مولانا الطاف حسین حالی (1914-1837ء) تاریخ ادب اردو کی وہ نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جو اردو ادب کی دو اصناف کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، یعنی بحیثیت سوانح نگار ان کی تین کتابیں، حیات جاوید،حیات سعدی اور ’’یادگار غالب جو سب کی سب انیسویں صدی کے آخری عشروں میں لکھی گئیں جن کی ادبی قدر و قیمت کے حوالے سے کہیں دو رائیں نہیں ہیں۔ یعنی یہ اردو ادب کے خزانے کے گنج ہائے گراں مایہ ہیں۔ تنقید نگاری کے میدان میں ان کے مقدمہ شعر و شاعری کا اردو تاریخ ادب میں وہی مقام ہے جو یورپ کی تاریخ ادب میں ارسطو کی ’بوطیقا‘ کا ہے۔
یہ طویل نظم بوطر مثنوی بھی لکھی جا سکتی تھی، مگر بقول مولانا سید سیلمان ندوی اس نظم کے لئے نکتہ شناس شاعر نے مسدس کا رنگ اختیار کیا۔ مولانا حالی نے یہ تاریخ ساز اور رجحان ساز طویل نظم سرسید احمد خاں کی تحریک بیداری یعنی نشاۃ ثانیہ کی بھر پور تائید اور پر جوش حمایت میں لکھی۔ سرسید کی تحریک 1857ء کے بعد ہندوستان میں مسلم معاشرے کی عمومی زبوں حالی، معاشی اور سیاسی ابتری کے پس منظر میں شروع ہوئی تھی۔
اس تحریک کو مسدس حالی سے غیر معمولی حمایت اور توانائی حاصل ہوئی، چناں چہ اس ضمن میں سر سید کا یہ قول کہ اگر روز قیامت ان کے نامۂ اعمال کے باب میں اللہ نے دریافت کیا تو وہ کہیں گے کہ وہ مولانا حالی سے یہ مسدس لکھوا کر لائے ہیں۔ مسدس حالی کی اہمیت اور تاریخی معنویت کا اس سے بہتر بیان سوچا نہیں جا سکتا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ مسدس حالی 1857ء کے بعد بھی مسلم معاشرے کی بھیانک زوال پذیری کے ظہور کے تناظر میں لکھا گیا اور ہندوستان کا مسلم معاشرہ براہ راست اس کا موضوع و مرکز توجہ تھا۔
مسدس حالی کا براہ راست اور، خاص موضوع اور تخلیق کا محرک ہندوستانی مسلم معاشرے کی زوال پذیری، معاشی زبوں حالی اور سیاسی ابتری تھا، مگر بات اتنی ہی نہیں تھی۔ مسدس کا نام یعنی مدو جزر اسلام، مسدس کی وسیع تر تناظر اور تاریخی پس منظرکی نشاں دہی کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مسدس میں پوری مسلم دنیا اور مسلم معاشرے کے تناظر میں پوری جزئیات نگاری کے ساتھ مولانا حالی نے اپنے جذبات و احساساس کا اظہار کیا ہے اور جن کے اظہار میں ان کا تعلق خاطراس حد تک شامل تخلیق ہے۔ کہ ان میں ان کے خون جگر کی تپش اور خون کے آنسو کی رنگت ہر بند میں نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں ان کی شدت احسا س کا اندازہ مسدس کے آخری حصے میں ’عرض حال‘ کے ابتدائی اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
اے خاصۂ خاصبان رسلؐ ! وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی سیزر و کسریٰ
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین، ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی، نہ دیا ہے
مندرجۂ بالا اشعار سے مسدس کا مسلم معاشرے کی زوال پذیری کے حوالے سے گویا عالمی تناظر اور منظر نامہ قارئین کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مسدس انیسویں صدی کے آخری دو عشروں (1886-1879ء) میں تخلیق و تکمیل کے مراحل سے گزرا۔ بالفاظ دیگر تاریخی حوالے سے انیسویں صدی تک کی تاریخ اور تاریخی واقعات و سانحات کو پیش نظر رکھ کر مسدس کا مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ میں نے اس کا مطالعہ اکیسویں صدی کےتناظر میں کیا ہے اور حاصل مطالعہ نذر قارئین ہے۔
مسدس کے آغاز سے پہلے ایک رباعی ملاحظہ کریں جو خصوصی توجہ کی طالب اور مسدس کے مکمل متن اور مواد کی نشاں دہی کرتی ہے:
پستی کا کوئی حد سےگزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
مذکورہ مسدس کی ابتدا درج ذیل بند سے کی گئی ہے:
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا؟
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ، ہذیان سمجھیں
مسدس کے مذکورہ حاصل مطالعہ کے بیان سے پہلے یہ کہنا بھی معنویت کا حامل بلکہ ناگزیریت کی حد تک ضروری کہ مسدس حالی کی تخلیق مولانا حالی کی شاعرانہ زندگی کی کتاب میں انقلابی باب کا درجہ ہی نہیں رکھتی بلکہ اردو شاعری میں اس مسدس کی اشاعت سے ایک نئے دور کی ابتدا ہوتی ہے، کیوں کہ اس وقت تک کی اردو شاعری کی تہی دامنی اور کم مائیگی کا اندازہ اس صورت حال سے لگایا جانا چاہیے جس کا بیان انہوں نے اپنی شعر گوئی کی بابت اپنے پہلے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ:
البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشت جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کر دیا۔ کبھی نالہ ٔ نیم شبی سے ربع مسکوں کو ہلا ڈالا:کبھی چشم دریا بار سے تمام عالم کو ڈبو دیا:آہ و فغان کے شور سے کرو بیاں کے کان بہرے ہوگئے شکایتوں کی بوچھاڑ سے زمانہ چیخ اٹھا:طعنوں کی بھر مار سے آسمان چھلنی ہو گیا:جب اشک کا تلاطم ہوا تو ساری خدائی کو رقیب سمجھا، یہاں تک کہ آپ اپنے سے بدگمان ہو گئے۔ جب شوق کا دریا امڈا تو کشش دل سے جذب مقناطیسی اور قوت کبریائی کا کام لیا ، بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے اور بارہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے۔ گویا زندگی ایک پیراہن تھا کہ جب چاہا اتار دیا اور جب چاہا پہن لیا۔
اردو شاعری کی مجموعی صورت گری جو مولانا حالی نے اپنے دور تک کی ہے، وہ ان کی بصیرت و بصارت پر دال ہے، گویا ایک کلیتٔ مصنوعی فضا اردو کی دنیائے شاعری میں پائی جاتی تھی جس کو انہوں نے رد کرنے کی ٹھانی اور درج ذیل چار مصرعوں سے اپنے نئے سفر شاعری کے آغاز کا اعلان کیا:
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دل زندہ! تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی
مولانا حالی نے جس نئے سفر تخلیق کا اعلان کیا اور یہ عہد ساز مسدس تصنیف کی اس کی گونج اور صدائے بازگشت بیسویں صدی کی پوری اردو شعری دنیا میں سنائی دی اور سب سے زیادہ یہ نئی دنیائے شاعری علامہ اقبال کے ہاں در آئی اور علامہ نے اردو شاعری کی محدود دنیا کو لامحدود سرحدوں تک پہنچا دیا اور پہلی بار عالمی فکر و خیال اور کثیر الجہت جمالیات اور حسیت سے اردو شاعری کی ناآشنائی اور اجنبیت کو دور کیا اور عالمی ادب کے دائرے میں داخل ہونے کی اہلیت بخشی۔ یوں تو علامہ کی پوری شاعری، ’’مسدس‘‘ کے موضوع خاص یعنی مسلم معاشرے کی زبوں حالی اور زوال پذیری کے تناظر میں پڑھی جانی چاہیے لیکن ان کی نظمیں ’شکوہ‘ ’جواب شکوہ‘ اور ’مسجد قرطبہ‘ اس ضمن میں خصوصی طور پر لائق اعتنا ہیں جن میں مسدس کی صدائے بازگشت مختلف رنگ و آہنگ میں سنائی دیتی ہے۔
مسدس حالی پر جو مقدمہ خود مولانا حالی نے لکھا، اس کو اردو تنقید کی باضابطہ پہلی کتاب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مذکورہ مقدمہ ، مقدمۂ شعر و شاعری کے نام سے جداگانہ کتاب کا منصب حاصل کر چکا ہے۔ اس مقدمے کا موضوع خاص اردو شاعری خصوصاً صنف غزل پرکڑی تنقید ہے۔ مولانا حالی نے مسدس کے ذریعے ادب کے سماجی کردار کی بھر پور عملی اور تخلیقی وکالت کی ہے اور شاعری کو محض تفنن طبع کا سامان بنانے اور ’’جھوٹے ڈھکوسلے‘‘ باندھنے کے فن کو انہوں نے دلائل و براہین کے ساتھ رد کیا ہے اور مقصد اور آدرش سے عاری شاعری کو محض تضیع اوقات قرار دیا اور اردو شاعری کی مجموعی مصنوعی فضا کو روح شاعری سے متصادم قرار دیا اور ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کے نظریے کو آگے بڑھایا اور شاعری کو کار پیغمبراں قرار دیا اور مسدس کے ذریعے مولانا نے مسیحا نفسی سے ایک عظیم الشان قومی انقلاب کی تاثیر کی روح پھونک دی۔ یہ وہ انقلابی تحریک ، یعنی نشاۃ ثانیہ کی تحریک تھی جس کی قیادت و سیادت سیرسید کر رہے تھے جن کی تائید اور حمایت میں مولانا حالی نے یہ مسدس لکھ کر تاریخ ادب و فن میں وہ مقام حاصل کیا جو نایاب روزگار شخصیات کا حق ٹھہرتا ہے۔ (جاری ہے)