• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال2022ء ماحولیات موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت خراب سال رہا ہے اس سال پاکستان، بھارت، چین، کینیڈا، کیوبا، فلوریڈا، ویتنام میں طوفانی بارشوں سیلابوں اور تیز ہوائی طوفانوں نے بہت تباہی مچائی ہے۔ سائنس دان اور ماہرین نے بہت پہلے سمندری طوفانوں ہوائوں اور بارشوں کو تین اقسام میں بانٹا ہے۔ سائیکلون، ٹائی فون اور ہری کین۔

حال میں ایان نامی طوفان نے ویتنام میں زبردست تباہی مچائی تیز و تند ہوائیں، طوفانی بارشیں پھر سیلاب جب مشترکہ طور پر ابھرتے ہیں تو پھر قیامت کا منظر ہوتا ہے۔ ویتنام کےحالیہ طوفان نے پنوئے کے قریب واقع ایک بڑے شہر کو چند گھنٹوں میں سطح زمین سے غائب کر دیا۔ عمارتیں زمین بوس ہوگئیں درخت اکھڑ کر بہہ گئے۔ زندگی تباہی اور موت کے سناٹوں میں تبدیل ہو گئی۔ اندازہ ہے کہ اس طوفانی سیلابی تباہی میں سات ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ ویتنام اس سے قبل بھی طوفانوں سے گزرا ہے مگر میڈیا کا کہنا ہے کہ اس سال کا طوفان زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ دراصل ویتنام کے حالیہ طوفان کو ٹائی فون کہا جاتا ہے جو سمندر میں ہوا کے کم دبائو سے پیدا ہوتا ہے۔ مشرق بعید اور بحرالکاہل میں خطے میں اکثر ٹائی فون پیدا ہوتے ہیں اور اب ان میں شدت آتی جا رہی ہے جو موسمی تبدیلیوں کا اثر ہے۔ جبکہ فیونا طوفان نے کینیڈا، کیوبا، فلوریڈا اور اطراف میں بہت زیادہ فیونا طوفان نے سب سے زیادہ فلوریڈا کو نقصان پہنچایا ہے۔

بارہ لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرکے دوسری ریاستوں میں چلے گئے۔ شہر کھنڈر بن چکے۔ درخت غائب ہو گئے، بڑی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ امریکی حکومت نے مخدوش عمارتوں کو ڈھا دینے کا حکم دیا ہے اس حوالے سے فلوریڈا ریاست کو اربوں کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

فلوریڈا کی تباہی اچانک ہوئی شہری اس کیلئے تیار نہیں تھے البتہ خبروں کے ذریعہ طوفان اور بارشوں کی اطلاع تھی مگر جس اچانک انداز میں یہ طوفان اور بارشوں کا سلسلہ شر و ع ہوا اس نے شہریوں کو سنبھلنے نہیں دیا اندازہ ہے کہ اس طوفان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے مویشی بہہ گئے انفرااسٹرکچر غائب ہو گیا۔ اسی طرح کیوبا میں بھی فیونا نے زبردست تباہی مچادی۔ کینیڈا میں ساحلی شہروں کو نقصانات برداشت کرنے پڑے۔

تاریخی طور پر ہری کین طوفان شمالی اور جنوبی بحراوقیانوس میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جبکہ اب بتدریج ان کی شدت میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا جو پہلے سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں ہری کین تیزو تند سمندری ہوائوں اور بارش کا سبب ہے۔ ہری کین تیس چالیس میل کے دائرے سے چار سو میل تک پھیل سکتا ہے۔ اس میں بارش بہت تیز ہوتی ہے اور ہوا کے طاقتور جھکڑ پیدا ہوتے ہیں جس میں انسان جانور ٹرانسپورٹ سب شدید متاثر ہوتے ہیں۔ یہ امریکہ، جنوبی امریکہ کے مشرقی ساحلوں پر زیادہ ہوتے ہیں ،اس ضمن میں ہالی ووڈ نے ساٹھ ستر برس قبل خاصی فلمیں بھی بنائی ہیں،جس میں بعض بعض موقعوں پر اصل مناظر دکھائے گئے ہیں جس سے دنیا کو ہری کین سے زیادہ آگاہی حاصل ہوئی اور اس کی پیدا کردہ تباہی کا اندازہ ہوا۔

موسمی تغیرات میں ٹائی فون، ہری کین اور سائیکلون ان میں زیادہ فرق نہیں۔ بہری کین تیز ترین ہوائوں کا سمندری طوفان ہے۔ سائیکلون بھی سمندر سے پیدا ہوتا ہے۔ سمندر میں کائونٹر کلاک بناتی تیزی ہوائیں دائرہ بناتی ہیں چلی جاتی ہیں یہ زیادہ تر جنوب شمال خط استوائی خطوں میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تیز سمندری ہوائیں بگولا بناتی ہیں یہ گرمی کی حدت سے پیدا ہوتا ہے۔

قدرتی ماحولیات کو دو حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا قدرتی ماحول جو صدیوں سے ایک معمول کے ساتھ کرئ ارض پر اثرانداز ہوتا ہے جیسے بارش،ہوائیں، دھوپ وغیرہ،ان میں کمی زیادتی ہوتی ہے جو موسمی تبدیلی کہلاتی ہے، لیکن گزشتہ ساٹھ ستر برس میں ماہرین نے موسمی تبدیلی کی ایک اور وجہ دریافت کی کہ انسانی آبادیاں جو روزمرہ کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ان میں قدرتی کوئلہ تیل گیس کا استعمال بڑھ چکا ہے جس سے کرئہ ارض کے قدرتی ماحول میں آلودگی کی مقدار اتنی بڑھا دی ہے کہ زمین کا قدرتی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے جس سے موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

یہ واضح رہے کہ کرئہ ارض کے قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیوں کے زمرے میں دنیا میں جو آلودگی پھیلی ہے اس میں تمام ممالک اور تمام انسانوں کا عمل دخل ہے۔ یہ درست ہے کہ آلودگی میں حصہ ڈالنے والوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت اور برازیل کا حصہ زیادہ ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں کاروں کی بہتات قدرتی کوئلہ تیل کا استعمال بھی بہت زیادہ ہے پھر ترقی پذیر ممالک کے عوام کی اکثریت قدرتی ماحول اور آلودگی کے پھیلنے سے کم کم آگہی رکھتی اور اس کی پروا بھی نہیں کرتی۔ مثلاً کراچی یا دیگر علاقوں کے کارخانوں فیکٹریوں وغیرہ کا تمام آلودہ پانی اور کوڑا کرکٹ سمندر برد اور دریا برد کردیا جاتا ہے۔ 

ملک کے ماحولیاتی ادارے اس پر بار بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ کراچی کے ساحلوں پر آلودگی بڑھ رہی ہے۔ سمندری حیاتیات شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ بیشتر مچھلیوں کی اقسام معدوم ہو چکی ہیں جس میں مشہور چھوٹی مچھلی تونا بھی شامل ہے۔ کراچی کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سمندر میں آلودگی میں اضافہ کی وجہ سے ہمیں آگے گہرے سمندر کی طرف جانا پڑتا ہے، جبکہ ان کی کشتیاں چھوٹی اور پرانی ہیں۔

ملک میں درختوں کی کٹائی منع ہے اس ضمن میں سخت قوانین موجود ہیں مگر جنگلات کی کٹائی دن دہاڑے عمل میں آتی ہے شمالی علاقوں میں تودے گرنے اور بارشوں کا پانی شہری دیہی علاقوں میں بلاروک ٹوک داخل ہو جاتا ہے۔ ٹنوں کے حساب سے ہم روزانہ کچرا بھی جلاتے ہیں اور ماحول کو آلودہ بناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو موسمی تغیرات اور ماحول میں تبدیلی کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی دلیل ہے کہ یہ سب فطرت کا نظام ہے باقی محض اداروں کے مصنوعی فارمولے ہیں جس کے سبب وہ ہر سال بڑا بجٹ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے مغرب میں بھی ہیں مثلاً سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ بیشتر لوگ گلوبل وارمنگ، گلوبل کولنگ کو تسلیم نہیں کرتے یہ قدامت پسند افراد ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد کچھ زیادہ ہے۔

دنیا کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ موسمی تغیرات ماحولیات میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافہ سے دنیا مختلف گھمبیر مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے مثلاً خشک سالی، خوراک اور پینے کے صاف پانی میں کمی، قحط سالی، مہنگائی و دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سرد موسم میں یورپ اور امریکہ کے خطوں میں زبردست برفباری ریکارڈ کی گئی جبکہ موسم گرما میں شدید گرمی اور درجہ حرارت چالیس بیالیس ڈگری تک ریکارڈ کی گئی۔ ان دونوں واضح موسموں میں بارشوں کا بھی سلسلہ جاری رہا عام طور پر جو اوسط بارشیں قابل برداشت ہوتی ہیں یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں اس طرح کی بارشیں عام ہیں ہر فرد گھر سے چھتری لے کر نکلتا ہے کہ نہ جانے کب بارش ہو جائے۔ مگر اس معمول کی بارشوں سے ہٹ کر تیز ترین مرسلا دھار طوفانی بارشیں تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔

پاکستان میں بارشیں توقع سے بہت زیادہ تھیں ،اس سے قبل اس طرح کی بارشیں چین، بھارت اور قریبی علاقوں میں برس چکی ہیں، چونکہ پاکستان میں بارشوں اور دریائی سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر نہیں کئے گئے اس لئے حالیہ بارشوں نے تباہی مچادی آخرکار یہ تمام پانی سندھ میں آکر جمع ہوا جبکہ سندھ کے بالائی حصوں میں تیز بارشیں بھی ہوئیں ایسے میں سندھ زیادہ متاثر ہوا۔ ایک زمانہ میں کالا باغ ڈیم تعمیرکرنے کا بہت چرچا رہا۔ مگر سیاسی کشمکش کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔ ہر چند کہ غیر ملکی ماہرین نے کہاکہ کالا باغ ڈیم تعمیرکرنے کے بجائے اس ضمن دس چھوٹے ڈیم تعمیر کر لیں جبکہ پڑوسی ملک میں آزادی کے بعد وہاں اب تک چھ سو ڈیم تعمیر کئے جا چکے ہیں۔

ہمار ی منصوبہ بندی ناقص رہی۔ اس میں ملکی ضرورت سے زیادہ سیاسی معاملات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ اب ہماری اعلیٰ قیادت موسمی تغیرات اور قدرتی ماحولیات میں بگاڑ کی ذمہ داری غیر ممالک پر لاد کر بری الزمہ ہو رہی ہے کہ آلودگی جن ممالک نے پھیلائی وہ ہمیں حالیہ سیلاب کی تباہی کا معاوضہ ادا کریں۔ ایک بار معذرت خواہ ہوں کہ اس نوعیت کے بیانات جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

اگر ایسا ہی ہو تو حکومت کو چین سے کوویڈ۔19کے بیانی نقصانات کا معاوضہ بھی طلب کرنا چاہئے تھا۔ اب ذکر کوویڈ کا آیا تو واضح رہے کہ کوویڈ۔19کا سلسلہ جاری ہے امریکی سرکاری شعبہ صحت کے مطابق امریکہ میں کوویڈ کا سلسلہ جاری ہے اور ہر ماہ سو سے زائد افراد اس وبائی مرض کا شکار ہو رہے ہیں اس ضمن میں یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کوویڈ19کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں شاید مزید وقت لگ سکتا ہے۔ دو وبائی امراض مزید پنپنے کے منتظر ہیں اور ان کی روک تھام کے لئے ہرممکن کوشش جاری ہے۔

ماحولیات کے اثرات دنیا بھر میں مسائل کو جنم دے رہے ہیں اس حوالے سے اقوام متحدہ کی ماحولیات کی ٹیم نے ایک جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ قدرتی ماحول میں آلودگی کے مہیب اثرات نے زمینی ہوائی اور بحری آلودگی میں مزید اضافہ سے قدرتی ماحول کو مزید خطرات کا سامنا ہے۔ امریکی ساحلوں اور سمندروں کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ساحلوں کے پندرہ بیس فٹ تک پانی اندر داخل ہو جاتا ہے بحراوقیانوس میں سمندری لہریں چھ تا آٹھ فٹ تک اونچی اٹھتی ہیں۔ رپورٹ میں سمندری آلودگی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ 

جس میں سمندر میں پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بوتلیں بچی کچھی خوراک ڈالدی جاتی ہیں جس کی وجہ بحری آلودگی میں مسلسل اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ پوری دنیا میں پلاسٹک کی مصنوعات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ ان میں سے بیش تراشیاء سمندری حیاتیات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں کیونکہ مچھلیاں ان اشیاء کو نگل جاتی ہیں اور وہ بیمار ہو کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔ کرئہ ارض پر قدرتی ماحول میں خرابی اور موسمی تبدیلیوں کے اسباب کے جائزوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ پلاسٹک کی اشیاء کی بہتات سمندر میں آلودہ پانی اور پلاسٹک کا کچرا بحری آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ درختوں کی کٹائی، روزانہ بچی ہوئی ٹنوں خوراک کوڑے دان کی نذر ہو رہی ہے جس سے خوراک کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال محض افریقی ممالک میں ڈھائی لاکھ افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ہزاروں ہوائی جہاز فضا میں ہر روز گردش کرتے ہیں اور فضا میں گیسولین کا دھواں شامل کرتے رہتے ہیں جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ایک طرف لاکھوں وہیکل سڑکوں پر دھواں چھوڑ رہی ہیں دوسری طرف ہزاروں طیارے ہر روز گیسولین کا دھواں فضا میں شامل کر رہے ہیں جس سے پھیپھڑوں کی بیماری اور سانس کی بیماری عام ہو رہی ہیں۔

گزشتہ سال چین میں پانچ لیول کا سیلاب آیا تھا جس سے چین کو زبردست نقصان پہنچا مگر حکومت نے حالات پر اپنے طور پر قابو پالیا۔ ایک جائزہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بیشتر ترقی پذیر ممالک میں غیر مؤثر حکمرانی عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے درحقیقت بیشتر ترقی پذیر ممالک میں رشوت ستانی، بدعنوانی، ناانصافی اور بدامنی عام ہے جس کی وجہ سے ان ملکوں کے معاشرے بے چینی اضطراب اور افراتفری کا شکار ہیں ایسے میں عوام بے بس اور گومگو کا شکار ہیں بیشتر ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت ناپید ہے بولنے پر پابندی ہے۔ ایسے معاشروں میں گھٹن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ جدید دنیا کے عصری تقاضوں کی تکمیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ تذبذب مایوسی اور افراتفری عام ہو جاتی ہے۔ 

نظم و ضبط کی کمی، سماجی شعور میں کمی، قانون کی بالادستی میں کمی کی وجہ سے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل اور سماجی آلودگی میں اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ لاطینی امریکی ممالک، افریقی اور ایشیائی ممالک کے زیادہ معاشرے مذکورہ مسائل کا شکار ہیں اور ان ممالک میں ترقی کی رفتار صفر سے کچھ اوپر ہے گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں فیشن کی صنعت نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بڑے فیشن ہائوسز کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے دلچسپ حقیقت ہے کہ اس سے بھی دنیا میں آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صنعت سے لاکھوں افراد کاروزگار جڑا ہوا ہے۔

درحقیقت سرمایہ کار کے لئے پیداوار ضروری ہوتی ہے، اسی سے وہ منافع کماتا ہے جب پیداوار میں اضافے کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کے لئے انرجی بہت ضروری ہے اور انرجی کے حصول کے لئے قدرتی گیس کوئلہ اور تیل کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو آخرکار آلودگی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے مگر سرمایہ دار اور سرمایہ کار کے لئے اہم پیداوار اور منافع ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سرمایہ کے تحفظ کے حوالے سے بھی اقدام کرتا ہے ایسے میں اس کے لئے قدرتی ماحول کرئہ ارض کا تحفظ محض رسمی باتیں ہوتی ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائےگا کیا۔

بحری آلودگی کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بارہ فیصد لوگ مچھلی اور دیگر سمندری حیاتیات سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں گویا اجناس کے بعد سمندری حیاتیات بھی انسانی خوراک کا اہم ذریعہ ہیں۔

بعض ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول میں بگاڑ اور موسمی تغیرات کے سبب خدشہ بڑھ رہا ہے کہ یہ مسائل عالمی جنگ میں نہ تبدیل ہو جائیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا اپنے تمام مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض پورا زور بین البراعظمی میزائل سسٹم کو ترقی دینے اور دورمار میزائلوں کے تجربے کرنے میں مصروف ہے۔ وہ بار بار امریکہ کو للکارتا رہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے اسلحہ خانے کو بھرنے کے لئے روس امریکہ اور یورپ سے جدید تر ہتھیاروں کی خریداری میں مصروف ہے۔ ایسے میں امریکہ جو بھارت سے دوستی تو رکھتاہے مگر اس نے ایف سولہ طیاروں کے اہم کل پرزے پاکستان کو فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس پر بھارت اور امریکہ کے مابین قدرے کشیدگی عود کر آئی ہے۔ 

ایسے میں بھارت مزید روس کی طرف جا سکتا ہے۔ درحقیقت ترقی پذیر ممالک کے رہنمائوں کو سوچنا ہوگا کہ بدلتی دنیا میں عالمی سیاست کروٹ بدلتی رہی ہے۔ کچھ بھی دائمی نہیں ہوتا یہ بات طے ہے کہ امریکہ کسی طور پر بھارت کو بڑی طاقت بنتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ چین کے معاملے میں جو غلطی کر بیٹھا ہے اب اسی کو دہرا نہیں سکتا۔ امریکہ خطے میں چین کا سیاسی گھیرائو کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہماری اعلیٰ قیادت کو بدلتی دنیا کے عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی یہ وقت کا تقاضا ہے آج کی دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری مسئلہ معیشت کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔ معیشت جتنی مضبوط ہوگی ملک کا وقار اتنا ہی بڑھے گا۔ متروک اور چلے ہوئے نعروں کا وقت گزر چکا عالمی منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے جو زمانے کے ساتھ چلے گا وہی سرخرو ہو گا۔

کرئہ ارض اب زیادہ دیر تک انسانی خواہشات آسائشات کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی۔ زمین کا نصف سبزہ معدوم ہو چکا ہے۔ زمین فضا آب سب آلودہ ہو چکے ہیں۔ قدرتی ماحول بگڑ چکا ہے۔ موسمی تبدیلیاں اب کرئہ ارض پرگھر کرچکی ہیں۔

انسانوں نے مزید اس کرئہ ارض دور انسانیت کی تباہی کے سامان بنا رکھے ہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً دنیا اٹھارہ سے زائد ممالک کے پاس خطرناک مہلک جو ہری ہتھیار موجود ہیں۔ ہیروشیما ناگاساکی کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے اب بیشتر ممالک نے تیز وبائی ہتھیار تیار کر لئے ہیں جیسے ڈھائی سو پانچ سو اونس وزن کے جوہری بم جس سے کسی مخصوص جگہ یا آبادی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان چھوٹے جوہری بموں کو یوکرائن میں استعمال کی دھمکی دی تھی اس طرح دیگر ممالک نے بھی دوسرے کو ان بموں سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ تو گویا انسان اپنی خواہشات اور دشمنی کی تکمیل کے لئے انسانوں کو تلف کرنے کے نت نئے حربے ایجاد کر لئے ہیں۔

خواہ تزواثیاتی ہتھیار ہوں یا چھوٹے وزن کے جوہری بم جہاں گریں گے وہاں تو خوفناک اور ہولناک تباہی پھیلا کر سب ملیامیٹ کر دیں گے مگر ان ہتھیاروں کے تابکاری اثرات کسی علاقے یا سرحدوں کے پابند نہیں ان کے تابکاری اثرات دور تک پھیلتے ہیں اور طویل عرصے تک اپنی بھیانک تباہی پھیلاتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہیروشیما ناگاساکی جزائر پچھتر برس قبل معدوم ہو گئے وہاں آگ اور راکھ کے سوا صرف خوفناک بیماریاں ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود تابکاری سے متاثرہ افراد کی اولادیں بھی ان بیماریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ نوزائیدہ بچے اپاہج پیدا ہوتے ہیں، کسی کی آنکھ نہیں، کسی کا ہاتھ نہیں ،کسی کی کھال اُدھڑی اُدھڑی، کان غائب یا پائوں غائب۔

موجودہ دور کے کم طاقت یا زیادہ طاقت کے جوہری ہتھیاروں کی تباہی اور بربادی کے اثرات وہی ہیں جو ماضی قریب میں تھے۔ اس طرح انسان اپنی نفرت، دشمنی اور مفادات کے اثر میں اندھا ہو کر کسی بھی وقت کچھ کر سکتا ہے۔ انسان کو اس لمحہ سے بچائو کی کوششیں کرنا چاہئے اور زمین پر دائمی امن قائم کرنے کی کوششیں کرنا چاہئے۔ مگر یہ انسانی سرشت میں ہے کہ وہ اپنے ہم نفسوں کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔ حسد، لالچ دوسرے پر غالب آنے کی خواہش خود اس کو دوسروں کو مسلسل نقصان پہنچاتی رہی ہے۔

فضائی آلودگی وہ ہے جس میں فیکٹریوں کارخانوں، قدرتی کوئلہ گیس کا دھواں شامل ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں کاروں کی ہر سال بڑی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے۔ بجلی کے آلات سے نکلے والی مہین گیسیں یہ سب فضائی آلودگی میں اضافہ کرتےہیں۔

بین الاقوامی ہوائی کمپنیوں کی فیڈریشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ہزاروں طیارے ہر وقت ہوا میں پرواز کرتےہیں ان کی گیسولین کا دھواں فضا میں جمع ہوتا رہتا ہے اور فضائی آلودگی کا سبب بن رہا ہے جبکہ ہوائی سفر میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا ہے اس وجہ سے بھی فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے اس کے علاوہ دنیا بھر کی کاروں، ریلوں، مشینری کا دھواں بھی فضا میں جذب ہوتا ہے اور بڑے نقصانات کاسبب بن رہا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی جگہ تیزابی بارش کا برسنا بھی انسانی حیوانی اور نباتیات کے ضرررساں ثابت ہو رہاہے۔

پانی کی آلودگی یا بحری سمندری آلودگی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں سمندری آلودگی کی وجہ سے سمندری حیاتیات کی اقسام میں کمی ہو چکی ہے۔ بےشمار اقسام معدوم ہو چکی ہیں۔ کثافت نے مچھلیوں کی حیات کو شدید خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ اس طرح زمین پر آلودگی کی شرح زیادہ ہے۔ فصلوں کی تیاری میں خطرناک کیمیکل زدہ مصنوعی کھادوں کا استعمال، آلودہ پانی، گندا کوڑا کرکٹ، معدنیات کی تلاش میں زمین کی کھدائیاں جس سے زمین شدید متاثر ہو رہی ہے بلکہ کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔

ہر لمحہ ہزاروں ٹن معدنیات، قدرتی کوئلہ، تیل اور گیس زمین سے نکلنے کے بعد یہ خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ انسان کی بنیادی ضروریات سہی مگر زمین پر اس کے مہیب اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ ہرجیوجیکل سروےمیں ان خدشات کا ذکر نمایاں ہوتا ہے۔

ہم شور کے عادی ہوتے جا رہے ہیں مگر شور میں بتدریج اضافہ اعصابی دبائو، سماعت کی کارکردگی میں گراوٹ کے اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے ہر مہینے تین سے پانچ لوگ افراد شور کی وجہ سے اپنی سماعت کھو رہے ہیں۔ لاکھوں افراد اعصابی دبائو کا شکار ہو رہے ہیں۔ بیشتر افراد ان بیماریوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ شور کی مقدار میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ان تمام تر مصائب جھیلتے ہوئے دھرتی کی حالت قابل رحم ہوتی جارہی ہے۔ وہ ہم سے انصاف مانگتی ہے۔