• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی او آرز مذاکرات ناکام ہونے پر عدالتوں میں جاسکتے ہیں، شاہ محمود

کراچی (جنگ نیوز) پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آر سے 75فیصد اتفاق کرلیاہے، کچھ اضافوں کے بعد اپنا نقطہ نظر حکومت کے سامنے پیش کردیا ہے،مذاکرات ناکام ہونے پر عدالتوں میں جاسکتے ہیں، اگلی ملاقات میں بھی پیشرفت نہ ہوئی تو ٹی او آر کمیٹی میں مزید بیٹھنا بے سود ہوگا،ہمارے ٹی او آرز صرف نواز شریف نہیں سب کیلئے ہیں۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کے ہمراہ میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاناما پیپرز میں دی گئی معلومات کی صداقت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے،اپوزیشن کے ٹی او آرز نوازشریف سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوجاتے ہیں،ٹی او آرز معاملہ کا طول پکڑنا حکومت کے حق میں نہیں ہے،پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں اصلی اور بڑی اپوزیشن کا مقابلہ ہورہا ہے،عمران خان جتنی بھی سخت بات کریں ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے میں حکومتی ٹی اوا ٓرز مناسب نہیں تھے، ہمارے ٹی او آرز صرف نواز شریف کیلئے نہیں سب کیلئے ہیں،عمران خان پر بھی وہی ٹی او آرز لاگو ہوں گے جو نواز شریف پر ہوں گے، اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آر کے 4 پیرا میں سے 3کو من و عن قبول کرلیاہے، ہم نے حکومتی ٹی او آر سے 75فیصد اتفاق کیا ہے، باقی 25فیصد میں جہاں حکومتی جملے اپوزیشن کے موقف سے مطابقت رکھتے ہیں انہیں بھی نہیں چھیڑا گیا ہے، اپوزیشن نے کچھ اضافوں کے بعد اپنا نقطہ نظر حکومت کے سامنے پیش کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کو دل بڑا کرنا ہوگا، حکومت گنجائش پیدا نہیں کرتی تو تعطل ختم نہیں ہوگا، مذاکرات ناکام ہونے پر ہم عدالتو ں میں جاسکتے ہیں، جمہوریت میں پرامن احتجاج کا حق ہمارے پاس موجود ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ اس معاملہ پر ازخود نوٹس بھی لے سکتے ہیں، وکلاء تنظیمیں بھی ٹی او آرز کے معاملہ پر عدالت میں جاسکتی ہیں، ٹی او آر معاملہ کو عید تک نہیں کھینچ پائیں گے، معاملہ کو طول دینے سے اپوزیشن یا حکومت کو فائدہ نہیں ہوگا،ٹی او آرز کمیٹی کی اگلی ملاقات میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تو اس کمیٹی میں مزید بیٹھنا بے سود ہوگا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کرپشن ہمیں لے ڈوبی ہے، معیشت میں قرض اتارنے کی سکت نہیں ہے، حکومت اور اپوزیشن آگے نہیں بڑھی تو جمہوریت کو نقصان ہوگا، جمہوریت کو پٹری پر رکھنے کے ساتھ تسلسل سے معاملہ آگے بڑھاناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں وضاحتی نوٹ شامل کررہی ہے جس پر تشویش ہے، نواز شریف کا پاناما پیپرز سے کوئی تعلق نہیں تو انہوں نے دو دفعہ قوم سے خطاب میں اپنے خاندان کی داستان کیوں سامنے رکھی۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جب دھول اٹھتی ہے تو سب کے چہرے گندے ہوتے ہیں، پاناما پیپرز میں دی گئی معلومات کی صداقت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے،کرپشن کے خاتمے کیلئے صرف پاناما پیپرز سے متعلق نہیں ہمیشہ کیلئے ایک قانون بنانا چاہتے ہیں، اپوزیشن کے ٹی او آرز میں وزیراعظم کی ذات کو فوکس کیا گیاہے، ٹی او آر کسی ایک شخصیت کے لئے نہیں ہونے چاہئیں، ٹی او آرز معاملہ کا طول پکڑنا حکومت کے حق میں نہیں ہے، چاہتے ہیں رمضان میں بات چیت سے ٹی او آر کا مسئلہ حل کرلیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز نوازشریف سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوجاتے ہیں،اعتزاز احسن نے فیملی کی جو تعریف کی ہے وہ ماورائے آئین ہے، اپوزیشن نئے قانون کا نام پاناما پیپرز ایکٹ رکھناچاہتی ہے، حکومتی موقف ہے کہ قانون کا نام عمومی رکھا جائے تاکہ ہر دور میں استفادہ کیا جاسکے، اپوزیشن نے نئے ٹی او آرز میں اپنے پندرہ سوالات سے بھی سخت پوزیشن لے لی ہے، عمران خان نے پارٹی ارکان کو عید کے بعد سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کرنے کا کہہ دیا ہے، تحریک انصاف پہلے بھی سڑکوں پر نکلی تو قوم کا وقت ضائع کیا۔ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوگئی ہے، پی ٹی آئی نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ لے لی ہے، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں اصلی اور بڑی اپوزیشن کا مقابلہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کا نام نہیں ہے توا نہیں کیوں گھسیٹا جارہا ہے، نواز شریف اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے پر سزا بھگت رہے ہیں، عمران خان جتنی بھی سخت بات کریں ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے، سیاسی جماعتیں حکومت سے اختلافات کو پارلیمنٹ میں رکھے یا عدالت میں لے جائے، سڑکوں پر آنے سے ملک غیرمستحکم ہوسکتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ حکومت کالا باغ ڈیم بنانے کی مہم شروع نہیں کررہی ہے، چیئرمین واپڈا نے اس بارے میں بات اپنی ذاتی حیثیت میں کی ہے، کالا باغ ڈیم اتفاق رائے کے بغیر نہیں بننا چاہئے۔
تازہ ترین