پاکستان میں فنون لطیفہ کی جس صنف نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے، وہ ڈراما ہے۔ موجودہ دور کو ’’ڈرامے کا دور‘‘ کہا جائے تو ہرگز نامناسب نہ ہوگا۔ ٹی وی ڈرامے نے جس فنی اور تکنیکی قوت کے ساتھ زندگی کا اس کے سارے پہلوئوں سمیت احاطہ کیا ہے، اس نے ڈرامے کو نہ صرف ،موثر صنف کے طور پر متعارف کروایا ہے بلکہ تتخلیقی، تکنیکی اور موضوعاتی تجربات کی ایک نئی دنیا بھی وجود میں آچکی ہے۔
اس صورتحال کو اگر بیس پچیس سال پہلے کے ڈراموں کے تناظر میں دیکھا جائے تو حیرت ہوگی کہ اس دور میں ڈراماکسمپرسی اور زبوں حالی کا شکار تھا اور اب بڑی سرعت کے ساتھ اپنی جگہ بنا چکا ہے،خصوصاً سندھی ڈرامے نے جس روایت سے جنم لیا ہے، اس کے سلسلے تو دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں انگریزی اور اردو زبانوں کے ڈراموں سے استفادہ کرنے تک کے مراحل آجاتے ہیں۔ ان مراحل کو ایک روایت بنانے میں جن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، ان میں شمشیر الحیدری کا نام منفرد ہے۔
شمشیر الحیدری ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں،انہوں نے کئی اصناف میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے۔ شاعری اور ڈراما، ان کے خاص میدان رہے ،خاص طور پر ڈرامے میں ان کا مقام اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں ٹی وی ڈرامے کے فن کو زندہ کیا جب اس کیلئے میدان بالکل خالی تھا۔ ان دنوں ڈرامالکھنا ایک بے حد مشکل اور کٹھن ریاضت تھی لیکن شمشیر الحیدری نے اس کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس میں انوکھے اور نئے تجربے بھی کئے۔ اس وقت ڈرامہ ریڈیو یا پھر ادبی رسائل تک ہی محدود تھا۔
اسٹیج بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ وسائل کی کمی اور مجبوری نے One Act ڈراموں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان ساری دشواری اور مسائل کی موجودگی میں ایک نیا راستہ نکالنا، آسان کام نہ تھا۔ شمشیر الحیدری نے ہئیت، ٹیکنیک اور مواد کے ایک نئے اور قوی تخلیقی عمل کے ذریعے سندھی ڈرامے کو وہ شاندار روایت عطا کی جس کی کوکھ سے آج کے سندھی ڈرامے نے جنم لیا ہے۔
2؍نومبر 1967ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پاکستان ٹیلیویژن کراچی مرکز کا افتتاح ہوا۔ ٹھیک دو سال دو ماہ بیس دن کے بعد 22؍جنوری 1970ء کو سندھی پروگراموں کا آغاز ہوا۔ اس وقت سندھی ڈرامے لکھنے کی کوئی روایت موجود نہ تھی، لہٰذا ،اس کمی کوپوراکرنے کیلئے شمشیر الحیدری نے شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ کے مشہور ناول ’’زینت‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی۔بعدازاں پروگرام ’’رس ریہان‘‘ میں سندھی ڈراموں کو نئے رجحانات سے متعارف کروایا۔ 80ء کی دہائی کے درمیان میں انہوں نے ’’کاک محل‘‘ ڈرامہ لکھا جس نے سندھی ڈرامے کی روایت کو عروج بخشا۔
اس کے بعد کئی سیریلز، سیریز اور سولو ڈرامے لکھے،جن میں ’’دوست پیھی درآیو‘‘ ’’دنیا دل وارن جی’’ ’’چمن آرام گھر‘‘ ’’کیمیا گر، ممتا‘‘ ’’روانگی‘‘ ’’آخری حل‘‘ ’’اوورٹائم‘‘ ‘‘مسافر خانہ‘‘ ’’تماشا‘‘ ’’وساریل واٹوں‘‘ ’’نٹوں وڈیرو‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ان ڈراموں کو فن کے نئے پن، تکنیکی رچائو اور تجرباتی کشادگی کے باعث ایک اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ ڈرامے زندگی کو اس کے سارے پہلوئوں اور جزئیات سمیت اپنی مضبوط گرفت میں لے لیتے ہیں اور سماجی رشتوں ناتوں اور تعلقات سے ہوتے ہوئے باطنی گہرائی تک کا سفر کرواتے ہیں۔
ڈراموں کا مرکزی تصور انسانی فطرت اور سماجی ڈھانچے کے ٹیڑھے پن سے ٹکرائو اور زندگی کے مجموعی عمل سے منسلک ہے۔ ڈراموں کے کردار زندگی کے مختلف طبقوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے اور اپنے مسائل کی دلدل میں پھنسنے کے باوجود بھی انسانی عظمت کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کردار دکھوں کے دریا پار کرتے اور ایک مثالی صورتحال کی تمنا کرتے ہوئے اپنے ناظرین کو زندگی سے مثبت انداز میں نمٹنے کا شعور عطا کرتے ہیں۔
شمشیر الحیدری نے کئی سولو ڈرامے بھی تحریر کئے۔ ان ڈراموں میں کردار نگاری، واقعات اور بھرپور تاثرات کا ایک حسین اور دل لبھا دینے والا تعلق جنم لیتا ہے،ان کے ڈراموں کے موضوعات مختلف النوع سماجی رویوں سے جنم لیتے ہیں۔
شمشیر الحیدری نے زندگی کو اس کے سارے نشیب و فراز کے ساتھ قبول کیا لہٰذا ان کے ڈراموں میں زندگی اپنے کئی رخوں سے سامنے آتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ان کا سماجی نقطہ نظر بے حد مثبت اور صحت مند ہے۔ ان کے ڈراموں کے کردار نہ تو جذباتیت سے بغاوت کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے جی چراتے ہیں لیکن ایک سلیقے اور حوصلے کے ساتھ زندگی کے مسائل اور دکھوں کا سامنا کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ڈراموں کے ذریعے انسان کو اس کے مکمل سماجی دائرے کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔ حالات کی قید میں بند سماجی زندگی اور انسانی افعال و اعمال کی جتنی بھی اشکال بنتی ہیں اور جس طرح خواہشات، حسرتوں میں بدل کر انسانی دکھوں کا روپ دھار لیتی ہیں، ان کے ڈراموں میں فنی قوت اور تخلیقی حسن مکمل طور پر موجود ہے،جو مجموعی سندھی ڈرامہ نگاری کی روایت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی