مصوّری کے شائقین اور مصوّری کے فن پاروں کو جمع کرنے والوں میں اے آر ناگوری(عبدالرحیم ناگوری) بھی بہت مقبول ہیں۔ وہ 1939 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے فائن آرٹس میں بی اے (آنرز) ،پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(فائن آرٹس) کیا۔ پھر اسی یونیورسٹی میں 1965 میں، فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر ہوئے، بعدازاں کیڈٹ کالج کوہاٹ میں فائن آرٹس کے شعبے کے سربراہ مقرر ہوئے اور پھر ایئرفورس میں ایجوکیشن آفیسر ہوئے۔ 1970 میں سندھ یونیورسٹی جام شورو چلے گئے، وہاں فائن آرٹس کا شعبہ قائم کیا اور اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ کئی سرکاری اداروں اور وزارتوں کے مختلف شعبوں کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے۔ 2010 میں انہیں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا۔
اے آر ناگوری کے فن کی کئی نمائشیں کراچی اور لاہور میں منعقد ہوئیں۔ وہ سماجی و سیاسی معاملات و واقعات کو اپنی پینٹنگز کا موضوع بناتے تھے۔ ان کی ایک نمائش پر تو حکومت وقت نے پابندی بھی عائد کی تھی۔ وہ 2011کو فوت ہوئے۔
پاکستان محکمۂ ڈاک نے جن مصوّروں کی تصویر کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے ان میں مشہور مصوّر ظہور الاخلاق شامل ہیں۔ انہوں نے ’’انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر کراچی‘‘ کا ’لوگو‘ ڈیزائن کیا تھا۔ تیسری اسلامی سربراہ کانفرنس (مکہ مکرّمہ) کے انعقاد کے موقع پر محکمہ ڈاک پاکستان کے دو خصوصی ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیے تھے۔ انہیں ’ستارۂ امتیاز‘ سے نوازا گیا۔
ظہور الاخلاق 1941میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1999 میں لاہور میں غیر طبعی موت کا شکار ہوئے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آئے تھے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور چلے گئے اور این سی اے( نیشنل کالج آف آرٹس) لاہور سے فائن آرٹ میں ڈپلوما کیا۔ 1966 میں لندن گئے، پوسٹ گریجویشن کیا، پھر امریکا میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔1963 سے 1991تک این سی اے میں لیکچرر، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر رہے، فائن آرٹس شعبے کے سربراہ بھی رہے۔ انقرہ(ترکی) کی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر اور پھر کینیڈا اونسٹریو کالج آف آرٹ میں بھی وزیٹنگ پروفیسر رہے۔
لینڈ اسکیپ ، ڈرائنگز اور تجریدی آرٹ میں منفرد انداز کے فنکار، تیز رنگوں کا استعمال جن کی پہچان، یہ تھے بی ایم(بشیر مرزا) جن کے فن پاروں کی مانگ اور قیمت وقت کے ساتھ بڑھتی گئی ۔ وہ 1941 میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت والدین کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور آگئے۔ انہوں نے این سی اے سے گریجویشن کیا۔ 1962 میں کراچی آگئے اور زندگی کے آخری لمحےتک کراچی میں ہی رہے۔ 1989 میں آرٹس کونسل میں منعقدہ ان کی پینٹنگز کی نمائش کا افتتاح بیگم نصرت بھٹو نے کیا تھا۔ 1994 میں انہیں آسٹریلیا میں پاکستانی سفارت خانے میں ثقافتی اتاشی بناکر بھیجا گیا۔ 1996 میں وہ واپس آئے۔ انہوں نے پاکستان کے دو ڈاک ٹکٹ بھی ڈیزائن کیے۔ 2000 میں کراچی میں فوت ہوئے۔ محکمہ ڈاک نے جن معروف مصوّروں کے تصویری ڈاک ٹکٹ جاری کیے ان میں بی ایم شامل تھے۔
1971 میں کراچی میں ’انڈس گیلری‘ قائم کرنے والے معروف مصوّر علی امام تھے۔ ملک میں فن اور فنکاروں کی ترقی میں اس گیلری کا کردار بنیادی رہا۔ یہ گیلری بہت مشہور ہوئی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ علی امام 1924 میں نرسنگھ پور (مدھیہ پردیش ۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ناگ پور آرٹ اسکول اور جے جے اسکول آف آرٹ میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1950 کے عشرے میں اپنے ترقی پسند خیالات کی وجہ سے تین بار جیل گئے۔ انہوں نے لاہور میں قیام کے دنوں میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا،پھر لندن چلے گئے ،وہاں تقریباً گیارہ برس مقیم رہے، وہاں بھی انہوں نے دو مشہور آرٹ اسکولوں میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ علی امام نے آرٹ میں اپنے شاگردوں کو آگے بڑھایا۔ ان کی گیلری میں صادقین، گل جی اور اقبال مہدی کے فن کی نمائشیں بھی ہوئیں۔
ان کی شہرت ماڈرن آرٹ کے حوالے سے بہت تھی۔ ان کے فن اور فن کی خدمت کے اعتراف میں انہیں تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا اور ان کا تصویری ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ کراچی میں 2002 کو فوت ہوگئے۔
وہاب جعفر معروف مصوّر ہونے کے ساتھ ساتھ ’آرٹ کلکٹر‘ کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ ان کے فن میں زندگی کی مسرتیں، روشنی اور رنگ نظر آتے ہیں۔ وہ تجریدی آرٹ کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان کی فنّی کاوشوں کی پہلی یک نفری نمائش 1981کو انڈز گیلری میں منعقد ہوئی تھی، اس کے علاوہ اسلام آباد، کینیڈا، امریکا اور انڈیا میں بھی نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔ ان کے ذاتی ذخیرے میں ملک کے نام ور مصوّروں سمیت کئی ممالک کے فنکاروں کے فن پارے، مجسمے، قلمی نسخے اور منی ایچرز موجود ہیں۔ وہ 1941 کو پونا (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ کراچی میں مقیم ہیں۔
سلیمہ ہاشمی معروف مصوّرہ ہونے کے ساتھ ساتھ کیوریٹر اور کنٹمپوریری آرٹ کی تاریخ نویس بھی ہیں۔ وہ 1942 میں دہلی( انڈیا) میں پیدا ہوئیں۔ 1947میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ این سی اے سے تعلیم حاصل کی اور پھر انگلینڈ چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے آرٹ ایجوکیشن میں ڈپلوما کیا، پھر امریکا میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے این سی اے میں تقریباً تین عشروں سے زائد عرصہ تدریس کی۔ وہ ممتاز شاعر فیض احمد فیض کی دُختر ہیں۔ انہوں نے پاکستانی خواتین پینٹرز کی حیات اور فن کے بارے میں کتاب بھی لکھی ہے۔ انہیں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
وطن عزیز کی مصوّری کے 75برسوں کی تاریخ نہایت شاندار ہے۔ کیسے کیسے مصوّر سامنے آئے جن کا فن قابل قدر اثاثہ بنا ہے۔ ان مصوّروں میں سیّد اقبال مہدی نقوی بھی نمایاں ہیں۔ اقبال مہدی کو پورٹریٹ بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ پین اینڈ اِنک ڈرائینگ وہ کمال کی کرتے تھے۔ ہفت روزہ ’اخبارِ جہاں‘ کراچی کے لیے برسوں اسکیچ بنائے۔ 70ء کے عشرے کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ انہوں نے نوجوانی میں ہی شہرت حاصل کرلی تھی۔ ان کے والد بھی مصوّر تھے، شاعری بھی کرتے تھے۔ وہ پیسٹل چاک سے تصویریں بناتے تھے۔
اقبال مہدی 1946میں امروہہ ( یوپی۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنےایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے آئل پینٹنگ کرنا، مرزا سجاد حسین سے سیکھا جو لکھنؤ آرٹ کالج اور علی گڑھ یونیورسٹی میں آرٹ سکھاتے تھے۔ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے دوست تھے اور ڈاکٹر محمود حسین کے کہنے پر پاکستان آگئے۔ اقبال مہدی کا کہنا تھا کہ ’’میری بنائی ہوئی پہلی تصویر 25روپے میں فروخت ہوئی، یہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ جب 80ء کے عشرے میں سعودی عرب کے شاہ خالد کی پورٹریٹ بنائی تو اس کے ڈیڑھ لاکھ روپے ملے۔ لیکن پیسے سے میرے فن کا تعیّن نہیں ہوسکتا۔
میں اپنی بنائی ہوئی لاکھوں روپے والی پینٹنگ چند ہزار میں بھی فروخت کردیتا ہوں اور بطور تحفہ بھی دے دیتا ہوں۔ ‘‘ اقبال مہدی کی پہلی یک نفری نمائش 1969 میں ہوئی تھی۔ سابق گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ اس افتتاحی تقریب میں ممتاز شاعر فیض احمد فیض نے بھی تقریر کی تھی۔ ان کی بنائی ہوئی ڈرائنگز، پینٹنگز ،پاکستانی بینکوں ، گورنر ہائوسز، چیف منسٹر ہائوسز، وزیر اعظم ہائوس، بڑے ہوٹلوں اور آرٹ کلیکٹرز کے گھروں کی زینت بنیں۔ ان کے تقریباً 25سولو شوز ہوئے، ان کے علاوہ کئی ممالک میں بھی ایسے شوز منعقد ہوئے۔ انہوں نے ملک کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، اعلیٰ فوجی افسران کے پورٹریٹس بنائے۔ افواج پاکستان کے لیے میورلز بنائے۔ اقبال مہدی کا انتقال 2008کو راول پنڈی میں ہوا۔
وطن عزیز کی خواتین مصوّروں میں لیلیٰ شہزادہ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی، ملک کے علاو ہ لندن، پیرس، ٹوکیو، نیویارک میں ان کے فن کی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ وہ 1926 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی پہلی یک نفری نمائش 1960میں کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی تھی۔ انہوں نے وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب پر یادگار کام کیا۔ اس کام کی نمائش 1976 میں کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ ان کی فنّی کاوشوں کی آخری نمائش 1994 میں کراچی میں منعقد ہوئی، اسی سال وہ فوت ہوئیں۔
جب خواتین پینٹرز کا ذکر آئے تو رابعہ زبیری کا ذکر لازم ہے۔ وہ پینٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مجسمہ ساز بھی تھیں۔ ان کا نہایت اہم اور یادگار کام’’ کراچی اسکول آف آرٹ‘‘ کا قیام ہے۔ اس کی وہ بانی پرنسپل رہیں۔ اس اسکول نے ملک کو کتنے ہی مصوّر دیے ہیں۔ ہزاروں لڑکے لڑکیاں یہاں سے آرٹ کی تعلیم حاصل کرکے آج مصوّری کے شعبے میں قابل قدر کام کررہے ہیں۔
رابعہ زبیری 1949میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں تھیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ مجسمہ سازی میں لکھنؤ کالج آف آرٹ سے 1964میں ڈپلوما کیا اور اسی برس کراچی آگئیں۔ اُن کے فن کی پہلی بڑی نمائش 1970 میں پاک امریکن کلچر سینٹر کراچی میں منعقد ہوئی تھی، اس نمائش میں ان کے بنائے ہوئے مجسمے پیش کیے گئے تھے۔ موجودہ برس وہ فوت ہوئیں۔
اور اب ذکر رفعت علوی کا جو رنگون والا آرٹ گیلری کی 1987 سے ڈائریکٹر ہیں، وہاں آرٹ کی تدریس بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے اس گیلری کو بہتر سے بہتر کیا۔ کراچی اسکول آف آرٹ سے گریجویشن کیا ،پھر وہاں آرٹ ٹیچر رہیں۔ وہ پینٹنگ اور مجسمہ سازی کرتی ہیں، پینٹنگ کے لیے رنگ خود بناتی ہیں وہ بھی مٹّی کی آمیزش سے۔ مٹی سے انہیں عشق ہے۔ مختلف ممالک کے دورے کیے ہیں، جہاں جاتی ہیں وہاں کی مٹی ساتھ لاتی ہیں۔رفعت علی 1944میں پیدا ہوئیں۔ ان کی فنّی کاوشوں کی پہلی کاوش 1993میں رنگون والا گیلری میں منعقد ہوئی تھی، دوسری بڑی نمائش بریڈ فورڈ انگلینڈ میں منعقد ہوئی تھی۔
وطنِ عزیز میں جن خواتین مصوّروں نے اپنے فن سے شہرت حاصل کی ان میں ناہید رضا بھی نمایاں ہیں، ان کے فن کا بنیادی موضوع عورت ،نسوانیت ہے۔ انہوں نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے عورت کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ناہید رضا 1947میں پیدا ہوئیں۔ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اینڈ کرافٹس سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے ’’عورت‘‘ کے عنوان سے سیریز بنائی، جس کی 1987میں چوکنڈی آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی تھی۔
خواتین پینٹرز میں لبنیٰ آغا کا نام بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے زیادہ تر کام کینوس اور لکڑی پر کیا۔ ان کا فن نیشنل کونسل آف دی آرٹس پاکستان، بریڈ فورڈ میوزیم انگلینڈ اور جارڈن نیشنل گیلری آف فائن آرٹس اردن کی گیلریز میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ کراچی اسکول آف آرٹس نے اپنے ہاں ان کے نام سے ’لبنیٰ آرٹ گیلری‘ منسوب کی جہاں ان کا کام محفوظ ہے۔ مارسیلا نیم سرہندی نے ’لبنیٰ آغا: پوائنٹس آف ریفرنس‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی جسے پاکستان میں ’فائونڈیشن آف ماڈرن آرٹ‘ نے شائع کیا۔ اندرون و بیرون ملک ان کے فن کی تقریباً ڈیڑھ درجن نمائشیں منعقد ہوئیں۔ وہ 1949میں پیدا اور 2012میں بروکلین میں فوت ہوئیں۔
خواتین فنکاروں میں مہر افروز نے اپنی شناخت پرنٹ میکر کے طور پر بنائی لیکن انہوں نے آرٹ کی مختلف جہتوں میں کام کیا۔ ایکریلک میں نمایاں کام کیا۔ ان کی ’ماسک سیریز‘ اور ’پورٹریٹ سیریز‘ بہت مشہور ہوئیں۔ 1994 میں انہوں نے کراچی کے پُر تشدد ماحول کو اپنی پینٹنگز کا موضوع بنایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج آف آرٹس لکھنؤ سے گریجویشن کیا تھا۔ ان کا فنّی سفر جاری ہے۔
لینڈ اسکیپ کے حوالے سے معروف پینٹر خالد اقبال نے پورٹریٹس بھی بنائیں، مصوّری میں اپنا انداز اختیار کیا۔ انہوں نے پنجاب کے دیہات کو پینٹ کیا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 1929میں شملہ میں پیدا ہوئے۔ دہرہ دون میں تعلیم حاصل کی۔ لاہور ایچیسن کالج میں تدریس کی، پھر لندن میں آرٹ کی تعلیم حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں آرٹ کی تعلیم دی۔بعد ازا ں، این سی اے سے وابستہ ہوکر وہاں آرٹ کے شعبے کے سربراہ ہوگئے۔ خالد اقبال کے فن کے اعتراف میں انہیں حکومت نے ’تمغۂ قائد اعظم‘ اور’ تمغۂ حسن کارکردگی‘ دیا۔
’رئیل اِسٹک‘ آرٹ کے حوالے سے مرحوم شکیل صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ میز کومیز پوش کے ساتھ مع مکمل جُزیات انہوں نے بہت دل کش انداز میں پینٹ کیا۔ یہ پینٹنگ بہت مشہور ہوئی۔ اُن کی فنّی کاوشوں کی پہلی نمائش 1977 میں منعقد ہوئی تھی۔ انہوں نے کراچی اسکول آف آرٹ اور سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اینڈ کرافٹس سے آرٹ کی تعلیم حاصل کی ، پھر امریکا چلے گئے تھے۔ قلیوں‘ چائے خانوں وغیرہ کو پینٹ کیا اور شہرت حاصل کی۔
روایتی مغل منی ایچر آرٹ کو جدّت کے آمیزش کے ساتھ اپنے انداز میں پیش کرنے والی مصوّرہ حاجرہ منصور نے لکھنؤ آرٹ کالج سے گریجویشن کیا۔ اپنی بہن رابعہ زبیری کے ساتھ کراچی اسکول آف آرٹ‘ قائم کرنے میں ان کے ساتھ تھیں’۔ لینڈ اسکیپ کے حوالے سے شاہد جلال کا نام نمایاں ہے۔ آرٹ کی اس صِنف میں انہوں نے مہارت حاصل کی۔ یوں تو وہ چارٹرٹ اکائونٹنٹ ہیں لیکن اسے انہوں نے پیشہ نہیں بنایا،ر آرٹ اُن کا ذریعہ آمدنی ہے۔ انہوں نے این سی اے لاہور سے آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1979 میں ان کے فن کی پہلی نمائش منعقد ہوئی تھی۔
مجسمہ سازی اور زیورات ڈیزائننگ میں امین گل جی نے شہرت حاصل کی ۔ انہوں نے تانبے سے گندھارا آرٹ کے زیورات کے نمونے بناکر اپنی پہلی نمائش میں پیش کیے۔ یہ نمائش 1989 میں انڈس گیلری میں منعقد ہوئی تھی۔ انہوں نے تجریدی آرٹ میں مجسمے بنائے، قرآنی آیات کو تانبے سے کیا۔ ملک کے علاوہ بیرون ملک اُن کے فن کی نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔ ان کا تانبے کا کام کراچی اور بیرون ملک چورنگیوں پر نصب ہے۔ وہ ملک کے نامور فنکار گل جی کے بیٹے ہیں۔
فیگریٹیو آرٹ، گھوڑوں کو پینٹ کرنے کی خصوصیت کے حوالے سے معروف فنکار مشکور رضا(مشکور رضا خان) نے آرٹ کی تعلیم کراچی اسکول آف آرٹس سے حاصل کی، پھر اسی اسکول میں اور سینٹ لارنس اسکول کراچی میں ، تدریس بھی شروع کی، بعد ازا ں ’مشکور اسکول آف آرٹ‘ گلشن اقبال کراچی میں قائم کیا جو تقریباً دس برس کے بعد بند کردیا۔ مشکور رضا جن فنکاروں سے متاثر ہوئے ان میں بشیر مرزا، منصور راہی، گل جی اور خصوصاً صادقین و احمد پرویز ہیں۔
مشکور رضا نے آرٹ کی مختلف جہتوں میں اپنی فنّی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ فیگریٹیو، کنٹمپوریری کیلی گرافی ورک خوب کیا ہے۔ انہوں نے گھوڑے پینٹ کرنے میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ تجریدی آرٹ میں دل کشی ور انفرادیت ہے۔ ان کے فن کی متعدد نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔ انہوں نے مجسمہ سازی ، گرافکس اور سرامکس میں بھی اپنی صلاحتیں دکھائی ہیں۔ شہرت اور مقبولیت کے حامل مشکور رضا کو حکومت نے تمغۂ امتیاز پیش کیاہے۔
1948میں مراد آباد (یوپی۔ انڈیا) میں پیدا ہونے والے مشکور رضا اپنے نگار خانے میں اپنی صلاحیتوں کو دل کش رنگوں کے ساتھ کینوس پر منتقل کرنے میں مشغول ہیں۔
’’میرے کام میں وقت کے ساتھ بہت فرق ہوا ہے، 2006 میں میری پینٹنگز کی نمائش ہوئی تو کلرز گہرے یعنی اندھیرے تھے اس سے ڈپریشن نظر آتی تھی۔ لیکن حالیہ نمائشوں میں میری پینٹنگز میں روشنی بہت ہے۔ میں تقریباً چار عشروں سے زائد ہوا پینٹ کررہا ہوں۔‘‘ یہ ہیں معروف آرٹسٹ ریاض رفیع جنہوں نے حال ہی میں اپنی اقامت گاہ کے ایک حصّے میں اپنا نگارخانہ ترتیب دیا ہے جو جدّت و قدامت کا منظر لیے ہوئے ہے۔
نوادارت ، قدیم اشیاء جمع کرنے کے بھی شوقین ہیں۔ وہ 1962 میں سکھر میں پیدا ہوئے۔ 1985 میں کراچی آگئے۔ کراچی اسکول آف آرٹ میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے۔ خود کو پروگریسیو آرٹسٹ کہتے ہیں۔ زندگی کے مثبت پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے قائل ہیں۔ تجریدی انداز میں خطّاطی بھی کرتے ہیں ۔انہوں نے کسی ایک موضوع کو بنیاد بناکر اس کی سیریل بھی پینٹ کی ہیں۔ ان کی یک نفری اور اجتماعی، کئی نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں، کئی ممالک کے دورے کیے ہیں۔ آرٹ میں نئے تجربات کرنے کے قائل ہیں۔
پورٹریٹ ، اسٹل لائف، لینڈ اسکیپ، کلچرل کے حوالے سے آج کے مصوّروں میں مہتاب علی نمایاں ہیں۔ انہوں نے برونائی کے شاہی خاندان کے افراد کی پورٹریٹس بنائیں جس کے لیے انہیں منتخب کیا گیا تھا۔ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قد آدم پورٹریٹ آویزاں ہے جو مہتاب علی کی فنّی کاوش ہے۔ ان کی پہلی یک نفری نمائش فرانسیسی کلچرل سینٹر’ الیانز فرانسز ‘میں 1994میں منعقد ہوئی تھی جو بہت کام یاب رہی، وہاں ان کی ساری پینٹنگز فروخت ہوگئی تھیں، یہاں سے ہی انہوں نے مصوّری کو اپنا باقاعدہ ذریعۂ معاش بنالیا تھا۔
انہوں نے اخبارات اور ڈائجسٹوں کے لیے اسکیچ بناکر اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ برونائی کے علاوہ واشنگٹن، پیرس، کاسل جرمنی اور ٹوکیو کی گیلریز میں بھی ان کی بنائی ہوئی پینٹنگز موجود ہیں۔ مہتاب علی کی سولو اور گروپ نمائشیں کراچی کی مختلف گیلریز میں منعقد ہوچکی ہیں۔ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میںبھی ان کی نمائش منعقد ہوئی تھی۔
مقبول احمد کی پینٹنگز کا بنیادی موضوع صنف نازک ہے جس کی زندگی اور اس کے عزم کو وہ کینوس پر آئل اور برش کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ان کی پینٹنگز میں عورت، سائے کی طرح نظر آتی ہے لیکن یہ سائے نامکمل، ادھورے اور بے معنی نہیں ہوتے۔ وہ گہرے اور بھاری رنگوں سے ان نسوانی سایوں کے خدّو خال ابھارتے ہیں۔ ان کے کام میں لائٹ اینڈ شیلڈ کا کھیل کمال کا ہوتا ہے۔ مقبول احمدنے 1984 میں این سی اے لاہور سے فائن آرٹس میں گریجویشن کیا ۔ ان کی فنّی صلاحیتوں کی نمائشیں لاہور، کراچی، دبئی، کینیڈا، ملائشیا اور لندن کی گیلریز میں منعقد ہوئی ہیں۔ انہوں نے مصوّری کے مقابلوں میں طلائی تمغہ اور اوّل انعامات حاصل کیے ہیں۔
گھوڑے پینٹ کرنے کے حوالے سے مومن خان کا نام بھی نمایاں ہے۔ بُز کُشی پینٹ کی ہے، نسوانی چہرے پینٹ کیے ہیں اور پورٹریٹ بھی خوب بناتے ہیں۔ انہوں نے آرٹ کی تعلیم سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس سے حاصل کی۔ ان کی سولو اور گروپ نمائشیں منعقد ہوئی ہیں۔
بُز کُشی اور گھوڑے پینٹ کرنے کا ذکر آیا ہے تو نوجوان پینٹر شان امروہوی نے بھی اپنا نام نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے اپنی فنّی صلاحیتوں کا مظاہرہ پہلی بار گرپو شو میں 1999 میں کیا تھا جو فریئر ہال کی صادقین گیلری میں منعقد ہوا تھا۔ ان کی کئی سولو اور گروپ نمائشیں شائقینِ فن کی توجہ حاصل کرچکی ہیں۔