• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
اہل پاکستان چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر ہوں وہ ایک آزردگی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اس ملک پاکستان میں آزار کا بازار گرم ہے، عذاب، انتشار، رنجشیں، جھک جھک بک بک اور بگاڑ تو جیسے اس ملک کا حصہ ہو کر رہ گیا۔ اس آستاں سے آس بہت لگاتے ہیں یہاں کے لوگ مگر مگر اس آس کو بے آس بھی یہی کچھ سرپھرے سے کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس آستان کی آستاں بوسی کی جاتی، اس کے گیت گائے جاتے، اس سے سچی عقیدت رکھی جاتی مگر وہ سب تو ایک طرف کہ اس آستاں میں کچھ لوگ آستین کا سانپ ہو گئے ہیں۔ انہیں چین اور اطمینان کی بانسری سے قرار نہیں آرہا۔ ملک کو چین چمن نہیں بناپا رہے، سکھ چین سے کٹ کر جینا اس قوم کو اچھا لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ان حالات میں جو فکر و اندیشے سے بھرپور ہے ایسے میں ملک کے امن کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ہمیں افسوس اس اہم معاملے کا ہے کہ علامہ اقبال کا تصورو خواب اورقائداعظم کی جدوجہد آزادی اس ملک خداداد میں کوئی رنگ نہ بھر سکی اس قوم کے مشترکہ مفادات ہیں، دکھ سکھ سانحات و حادثات ، جنگ و امن، عروج و زوال، تعمیر و تباہ کاری، غربت و امیری، سبھی کچھ تو برابر ہے سبھی کے حالات اتار چڑھاؤ کا شکار ہوں تو وہ بھی مل کر سہنا پڑتے ہیں۔ ملک کے حالات عوام سے بنتے ہیں عوام ہی کی کارستانیاں اور غیر مثبت سرگرمیاں ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پھر یہ ہی ہمارا آستاں ، ہمارا پاکستان کیوں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا؟ ہم کیوں اپنے ہی مصور و معمار علامہ و قائد کو شرمندگی کے پیغام عالم بالا میں بھیج رہے ہیں۔ ہم اپنے لیڈران کو ایسی بھیانک آوازیں کیوںسنوار رہے ہیں ملک کو ایسے ہتھکنڈوں سے کیوں چھیدا جا رہا ہے جس کے سوئی کانٹے اس مملکت خداداد کو چھلنی چھلنی کردیں۔اقبال نے تو اپنے کلام کے ذریعے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ان کے کھوئے ہوئے مقام اور اس کے حصول کیلئے جدوجہد کی ایک علیحدہ وطن کا تصور دیا۔ مگر ہم شرمندہ ہیں کہ وہ وقار ہم سنبھال نہ پائے۔ ہونی انہونی اس ملک کا نصیب بنتا جا رہا ہے۔ اچھا تو کچھ ہونے سے رہ جاتا ہے کوئی اچھا ہونے ہی نہیں دیاتو ! ملک کو اونچی نیچی راہوں پر ڈال دیا۔ پریشانیوں کا سمندر بن کر رہ گیا کوئی جس میں ڈوب جاتا ہے اور کوئی پار کر جاتا ہے۔ کوئی عظیم تر ہو جاتا ہے اور کوئی زوال پذیر ہو جاتا ہے غرباء حسرت لئے مر جاتے ہیں اور امیر پھر امیر تر ہو جاتے ہیں۔کس کے نصیب میں کیا ہے، کون کہاں جائے گا نہیں معلوم! ہم بحیثیت قوم اپنے دفاع اور ملکی بقا میں معاون ثابت نہیں ہو رہے سیاست میں تمیز اور شائستگی تو سرےسےہے ہی نہیں برداشت کا مادہ اپنے اندر سے ختم کرکے آپس کی دوریاں بڑھا رہے ہیں۔ہم لوگ دیارغیر میں بیٹھ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ گریٹ برطانیہ کی گود میں بیٹھ کر تمام ملک و اقوام کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کہاں کہاں ہمارے جیسے حالات ہیں۔ کہاں کہاں ایسے ہولناک معاشرتی و سیاسی المناک قسم کے قتل عام ہو رہے ہیں ۔آئے روز کے سانحات نے پاکستان کا نام ہی دوسرا کر دیا۔ افغانستان، قازقستان، تاجکستان، کرغیزستان، ترکمانستان، ازبکستان اورپاکستان سمیت تمام ’’ستان‘‘ میں خوزستان، سیتان، کردستان، لورستان، گلستان یا شکیرستان، تاتارستان، داغستان، گویوستان، راجستھان اور پھر ہمارا بلوچستان کہ جہاں حادثات بھی عموماً ہوتے رہتے ہیں مگر انہیں حادثات اور سانحات نے پاکستان کا نام سانحستان کر دیا کیونکہ کسی بھی ’’ستان‘‘ میں وہ کھیل کھیلا نہیں جا رہا جو حادثات و سانحات کی پاکستانی زمین پر کھیلا جا رہا ہے اسی لئے پاکستان کا نام اب ’’سانحستان‘‘ ہو جائے تو مذائقہ نہیں کیونکہ اس عوام کو پاکستان کی نہیں سانحستان کی ضرورت ہے۔احساس ختم ہو جائے تو ملال کی صورت ایسی ہو جاتی ہے کہ ملک کی دگرگوں ہوتی حالت کا بھی احساس نہیں رہتا۔ہم میں سے کوئی بھی اپنے ملک سے بدگماں ہو کر اسے مختلف ناموں سے نہیں نواز سکتا مگر جب ہم ہی ملک کا ستیاناس کریں اڑتے ترقی ملک کے پر کاٹ دیں تو کیسے پھر ملال و محبت میں الفاظ الٹے سیدھے نہ نکلیں۔
یورپ سے سے مزید