• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد کا ریکارڈ تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ گیا ،1.3 ملین لوگوں کی آمد

مانچسٹر(ہارون مرزا)برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد کا ریکارڈ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھونے لگا۔جون 2023تک مجموعی طو رپر خاص ہجرت کا ریکارڈ 9لاکھ سے تجاوز کر گیا ۔برطانوی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق 1.3ملین لوگ برطانیہ میں رہائش پذیر ہونے کیلئے پہنچے جبکہ 4لاکھ14ہزارنے برطانیہ سے نقل مکانی اختیار کی۔ ہجرت میں جانے اور آنیوالوں کی تعداد میں فرق نمایاں رہا ۔جون 2024تک کے دوران یہ شرح 7لاکھ 28ہزار ریکارڈ کی گئی۔برطانوی سیکرٹری داخلہ یوویٹ کوپر نے حکومت کی طرف سے خالص نقل مکانی میں کمی کی ضرورت کے حکومتی عزم کا بھر پور اظہار کیا۔ انہوں نے اس امر کا بھی اعتراف کیا ہے کہ چار سال کے دوران خالص ہجرت کی شرح میں تقریباپانچ گنا تک اضافہ ہوا جو ایک بلند ترین سطح ہے ایسے لوگوں کی واپسی جن کے پاس برطانیہ میں رہنے کا حق نہیں ہے وہ نئی لیبر حکومت کی حالیہ کارروائی کے بعد اعلیٰ ترین سطح پر ہیں ۔دوسری طرف وائس چانسلرز پہلے ہی بین الاقوامی طلباء کی تعداد میں کمی اور ان کے مالیات پر پڑنے والے اثرات سے پریشان ہیں ۔ستمبر 2023 اور ستمبر 2024کو ختم ہونے والے سالوں کے درمیان طلباء کو جاری کیے گئے ویزوں میں 19فیصد کمی اس بات کا بیک اپ لے رہی ہے جس کا دوسرے ڈیٹا سیٹس نے پہلے ہی اشارہ کیا ہے۔ یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلباء پر تیزی سے انحصار کرتی چلی گئی ہیں جو برطانیہ کے طلباء سے زیادہ فیس ادا کرتے ہیں ۔برطانیہ کے طلباء کے لیے ٹیوشن فیس مہنگائی کے ساتھ برقرار نہیں رہی۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فیسیں فنڈنگ کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتی ہیں ۔رواں ماہ انگلینڈ میں 9ہزار250پاؤنڈ سے بڑھ کر فیسیں 9ہزار535 پاؤنڈ کی جا رہی ہیں حکومت کا حالیہ اقدام یونیورسٹیوں کے لیے کچھ فوری مالی چیلنجوں میں مدد کرے گا لیکن یہ صرف اگلے سال پر لاگو ہوتا ہے مگر وہ طویل مدتی منصوبے دیکھنا چاہتے ہیں ۔بعض یونیورسٹیاں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پریشان ہیں ‘خاص طور پر جو نائیجیریا اور بھارت سے طالبعلموں کو زیادہ داخلے دیتی ہیں ۔دوسری جانب دونوں ممالک کے طلباء کو جاری کردہ مطالعاتی ویزوں کی تعداد میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے ہجرت کی شرح کی سامنے آنیوالی تفصیلات کے مطابق جون 2024تک برطانیہ آنیوالے غیر یورپی شہریوں میں 52فیصد مرز 48فیصد خواتین شامل تھیں مجموعی طور پر آنیوالوں میں سے82فیصد کام کرنیکی عمر کے قابل لوگ تھے جنہیں او این ایس کی طرف سے 16 سے 64سال کے درمیانی عمر کا قرار دیا ان افرادمیں 80ہزار فیملی ممبرز کے طو رپر برطانیہ پہنچے ‘جون 2023 میں یہ تعداد 1لاکھ15ہزار ریکارڈ کی گئی ‘آنے جانے والے مہاجرین کی تعداد میں فرق جون 2024 تک سال میں مجموعی طو رپر7لاکھ28ہزاررہا‘ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر تک رواں سال 99ہزار 790افراد نے سیاسی پناہ کا دعوی کیا۔ریفارمر یوکے کے سیاسی رہنما نائجل فاریج نے ان اعدادو شمار کو انتہائی خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے لیبر اور کنزرویٹو سے سنا تھا مگر اب ہمیں دوسری سیاسی جماعتوں سے ردعمل مل رہا ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس کی ہوم افیئرز کی ترجمان لیزا سمارٹ کا کہنا ہے کہ سابقہ کنزرویٹو حکومت نے ہمارے امیگریشن سسٹم کو مکمل طور پر بگاڑ دیااور عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح کیا۔یاد رہے کہ جو اعدادو شمار جاری کیے گئے ہیں وہ اس وقت کے ہیں جب کنزرویٹو پارٹی اقتدار میں تھی یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو انہوں نے الیکشن میں ووٹرز سے ووٹ حاصل کیے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ دفتر برائے قومی شماریات کی طرف سے 2024میں جون تک ملک میں قیام یا ہجرت کرنے والے اعدادو شمار کی کل تعداد میں 10لاکھ تقریباً 86فیصد غیر یورپی شہری تھی جبکہ 10فیصد شہری یورپین اور پانچ فیصد برطانوی لوگ شامل تھے غیر یورپی یونین کے شہریوں میں سے برطانیہ آنے والی سرفہرست پانچ قومیتیں نمایاں رہیں‘ جن میں 2لاکھ 40ہزار ہندوستانی، 1لاکھ20ہزار نائیجرین ‘1لاکھ 1ہزار پاکستانی‘ 78ہزار چائینز‘ 36ہزار زمبابوے کے لوگ شامل تھے ۔
یورپ سے سے مزید