• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لز ٹرس کتنے عرصے وزیراعظم کے عہدے پر رہ سکیں گی، بحث شروع ہوگئی

لندن (پی اے) کئی ہفتے سے جاری مارکیٹ میں اتھل پتھل اور سیاسی انتشار کے بعد اب کنزرویٹو پارٹی کے بعض ارکان یہ تسلیم کررہے ہیں کہ حکومت کا مستقبل بہت تاریک ہے اور گزشتہ72گھنٹے کے دوران یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ لز ٹرس کتنے عرصے وزیراعظم کے عہدے پر رہہ سکیں گی۔ کابینہ کے ایک وزیر یہ اعتراف کر رہے ہیں جو وزیراعظم کے بااعتماد تصور کئے جاتے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ہم الیکشن نہیں جیت سکیں گے اور جب بھی الیکشن ہوں گے، میں اپنی نشست ہار جاؤں گا۔ کنزرویٹو پارٹی کے کچھ ارکان اب کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدہ چھوڑ دینا چاہئے جبکہ بہت سے ارکان اسمبلی نے گزشتہ روز بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ لز ٹرس اگلے عام انتخابات سے قبل مستعفی ہوجانا چاہئے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ مزید چند ماہ ماہ گزار سکیں گے جبکہ بڑی تعداد میں ارکان کا خیال ہے کہ وہ بمشکل چند ہفتے یا دن گزار سکیں گی، تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ کس طرح استعفیٰ دیں گی اور ان کی جگہ حکومت کون سنبھالے گا۔ ایک سابق وزیر نے کہا کہ عوام جانتے ہیں کہ کھیل ختم ہوچکا ہے، اب سوال یہ کہ یہ کیسے اور کب ہوگا، ٹوری پارٹی کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ اب وہ کیا کریں گے؟ جبکہ ڈاؤننگ اسٹریٹ سے یہ میسیج آرہا ہے کہ وہ سیکھنے کے مرحلے میں ہیں۔ پیر کو لز ٹرس نے زیادہ تر وقت ارکان پارلیمنٹ کو یہ باور کرانے کی کوشش میں گزارا کہ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ہے۔ اب وہ پارلیمنٹ میں سینٹرسٹ ٹوری پارٹی کے 100 مضبوط ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کریں گی اور ایک استقبالیہ میں کابینہ میں شامل وزرا سے بات چیت کریں گی اور ان سے حالات کو بہتر بنانے کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کریں گی جبکہ دیگر ارکان پارلیمنٹ کو کافی پر دعوت دی جائے گی کیونکہ وزیراعظم ان کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری جانب نئے چانسلر جیریمی ہنٹ کنزرویٹو پارٹی کے بیک بنچرز سے اگلے 15 دن کے اندر کئے جانے والے سخت معاشی فیصلوں کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ اختتام ہفتہ تک حکومت کے تمام پلان واضح ہوجائیں گے، یہ ممکن ہے کہ جیریمی ہنٹ کے تقرر کی وجہ سے لز ٹرس کو کچھ وقت مل جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ وافر وقت ہوگا، بعض ٹوری ارکان پارلیمنٹ ان کے تقرر سے خوش ہیں اور انھیں توقع ہے کہ وہ معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے میں کامیا ب ہوجائیں گے۔ ایک سابق وزیر کا کہنا ہے کہ وہ دراصل ڈی فیکٹو وزیراعظم ہیں۔ پارٹی کے بااثر ارکان کا کہنا ہے کہ بغاوت پر آمادہ ارکان کو تھوڑا صبر کر کے یہ دیکھنا چاہئے کہ جیریمی ہنٹ اپنے اقتصادی پلان میں کیا کچھ دیتے ہیں، اس سے حکومت کو کم از کم 15 دن کا وقت مل جائے گا۔ بعض بااثر ارکان پارلیمنٹ سکون کی اپیل کر رہے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ ماحول میں پیداہونے والی گرمی کچھ کم ہونے کا انتظار کرنا چاہئے، بعض ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ کابینہ میں روبدل اور پارٹی کے مختلف دھڑے سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو سامنے لا کر موجودہ تفریق اور انتشار کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن لز ٹرس کے ناکام ہونے کا پروگرام اپنی جگہ موجود ہے، بعض لوگوں کا اس ہفتے بے چینی میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کا بڑی حد تک انحصار مارکیٹ کی صورتحال پر ہوگا، اگر مارکیٹ میں اسی طرح افراتفری کا عالم برقرار رہا تو وہ لز ٹرس چند ہفتوں کی مہمان ثابت ہوں گی۔ بی بی سی پر بات چیت کرتے ہوئے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ان کا کھیل ختم ہوچکا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ زیادہ دنوں عہدے پر برقرار رہ سکیں گی۔ ٹوری پارٹی کے دیگر بہت سے ارکان بھی ان کے اس خیال سے متفق ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، اس پر کوئی ایک رائے نہیں ہے۔ ایک سابق وزیر اور رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کہیں جارہی ہیں، آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ 1922 کمیٹی کے حالیہ رولز کے تحت ایک سال تک ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کو نہیں کہا جاسکتا، یعنی ایک سال تک وہ محفوظ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ رولز تبدیل کئے جاسکتے ہیں لیکن حالیہ واقعات سے معلوم ہوتا ہےکہ کمیٹی ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ بہت سے ارکان پارلیمنٹ کو خوف ہے کہ ٹوری ارکان کے درمیاں قیادت کی ایک اور طویل بحث شروع ہوجائے گی، جس کی وجہ سے اب کورونیشن کے بارے میں بات چیت کی جارہی ہے، جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ ارکان سے مشورہ کئے بغیر چند دن میں اپنے قائد کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ پارٹی کے نئے قائد کیلئے اس ہفتہ 3 ناموں بین ویلس، رشی سوناک اورپینی مورڈنٹ پر بات چیت ہوتی رہی لیکن ان تینوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں جبکہ ویلس کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ فی الوقت ایسا نہیں چاہیں گے۔ رشی سوناک ابھی تک متنازعہ ہیں اور بڑی تعداد میں ارکان انھیں بورس جانسن کی شکست کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں پارٹی کا سربراہ بنایا گیا تو پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ بعض لوگوں کے خیال میں پینی مورڈنٹ پارٹی قیادت سنبھالنے کیلئے خاص طور اقتصادی بحران کے اس دور میں بہت زیادہ نا تجربہ کار ہیں، ان کے علاوہ دیگر زیر بحث آنے والے ناموں میں جیریمی ہنٹ اور گرانٹ شیپس کے نام بھی شامل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی تقسیم ہوتی ہوئی پارٹی کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یورپ سے سے مزید