• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانس جینڈر ایکٹ (اسلامی تعلیمات کے تناظر میں)

مولانا کامران اجمل

(گزشتہ سے پیوستہ)

اسلامی تعلیمات اور شریعتِ مطہر ہ کی روح کے منافی ٹرانس جینڈرایکٹ درحقیقت اللہ کے نظام میں مداخلت کے مترادف اورغیر فطری افکارو نظریات کا مجموعہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ دل ودماغ میں کسی غلط خیال کا آنا یہ قابل گرفت جرم نہیں ہے ،لیکن اس کے اظہار سے شریعت مطہرہ نے منع ضرور فرمایا ہے، اور اس کے ختم کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا ، چاہے ان خیالات کا تعلق عقائد سے ہو یا کسی غلط خیال سے متعلق ہو ، صحابہ کرامؓ کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی خیال وہ نامناسب سمجھتے تو اس کے اظہار کو بہت برا گردانتے ،اس کے بیان کرنے سے زیادہ جل کر راکھ ہو جانے کو ترجیح دیتے ، مثلا ً : ایک صحابیؓ آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میرے دل میں ایک خیال آرہا ہے، میں جل کر کوئلہ ہوجاؤں ،یہ زیادہ بہتر ہے میرے نزدیک اس بات سے کہ میں اس کا اظہار کروں ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’ جب تم اس قسم کا کوئی وسوسہ پاؤ تو یہ کہو کہ اے اللہ، تیرا شکر ہے کہ تو نے اس شیطان کا معاملہ صرف وسوسے کی حد تک رکھا ہے ‘‘۔

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر وہ خیال جو دل میں آئے، اس کا اظہار کرنے کی شریعتِ مطہرہ میں اجازت نہیں ہے ، بلکہ اس کے دور کرنے کے لیے شریعت نے تدبیریں بتائی ہیں ، مثلا ً : غصہ آنے کی صوت میں فرمایا کہ وضو کرلے ، یا کھڑا ہو تو بیٹھ جائے وغیرہ ، خواب میں ڈر جائے تو اسے کسی کے سامنے بیان کرنے کے بجائے فرمایا کہ بائیں طرف تھوک دے اور اعوذُ باللہ پڑھ کر کروٹ بدل دے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ دل میں غلط خیال آنا کسی مسئلے کو بگاڑنے یا کسی ناجائز کام کے جواز کا سبب نہیں بن سکتا ، اگر کسی لڑکے کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں لڑکی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اسے اس کی اجازت دی جائے کہ وہ کسی کے سامنے اس خیال کا اظہار کرے ، بلکہ اسے یہ فرمایا کہ وہ اس وسوسے کے علاج کے لیے دعا کرے اور اگر اس کا علاج ہو تو اس کا علاج کرے۔

غیر فطری خیالات کو قابو کرنا شریعت کا تقاضا ہے ۔غیر فطری خیالات چاہے وہ عقل سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی قسم کے ہوں ،انہیں روکنا اور قابو کرنا شریعتِ مطہرہ کا تقاضا ہے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو باقاعدہ فرما دیا ہے کہ جہنم کو ایسی چیزوں سے ڈھانک دیا گیا ہے جو دل کو بھاتی ہیں (یعنی جہنم جن چیزوں کےنیچے چھپی ہے ان کے کرنے کا دل چاہتا ہے ) اور جنت کو ان کاموں کے ذریعے ڈھانپ دیا گیا ہے جو دل کو اچھی نہیں لگتیں ، معلوم ہوا کہ نفس کی پیروی کرنا جہنم میں داخلے کا باعث بن سکتا ہے ، اس پر یہ خیال کسی کے ذہن میں نہ آئے کہ ڈاکٹروں کے حساب سے انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جس کا اس کے دل میں خیال آئے ،کیونکہ دل میں ہر آنے والے خیال کو کر گزرنے کی ڈاکٹر بھی اجازت نہیں دیتے ، مثلاً کسی کے دل میں یہ خیال آنا شروع ہوجائے کہ میں خود کشی کرلیتا ہوں تو کوئی ڈاکٹر اس کی اجازت نہیں دے گا، کیونکہ وہ اس کے نزدیک بالکل غلط ہے ، جہاں ڈاکٹر حضرات کسی بچے کو اس کے من پسند کام میں لگانے کا تذکرہ کرتے ہیں، اس سے مراد صرف اس کی پسند کے موافق کوئی دنیاوی کام ہے جس کے ذریعے کچھ کمایا یا کھایا جاتا ہے، پھر اس فیلڈ میں لگنے کے بعد وہ فرد اس میں محنت کرکے خود ترقی کرسکتا ہے ، غلط کام ا س سے ہر گز مراد نہیں ہیں ، ورنہ تو سمجھدار ڈاکٹر اپنے بچوں کو وہ دوائیں نہ پلاتے جس کے ذریعے وہ غیر فطری خیالات سے محفوظ رہ سکتے ، اللہ تعالیٰ جس نے پوری کائنات کو تخلیق فرمایا جو اس کے نفع نقصان سے بخوبی واقف ہیں، اگر وہ کسی بات کو ذکر فرمائیں گے تو یقینا ًوہ سب سے اعلیٰ وا رفع ہوگی ، اور اللہ تعالیٰ نے فحاشی، بے حیائی اور شہوت کے پیچھے چلنے سے سختی سے منع فرمایا ہے ، ملاحظہ ہو : اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جا بجا خواہش نفسانی کی پیروی کرنے والوں کی برائی بیان فرماتے ہیں اور ان کے بدترین انجام کا تذکرہ فرماتے ہیں ، اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنے والوں کی فضیلت ذکر فرماتے ہیں ، ملاحظہ ہو(سورہ ٔنازعات ۴۰۔سورۂ ص ۲۶۔سورۂ قصص ۵۰۔سورۂ مائدہ۷۷ ۔سورۂ اعراف۱۷۶)

اس قسم کی کئی آیات ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے خواہش نفس کی پیروی کو گمراہی ، ظلم اور ہلاکت کے مترادف قرار دیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ یہ لوگ نادان ہیں جانتے نہیں اور ظاہر سی بات ہے جس نے کوئی چیز بنائی ہو تو وہ اس کے بارے میں جتنا جانتا ہو گا اتنا کوئی اور نہیں جانے گا ، اور یہاں دنیا کے بنانے والے اللہ تعالیٰ ہیں اور وہ خواہش نفس کی پیروی کو ہلاکت قرار دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہلاکت اور بربادی عام چیزوں سے زیادہ ہوگی، اسی بنیاد پر اللہ نے سختی کا معاملہ فرمایا ہے۔ جس طرح قرآن کریم میں خواہش نفس کی پیروی کی مذمت بیان کی گئی ہے ،اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بڑی تعداد میں اس کا ذکر موجود ہے جا بجا رسول اللہ ﷺنے نفس کی پیروی سے منع فرمایا ہے ، ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں: ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور کم عقل اور عاجز وہ شخص ہے کہ جو اپنے نفس کی پیروی کرے اور اللہ سے امیدیں باندھے رکھے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خواہش نفس کی پیروی کرنا ، پھر خصوصاً ان لوگوں کے خیالات کی پیروی کرنا جو گمراہی پر ہوں اسلام میں بہت ہی زیادہ برا اور قبیح ترین عمل ہے ۔اگر محض خواہش نفس دل میں پائے جانے والے احساسات کو ہی بنیاد بنا لیا جائے ،نہ تو کوئی چیز اپنی اصل صورت میں برقرار رہ سکے گی ،نہ ہی انسانیت برقرار رہے گی ، اس لیے دل میں آنے والی ہر بات پر عمل پیرا ہونا قطعا ًدرست نہیں ہے۔

ٹرانس جینڈر کے نام سے جو بل منظور ہوا ہے ،اگر اسے یا اسی طرح اس کی پشت پناہی کرنے والوں کو دیکھا جائے ان کے منشور کو لوگوں کے سامنے رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف اور صرف خواہشِ نفسانی کے پیچھے خود پڑنا اور لوگوں کو اس کے پیچھے لگانا ہے ۔ذیل میں اس بل اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کا بیان ہوگا اور اس پر تفصیلی بحث ہوگی کہ کس طرح یہ بل اسلام اور فطرت کے خلاف ہے اور اس کے منظور کرنے والے ممالک نے تجربے کی دنیا میں کیا کھویا کیا پایا ہے۔

ٹرانس (TRANS ) درحقیقت کسی ایک صفت سے دوسری میں منتقل ہونے کا نام ہے ،چاہے وہ تبدیلی کسی بھی قسم کی ہو ، ہوا کی پانی میں یا کسی اور چیز کی تبدیلی ہو ،کیمبرج ڈکشنری میں اس کی تعریف بیان کی گئی ہے ۔اس کی روسے اگر یوں کہا جائے کہ لفظی اعتبار سے ٹرانس جینڈر فقط تبدیلی جنس کا نام ہے، اس میں فقط اپنے جینڈر کو بدلنے والا شمار ہوگا جو دو جینڈر والا ہو، وہ اس میں شامل نہیں ہے ، اگر ہم یوں کہیں کہ اس کی اصطلاحی تعریف بھی بعد کے زمانے کی ہے ابتدائی زمانے کی نہیں تو شاید یہ بعید از عقل نہیں ہے ، بلکہ اگر کچھ عرصہ پہلے تک جب تک (ایل جی بی ٹی ) کا رواج نہیں تھا، تب تک اس کی یہ تعریف نہ تھی ، اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ابھی تک اس کی تعریف متعین نہیں ہے ، بین الاقوامی تعریف بھی مختلف ہے ، یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں اس نظام کو بنایا جاتا ہے وہ اس کی تعریف کرنے پر مجبور بھی ہیں اوران میں سے ایک کی تعریف دوسرے کے موافق بھی نہیں ہے۔

بین الاقوامی معیار میں ٹرانس جینڈر شخص کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے، بلکہ اس اصطلاح کا اطلاق ان افراد کے ذریعے کیا جاتا ہے جن کی صنفی شناخت روایتی طور پر پیدائش کے وقت ان کی ظاہری حیاتیاتی جنس سے وابستہ ہونے سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کے اصل اور تنگ معنوں میں، ٹرانس جینڈر کا حوالہ مردوں اور عورتوں کو کہا جاتا ہے جو بالترتیب جنس کی شناخت خواتین اور مردوں کے طور پر کرتے ہیں۔ بعد میں اور وسیع تر معنوں میں، یہ ایسے افراد کو نامزد کرنے کے لیے آیا ہے، جن کی صنفی شناخت روایتی طور پر مخالف جنس سے وابستہ رویوں اور خصلتوں کو شامل کرتی ہے۔ٹرانس جینڈر کا تعلق زیادہ حالیہ اصطلاح genderqueer سے ہے، جس کا اطلاق ان افراد کے ذریعے کیا جاتا ہے جو یا تو ٹرانس جینڈر ہیں یا جن کی کوئی جنس نہیں ہے، تیسری (نہ تو مرد اور نہ ہی عورت) صنف، یا اتار چڑھاؤ والی صنف( انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا)

سب سے زیادہ مستعمل تعریف کمشنر برائے انسانی حقوق برائے یورپ سے منقول ہے:ٹرانس جینڈر اس تصور پر مبنی ہے کہ لوگوں کے لیے ایسی صنفی شناخت ہو سکتی ہے جو کہ پیدائش کے وقت ان کو تفویض کردہ جنس سے مختلف ہو، اور ساتھ ہی وہ لوگ جو اپنی صنفی شناخت کو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے مختلف انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

جب کہ پاکستانی قانون کے مطابق ٹرانس جینڈر کی تعریف کچھ اس طرح ہے:ٹرانس جینڈر پرسن ایک ایسا شخص ہے جوکہ,intersex(خنثیٰ)ہے، مرد اور عورت کے جنسی خصوصیات کی ملاوٹ یا پیدائشی ابہام کے مرکب کے ساتھ۔ یا خواجہ سرا جس کو پیدائش کے وقت مرد تفویض کیا/قرار دیا جاتا ہے، لیکن جنسی چھٹکارا یا کاسٹریشن سے گزرتا ہے۔ ان تعریفات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی تعریف متعین بھی نہیں ہے۔

ٹرانس جینڈر لوگوں کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ وہ قدیم زمانے سے موجود ہیں۔ معاشروں کی ایک وسیع رینج میں روایتی تیسری جنس کا کردار ادا کرتے تھے، اور ان لوگوں کو کسی نہ کسی شکل میں قبول کیا جاتا تھا۔ تاہم، اس کی ایک درست تاریخ مشکل ہے کیونکہ ٹرانس جینڈر ہونے کا جدید تصور، 1900 کی دہائی کے وسط تک تیار نہیں ہوا تھا۔ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح ایک جدید اصطلاح ہے جسے انیسویں صدی میں نصف صدی گزر جانے کے بعد پیش کیا گیا۔ٹرانس جینڈر کی اصطلاح قائم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تمام دیگر اصطلاحات کو اس میں ضم کردیا جائے اور ایک چھتری کے نیچے جمع کردیا جائے، اور اس ایک اصطلاح سے تمام دیگر مصطلحات کا خلاصہ کیا جا سکے۔

اسلام ایک کامل و مکمل دین اور ابدی ضابطۂ حیات ہے،خالق کائنات نے دین و دنیا کے تمام مسائل کے حوالے سے ابدی اصول اور ضابطے الہامی شریعت کی روشنی میں بیان کردیے ہیں۔ چناں چہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے واضح تعلیمات بیان نہ کردی ہوں، اسی طرح خنثیٰ جسے عام اصطلاح میں خواجہ سرا سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بارے میں شریعت میں تمام احکام اور تعلیمات پوری تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ فقہاء نے اپنی کتابوں میں اس حوالےسے مختلف ابواب باندھے ہیں، جن میں ان کے حقوق ،ان سے حسن سلوک اور ان سے متعلق احکام بیان کردیے گئے ہیں۔

تاہم اسلام جہاں مرد و زن کو شرم و حیا اور اخلاق و اقدار پر گامزن رہنے اور بے شرمی اور بے حیائی ،فحاشی و عریانی سے باز رہنے اور عفت وعصمت کی تعلیم دیتا ہے، وہیں یہ طبقہ بھی ان تعلیمات کا پورے طور پر مخاطب اور ان پر عمل کا پابند ہے۔اس حوالےسے ٹرانس جینڈر کے بارے میں مغربی تصور بلاشبہ ،شرم و حیا کے منافی اور انسانی فطرت کے قطعی برخلاف ہے۔جسے کسی طور نہ قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے سراہا جاسکتا ہے۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید