمد عبداللہ سائن پینٹر سے بطور مبتدی کام سیکھنا شروع کیا اور چودہ برس کی عمر میں وہ خود سائن پینٹر ہوگئے اور مغل پورہ ورک شاپ میں ملازمت اختیار کرکے ریل کی بوگیوں پر سائننگ کرنے لگے۔ 1914کو وہ اس وقت کے مشہور و مقبول ڈراما نویس، پروڈیوسر اور اداکار آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر(کلکتہ) میں ملازم ہوگئے اور اسٹیج کے مناظر پینٹ کرنے لگے۔ 

تھیٹر کی ملازمت کا عرصہ، اللہ بخش کی مصوّری کی زندگی پر بہت اثر انداز ہوا۔ انہوں نے کئی برس بمبئی میں بھی گزارے جہا ںلالہ رام لعل کے اسٹوڈیو میں ملازمت کرنے لگے۔ 1919میں وہ لاہور آگئے اور 1922 تک اس زمانے کے مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ میں بحیثیت کمرشل آرٹسٹ کام کرنے لگے۔ 1922 میں ہی وہ پھر بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے بمبئی آرٹ سوسائٹی سالانہ نمائش میں اوّل انعام حاصل کیا۔ بمبئی میں انہوں نے ہندوئوں کے دیوتا کرشن کی پینٹنگز بناکر بہت شہرت حاصل کی۔ ناگپور، پٹیالہ، شملہ، پونا، کلکتہ، مدارس، مسوری، بینگلور اور لاہور میں منعقدہ نمائشوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

استاد اللہ بخش 1937سے 1938 تک مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ رہے۔ مہاراجہ کے فوت ہوجانے کے بعد وہ لاہور واپس آگئے اور زندگی کے آخری دم تک یہاں رہے۔ 1978 میں فوت ہوئے۔ ان کے فن پاروں کی آخری نمائش، کراچی آرٹس کونسل میں 1978 میں منعقد ہوئی تھی۔ وہ پنجاب کے دیہات، اس کی سر زمین، میلوں‘ گھر داری کے مناظر اور عشق کی کہانیوں کو بہت شوق سے پینٹ کرتے تھے۔ حکومت پاکستان نے ، ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا تھا۔

عبدالرحمٰن چغتائی
عبدالرحمٰن چغتائی 

کہکشاں کا ایک اور دمکتا ستارہ ،شاکرعلی، جدید مصوّری کے اثر انگیز فنکار، آرٹ کی تعلیم دینے والے، 1916میں رام پور ( یو پی۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مشہور مجاہدین آزدی شوکت علی، محمد علی برادران کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد الیکٹریکل انجینئر تھے۔ شاکر علی نے نصابی تعلیم کے حصول کے بعد 1938 میں مصوّری کی تعلیم کے حصول کے لیے ‘‘جے جے اسکول آف آرٹس بمبئی‘ میں داخلہ لیا اور تیسرے سال میں اپنی مصوّری کی نمائش کرنا شروع کی۔ 1946 میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور سلیڈ اسکول آف آرٹ میں داخلہ لیا اور وہاں ڈرائنگ کی مشق شروع کی۔ 1949 میں فرانس چلے گئے، پھر لندن واپس ائے اور انڈسٹریل ڈیزائن کی تعلیم کے حصول کے لیے برٹش کونسل اسکالر شپ، حاصل کرکے پراگ( چیکو سلواکیا) گئے۔ 

پھر وہاں سے لندن واپس آئے جہاں انہوں نے مختلف صنعتوں کو اپنے بنائے ہوئے ڈیزائن فروخت کیے اور بی بی سی کے لیے پروگرام کیے۔ 1951 میں کراچی آگئے ،یہاں ان کا قیام پی آئی بی کالونی میں رہا۔ 1952 میں لاہور چلے گئے اور میو اسکول آف آرٹ لاہور میں لیکچرر ہوگئے۔ جب میو اسکول کا نام تبدیل ہوکر 1962میں نیشنل کالج آف آرٹس ہوا تو شاکر علی اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ لاہور میں شاکر علی کا حلقۂ احباب مصوّروں، ادیبوں و شاعروں پہ مشتمل تھا جن میں علی امام، راحیل اکبر، شمزا، مونی نجمی، شیخ صفدر، معروف مصوّر ہوئے۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش مارچ 1957 میں لاہور میں اور دوسری نمائش کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ 27جنوری 1975 کو لاہور میں فوت ہوئے۔

انہوں نے خطاطی کی ، پورٹریٹ ورک کیا۔ کیوب ازم اور سمبالزم سے شہرت حاصل کی۔ حکومت نے شاکر علی کی یاد میں ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا۔

جب ہم اس کہکشاں کو دیکھ رہے ہیں تو اے ایس ناگی(احمد سعید ناگی) نظر آرہے ہیں۔ انہیں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی لائیو پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1916 میں امرتسر میں پیدا ہوئے ، 1944 میں لاہور آگئے۔ وہ یہاں مسلم لیگ کے پبلسٹی سیل کے لیے کام کررہے تھے کہ اپنی والدہ کے حکم پر واپس امرتسر چلے گئے جہاں ان کی شادی کردی گئی۔ 1947میں پھرپاکستان آگئے اور کراچی میں بس گئے۔

ان کی سال گرہ کی تقریب، شہر کی سالانہ مشہور تقریب ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص کی تربیت لی۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے سیکھی، ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ جب کراچی میں آکر رہنے لگے تو فرانس کی حکومت کی دعوت پر پیرس گئے اور وہاں پورٹریٹ بنانے کی مشق کی۔ واپس کراچی آکر پاکستان کےدیہی مناظر( لینڈ اسکیپ) اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنا شروع کیا۔

انہوں نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ہالا، ٹیکسلا کو بھی اپنا موضوع بنایا، پاکستان کے کئی ہوائی اڈّوں کے وی آئی پی لائونجز کی تزئین و آرائش کی ،ساتھ ہی زیورات بھی ڈئزائن کرتے تھے۔ پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی خوب کی۔ ان کی پینٹنگز کی مشہور سیریز ’کوزہ نما‘ ہے جو سمبالک سیریز ہے۔ اپنے درون و بیرون ملک کئی مشہور غیر سرکاری دفاتر، نمائشوں‘ بینکوں اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔اے ایس ناگی اس اعزاز پر فخر کرتے تھے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انہوں نے بنائی تھی۔

انامولکا احمد
انامولکا احمد 

اب ذکر پاکستان کی اوّلین فائن آرٹس فنکارہ، انامولکا احمدکا، ان کی والدہ کا تعلق پولینڈ سے تھا اور والد کا روس سے۔ انامولکا1917 میں لندن میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے یہودیت ترک کی، اسلام قبول کیا اور شیخ احمد سے شادی کی جو اس وقت رائل کالج میں ڈیزائننگ کے طالب علم تھے۔ 1939میں یہ جوڑا امرتسر آیا اور 1940میں لاہور منتقل ہوا۔ شیخ احمد، میو اسکول آف آرٹس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور انامولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں صرف لڑکیوں کے لیے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ 1955 میں اس ڈپارٹمنٹ میں لڑکوں کو بھی داخلے کی اجازت مل گئی۔

انامولکا احمد کو 1963 میں ‘تمغہ امتیاز‘ دیا اور 1969 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا۔ 1995 میں لاہور میں فوت ہوئیں۔ انامولکا کے نام سے حکومت نے ڈاک کا ٹکٹ بھی جاری کیا۔

زبیدہ آغا جو نہ صرف ملک کی پہلی ماڈرن آرٹ فنکارہ تھیں بلکہ ساتھ ہی وہ پہلی فنکارہ تھیں جن کی قیام پاکستان کے بعد ہونے والی پینٹنگز کی پہلی نمائش منعقد ہوئی ، یہ کئی نفری(گروپ شو) نمائش تھی جو 1948 کو کراچی میں منعقد ہوئی تھی، جب کہ ان کے فن کی پہلی ’یک نفری‘ (سولو نمائش) جون 1949میں کراچی میں ہی منعقد ہوئی تھی۔

زبیدہ آغا 1922 میں لائل پور( موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئیں ، 1977 میں اسلام آباد میں فوت ہوئیں۔ مصوّروں میں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مصوّرہ تھیں۔ اس حوالے سے ان کے علاوہ شاکر علی کا نام آتا ہے۔ جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھیں تو 1951 میں ان کی فنّی کاوشوں کی یک نفری، نمائش منعقد ہوئی تھی، پیرس میں ان کے فن کی دوسری نمائش ہوئی اور 1953کو وہ وطن واپس آئی تھیں۔ انہوں نے انتہائی یادگار پینٹنگز بنائیں، لینڈ اسکیپ کیے، کئی شہروں کو اپنی پینٹنگز کا موضوع بنایا۔زبیدہ آغا کو 1965کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا اور ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔

وطن عزیز کے عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور رباعیات گو، صادقین نے ہزاروں کی تعداد میں پینٹنگز ، ڈرائنگز اور میورلز بنائے، خطاطی میں اپنا منفرد انداز پیش کیا۔ سورۃ رحمن کو انہوں نے جس طرح پینٹ کیا اس نے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ان کا یہ انداز’ خطِ صادقین‘ کے طور پر مشہور ہوا۔

صادقین، 30جون 1923 کو امروہہ(یوپی۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے کسی اسکول سے آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ خداد داد صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کے بنائے ہوئے میورلز لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، اسٹیٹ بینک، منگلا ڈیم پاور ہائوس، پنجاب یونیورسٹی لاہور، پاور ہائوس ابو ظہبی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی( انڈیا) بنارس ہندو یونیورسٹی،جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ان کے فن کی یادگاریں ہیں۔ ان کی رباعیات کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ پاکستان اور امریکا میں ان کے فن کی کئی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ 1961میں انہیں فرانس کا اعزاز ’’ لاریٹے دی پیرس‘‘ پیش کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ 

استاد اللہ بخش
استاد اللہ بخش 

صادقین نے جنگلی پودوں( کیکٹس) کو اپنے فن کا موضوع بنایا اور انسانی جسم کو کیکٹس کی شکل میں پیش کیا۔ یہ اچھوتا انداز بھی صادقین کی پہچان بنا۔

مرحوم مصوّروں میں شیخ صفدر علی کا شُمار بھی ملک کے نمایاں جدید فنکاروں میں ہوتا ہے وہ کامیاب ڈیزائنر بھی تھے۔ انہوں نے ماڈرن آرٹ کی نئی لہر اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1924 میں گجرات( پنجاب) میں پیدا ہوئے، 983میں فوت ہوئے۔ 1952 میں قائم ہونے والے لاہور آرٹ سرکل کے بانی چھے ارکان میں شیخ صفدر علی شامل تھے۔

ماڈرن آرٹ کے حوالے سے انتہائی نمایاں فنکاروں میں بڑا نام احمد پرویز کا ہے۔ وہ فنکاروں کے ’لاہور گروپ‘ کے رکن اور لندن میں ’پاکستان گروپ‘ کے بانی تھے۔1926 میں راول پنڈی میں پیدا ہوئے اور 1979میں کراچی میں فوت ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک نمائش میں پہلا انعام حاصل کیا۔ وہ 1955سے 1964 تک لندن میں مقیم رہے،جہاں ان کی فنّی کاوشوں کی کئی’ یک نفری‘(سولو) نمائشیں منعقد ہوئیں۔ وہ دوبرس امریکا میں بھی رہے ،جہاں انہوں نے ‘گیلری انٹرنیشنل نیو یارک‘ میں اپنے فن کی نمائش کی۔ ان کے فن کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1978 میں ’صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی‘ پیش کیا اور ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ 

مصوّروں کی کہکشاں کے ایک اور روشن ستارے کا نام گل جی ہے ۔ انہوں نے عالمی شہرت حاصل کی۔ 25اکتوبر 1926 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انجینئرنگ میں آنرز ڈگری حاصل کی تھی، پھر اسی یونیورسٹی میں لیکچررہوگئے، پھر کولمبیا یونیورسٹی سے 1947میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں، اسٹاک ہوم چلے گئے،جہاں ڈیزائن انجینئر کی حیثیت سے سوئڈش کمپنی میں ملازمت کرنے لگے۔ اسٹاک ہو م ہی میں 1950 میں اپنے فن پاروں کی پہلی نمائش کی۔

گل جی
گل جی 

گل جی نے سر آغا خان کا اسکیچ بناکر شہرت حاصل کی، یہ اسکیچ کراچی آرٹس کونسل کے قیام کے لیے فنڈز کے حصول کے لیے کی گئی نیلامی میں فروخت ہوا۔ دیگر فنکاروں کی اس نیلام میں فروخت ہونے والی پینٹنگز میں یہ سب سے زیادہ قیمت میں فروخت ہونے والا اسکیچ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ اور ان کے خاندان کے افراد کی پورٹریٹس بنائیں۔ ’لاجورد‘ پتھر سے ظاہر شاہ کی پورٹریٹ بنائی۔ وہ ’موزیک‘ اور ’لاجورد‘ سے بے مثال کام کرتے تھے۔ 

انہوں نے مختلف دھاتوں اور قیمتی پتھروں سے کئی ممالک کے سربراہانِ حکومت کی پورٹریٹس بنائیں۔ انہیں میورلز بنانے میں کمال حاصل تھا۔ خطّاطی کےساتھ ساتھ تجریدی آرٹ میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ حکومت نے انہیں تمغۂ حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ان کے فن پارے پاکستان اور بیرون ملک کئی آرٹ گیلریز اور عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔

زبیدہ آغا
زبیدہ آغا 

گل جی اور ان کی اہلیہ زرّین گل جی کو ان کے ملازمین نے ان کے گھر (کلفٹن) میں قتل کردیا تھا۔ گل جی کی دو اولادیں ہیں۔ بیٹا امین گل جی( جو خود بھی مشہور فنکار ہیں) اور بیٹی زرمین گل جی۔

ایک اور نام ور فنکار، انور جلال شمزا( انور جلال بٹ) 1928 میں شملہ میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شملہ، لدھیانہ اور لاہور کے اسکولوں میں حاصل کی۔ 1943میں پنجاب یونی ورسٹی میں فارسی، عربی اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی، پھر وہ مصوّری کی طرف آئے اور 1947 میں ’میو اسکول آف آرٹ‘ سے ڈپلوما کورس کیا۔ برٹش کونسل کے وظیفے پر لندن گئے جہاں انہوں نے ’سیلڈ اسکول آف آرٹ‘ سے 1959 میں گریجویشن کیا۔ لندن میں قیام کے دوران ہی انہوں نے انگریز مصوّرہ ’میری کترینا‘ سے شادی کی۔1947 میں لاہور میں ‘شمزا کمرشل آرٹ اسٹوڈیو‘ قائم کیا اور وہاں سے ہی انہوں نے خود کو انور جلال شمزا کہلانا شروع کیا۔ وہ آرٹ اور آرکیٹکچر کے جریدے ’احساس‘ کے مدیر رہے۔

شاکر علی
شاکر علی 

ادیب اور شاعر بھی تھے۔ ان کے تحریر کردہ، اُردو میں سات ناول شائع ہوئے۔ وہ لاہور آرٹ سرکل(ماڈرنسٹ گروپ) کے سرکردہ رکن تھے۔ اپنے فن کے آغاز میں ماڈرن ازم سے متاثر تھے، بعد میں ان کے کام میں روایتی اسلامی اثر نظر آتا ہے۔ وہ ’پرنٹ میکر‘ رہے اور اس کام کی نمائش ٹوکیو میں کی۔ شمزا اپنی مصوّری میں اسلامی موضوعات کو لائے۔ 1962میں اہلیہ کے ساتھ انگلینڈ منتقل ہوگئے تھے، جہاں 1985میں فوت ہوئے۔  

وطن عزیز کی پون صدی پہ محیط مصوّری کی تاریخ میں، کولن ڈیوڈ کا نام بھی نمایاں ہے۔ ان کی شہرت کی خاص وجہ ’’فیگریٹیو نیوڈز‘‘ تھی۔ ان پر عریانی کا الزام لگا جس کی وجہ سے ان کے فن کی زیادہ تر نمائشیں گھروں میں منعقد ہوئیں، حتیٰ کہ یہ کام پولیس کے پہرے میں بھی ہوا۔ وہ 1937 میں پیدا ، 2008 میں فوت ہوئے۔ ان کے فن کی تقریباً درجن یک نفری نمائشیں لاہور اور کراچی میں منعقد ہوئیں۔ 1979 میں انہیں پینٹنگ میں قائد اعظم ایوارڈ اور 1995 میں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے 1960 میں ماسٹرز کیا تھا، پھر لندن کے ’سلیڈ اسکول آف آرٹ‘ میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1965 میں وہ این سی اے لاہور سے فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے وابستہ ہوکر تدریس کرنے لگے تھے۔ 

صادقین
صادقین 

پورٹریٹ کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو مشہور فنکار سعید اختر کا نام نمایاں ہے۔ ان کا تعلق ’’خطّاط‘‘ گھرانے سے تھا۔ ان کے چچا یوسف دہلوی ممتاز خطّاط تھے۔ سعید اختر 1938 میں پیدا ہوئے تھے۔ این سی اے لاہور سے گریجویشن کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے تفویض کی گئی ذمے داری پر پاکستان کے تقریباً 27ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیے۔ انہیں ’ستارۂ امتیاز‘ دیا گیا۔

1938 میں ہی پیدا ہونے والے ایک اور فنکار جمیل نقش کو ان کے فن کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہوئی۔ چند برس قبل لندن میں فوت ہوگئے ۔ وہ کیرانہ(انڈیا) میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد ان کا قیام لاہور اور کراچی میں رہا تھا۔ انہوں نے این سی اے لاہور سے آرٹ کی تعلیم حاصل کی لیکن ڈگری کورس مکمل نہیں کیا۔ ’منی ایچر‘ کی تعلیم ، میو اسکول آف آرٹ کے پروفیسر، استاد حاجی شریف سے حاصل کی تھی۔ جمیل نقش نے کبوتر‘ گھوڑے پینٹ کیے، نیوڈز بنائے، اسلامی خطاطی کی۔ پاکستان اور بیرون ملک ان کی فنّی کاوشوں کی کئی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ کراچی میں ان کی آرٹ گیلری ’’ممارٹ‘‘ ا ان کی بہن کے زیر انتظام ہے۔ آج جن فنکاروں کا کام مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے ان میں جمیل نقش بھی شامل ہیں۔ (جاری ہے)